لاک ڈائون ہے اور فراغت ہی فراغت ہے۔ فلمیں بھی دیکھ لیں اور گھر پر پڑی کتابیں بھی ساری پڑھ لیں، ایسے میں آدمی سوچتا ہے اب کیا کروں۔ ایسے ہی لمحے میں مرحوم ایدھی بابا یاد آئے اور طبیعت بحال ہو گئی۔
ایدھی صاحب سے میری ایک ہی ملاقات تھی۔ ایک نجی چینل کے لیے ان کا انٹرویو کر چکا تو مجھے پورا یقین تھا یہ نشر نہیں ہو سکے گا۔ ڈائریکٹر پروگرام کو فون کیا انٹرویو کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد اسے نشر کیجیے گا۔ شام کو ان کا فون آیا کہ انٹرویو ہر گز نشر کرنے کے قابل نہیں تھا لیکن ایدھی بابا کی معصومیت، بزرگی اور بے ساختگی دیکھ کر ہم اسے من و عن نشر کر رہے ہیں۔ کراچی سے میں گھر پہنچا تو والدہ نے خفگی کے ساتھ پہلا سوال یہی کیا: یہ مولانا ایدھی کو ہم کیا سمجھتے تھے لیکن وہ کیا نکلے، توبہ۔۔۔ ساتھ ہی مسکرا دیں۔ شاید انہیں بھی ایدھی بابا کی معصومیت، بزرگی اور بے ساختگی کا خیال آ گیا ہو۔
ہوا یوں کہ آدھے سے زیادہ انٹرویو، ایدھی صاحب کی ابتدائی زندگی، ان کی خدمت خلق، عمران خان سے ان کے شکووں، ان کے ملک سے ہجرت کر جانے کے محرکات اور دیگر بہت سی کتابی اور سنجیدہ باتوں میں گزرچکا تو میں نے پوچھ لیا، ایدھی صاحب! آپ کو کیا اچھا لگتا ہے؟ ایدھی صاحب نے فورا کہا :لڑکیاں۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا، میں نے حیرت سے پوچھا : کیا کہا آ پ نے؟ لڑکیاں بولا میں۔
میں کنفیوژسا ہو گیا۔ ایسی صورت حال سے میں پہلی بار دوچار ہوا تھا۔ میں اگلا سوال بھی نہ کر سکا، ٹک ٹک ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے کنفیوژہوتے دیکھ کر وہ بولے :تم نے لڑکیاں کبھی نہیں دیکھیں؟ اب تک میں کچھ سنبھل چکا تھا، عرض کی :حضور لڑکیاں تو دیکھ رکھی ہیں، ایسا نوجوان پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ایدھی صاحب ذرا نہ جھینپے۔
میں نے کہا، قبلہ آپ کی عمر کیا ہے؟ کہنے لگے، اسی کے قریب ہو گی۔ اسی کے قریب آپ کی عمر ہے اور آپ ابھی تک لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں؟ سب کو نہیں، کچھ کچھ لڑکیوں کو۔۔۔ انہوں نے غالباً میری تصحیح فرمائی۔ اس عمر میں آپ یہ تکلف کیوں فرما رہے ہیں؟ ایدھی صاحب نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال داغ دیا :تمہاری عمر کتنی ہے؟ اکتیس سالسادی (شادی) ہوا؟ جی ابھی نہیں ہوئی۔
کسی نے تیرے کو بولا ادھر کراچی میں یا لاہور میں کہ مجھ سے سادی (شادی) کر لو؟ انٹر ویو کرنے میں گیا تھا لیکن اب ایدھی صاحب اینکر کے فرائض ادا کر رہے تھے۔ میں نے کہا جی نہیں ابھی تک تو کسی نے نہیں بولا۔ ایدھی صاحب نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں ایک شکست خوردہ فریق ہوں۔ بولے :مجھ سے تو ابھی کل ایک لڑکی بولا مجھ سے سادی (شادی) کر لو۔ ضد کیا مجھ سے۔ بھکر کی ہے۔ بہت فون کیا اس نے مجھ کو۔ اس لڑکی نے آپ سے شادی کرنے کا کہا؟ ہاں مجھ سے بولا۔ کئی دفعہ بولا۔ ایک یہ لڑکی نہیں بولا مجھ سے۔ بہت سی لڑکی نے بولا۔۔۔ پھر ہاتھ لہرا کر باقاعدہ مجھے طعنہ دینے لگے: تجھ سے تو کوئی نہیں بولا ناں۔ مجھ سے کوئی نہیں بولا۔ مجھے چھوڑیں یہ بتا ئیں پھر آپ نے کیا جواب دیا اس لڑکی کو؟ میں نے اس کو بولا میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں۔ پھر کیا کہا اس نے؟ وہ کہنے لگی کوئی بات نہیں، بوڑھے ہو تو کیا ہوا، ساپنگ تو کروا دیا کرو گے۔ تو کیا فیصلہ کیا آپ نے؟ ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ ایدھی صاحب نے رازدارانہ انداز میں آگے جھک کر سرگوشی کی آہستہ بولو بلقیس سن لے گی۔ آپ موبائل فون کیوں نہیں رکھتے اپنے پاس؟ مجبوری ہے۔ کیسی مجبوری؟
میری گرل فرینڈز ناراض ہو گئی تھیں۔ ایک دن سکیلہ کا فون آیا تو میں سمجھا جمیلہ کا فون ہے میں بولا ہیلو جمیلہ ڈارلنگ۔ پھر جمیلہ کا فون آیا میں سمجھا سکیلہ کا فون ہے۔ میں بولا ہیلو سکیلہ ڈارلنگ۔ دونوں ہی ناراض ہو گئیں۔ اچھا یہ بتائیں کس بات نے آپ کو بہت پریشان اوردکھی کیا؟ وہ میری دوسری بیوی تھی ناں۔ بہت سی امانتیں اور سونا اس کے پاس پڑا تھا۔ وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ میں نے سوچا ایدھی صاحب دکھی ہو گئے ہیں ان کا غم بانٹنا چاہیے۔ میں نے اظہار افسوس کیا تو انہوں نے مجھے روک دیا اور بولے : اس بات کا مجھے دکھ نہیں کہ وہ چلی گئی۔ بہت سا سونا بھی ساتھ لے گئی۔ اوہ پھر تو بہت نقصان ہو گیا ہو گا آپ کا۔ نقصان کا دکھ نہیں ہے۔ اللہ اور دے گا۔ تو پھر کس بات کا دکھ ہے؟ دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے چھوڑ کر چلی گی تو اس نے سادی کر لیا۔ اوہو۔۔۔ ابے بات تو پوری سن۔
سادی کر لینے کا دکھ نہیں ہے مجھ کو۔ تو پھر کس بات کا دکھ ہے آ پ کو؟ ایدھی صاحب نے رازدارانہ انداز میں آگے کو جھک کر کہا اور پھر اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولے :دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے چھوڑ کر سالی ایک مولبی سے سادی کر لیا۔ مولبی ہی سے سادی کرنا تھی تو میرے کو کیوں چھوڑا۔ آج سالوں بعد میں بیٹھا سوچ رہا ہوں بابا جی کیا مزے کی شخصیت تھے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ایدھی بابا نے بھی ہم سب کو چھوڑ دیا۔ وہ ہوتے تو آج کرونا کے ستائے غریب لوگ لوگ اتنے بے بس نہ ہوتے۔ بابا جی تو امداد دیتے وقت سیلفی بھی نہیں لیتے تھے۔ فوٹا سیشن بھی نہیں کرتے تھے۔ ان کے ہاں غریب کو امان تھی۔ وہ غریب کی محرومی کا اشتہار نہیں بناتے تھے۔ خدا ان کی قبر کو منور فرمائے۔