کبھی خود کو اور اپنے ارد گرد لوگوں کو غور سے دیکھیے اور پھر اس سوال پر غورکیجیے کہ لوگ ہنسنا کیوں بھول گئے؟ یہ کیا معاملہ ہے کہ ا کثریت کے چہروں پر تنائو، اضطراب اور غصہ نمایاں ہے؟ ہنستے، مسکراتے چہرے کیا ہوئے؟ اس معاشرے کو کس کی نظر لگ گئی؟
ایک دوڑ سی لگی ہے۔ ہر آدمی بھاگ رہا ہے۔ کسی کے پاس وقت نہیں۔ افراتفری کا سماں ہے۔ وحشت کے عالم میں لوگ جا رہے ہیں اور آ رہے ہیں جیسے ان کے پیچھے آگ لگی ہو یا منگولوں کا کوئی لشکران کے تعاقب میں ہو۔ افراتفری کے اس عالم میں کسی کا کندھا کسی سے ٹکرا جائے تو وہیں معرکہ کارزار برپا ہوجاتا ہے۔
لوگ بھرے پڑے ہیں۔ ان کا صبر جواب دے چکا ہے۔ ا ن کے اعصاب چٹخ چکے ہیں۔ وہ گالم گلوچ اور لڑنے جھگڑنے پر ہر لمحہ تیار پائے جاتے ہیں۔ ہر آدمی آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ سڑکوں، گلیوں، محلوں، دفتروں میں ہر دوسرا شخص پٹرول پمپ بنا ہواملتا ہے۔ ذرا سی دیا سلائی دکھا دو اور شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔
صبح دم گھروں سے جاتے اور شام کے وقت گھروں کو جاتے لوگوں کے چہروں کو کبھی غور سے دیکھیے۔ لوگ لمحہ موجود میں نہیں بلکہ اپنے اندیشوں میں جی رہے ہیں۔ کھوئے کھوئے سے لوگ، پریشان حال سے لوگ، موجود ہوتے ہوئے بھی غائب ہوتے ہیں اور دیکھتے ہوئے بھی کچھ دیکھ نہیں پاتے۔
یہ بسوں رکشوں میں بیٹھے ہوتے ہیں اور ان کی اداس نظریں خلائوں میں کچھ تلاش کر رہی ہوتی ہیں۔ دور افق پر نظریں گاڑے جانے وہ کیا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لوگ ہمیشہ کسی گہری سوچ میں گم دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں ایک لمبی سی چپ لگی ہے۔
کبھی کسی کو بے ساختہ ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ معاشرہ قہقہوں کا ذائقہ بھولتاجا رہا ہے۔ سماج کی تو اب صرف تہمت ہے، اصل میں تو ایک کریانہ سٹور ہے جو صبح دم کھل جاتا ہے اور رات کو بند کر دیا جاتا ہے۔ کریانہ سٹور میں مال بکتا ہے وہاں انسانی احساسات کا کیا کام؟ اسلام آباد میں مارگلہ کا جنگل جہاں سے شروع ہوتا ہے عافیت شروع ہو جاتی ہے، جہاں شہر شروع ہوتاہے عافیت منہ چھپا کر بھاگ جاتی ہے۔ اس کے بعد وحشت اور بھاگم بھاگ اور مارا ماری کا ایک ایسا کھیل شروع ہو جاتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔
کوئی تعلق ایسا نہیں جس کی بنیاد مفاد نہ ہو۔ شادی ہو یا غمی، احترام باہمی نہیں یہ مفاد باہمی ہے جو لیے پھرتا ہے۔ مفاد نہ ہو تو کوئی کسی سے ملنا گوارا نہیں کرتا۔ شہر پہلے ہی بے ہودہ طریقے سے سینکٹروں میں یوں آباد کیا گیا ہے کہ انسانوں کا ایک دوسرے سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہو۔ کراچی کی سیاسی گہما گہمی سے بھاگ کر ایوب خان نے اسلام آبادکو دارلحکومت کے لیے چنا اور ایک ایسا مردم گریز شہر آباد ہوگیا جہاں سماجی سطح پر قبرستان کا سا ماحول ہے۔ ہاں گاہے کچھ مجاور اور گورکن کہیں کہیں اکٹھے ہوتے ہیں اور قبروں کے ڈھیر سے امکانات تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔
شہر ایسے نہیں ہوتے نہ ہی معاشرے ایسے ہوتے ہیں۔ معاشرے لوگوں کے قہقہوں سے آباد ہوتے ہیں، جن معاشروں کے گودے میں اداسی، پریشانی اور ان دیکھا خوف سرایت کر جائے وہ معاشرے نہیں رہتے وہ قبرستان بن جاتے ہیں۔
اسلام آباد بظاہر بہت روشن شہر ہے لیکن عملا یہ ٹی ایسٹ ایلیٹ کیویسٹ لینڈ، کی یاد دلاتا ہے۔ لیکن معاملہ صرف اسلام آباد تک محدود نہیں، یہ آج ہر شہر کی کہانی ہے۔ وہی اداس چہرے، وہی خلا میں گھورتی آنکھیں، وہی بے رونقی۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔
میں سماجیات کا ماہر نہیں، اس لیے اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں۔ سماجیات اور نفسیات کے ماہرین کو اس پر غور کرناچاہیے کہ ایسا کیوں ہے، اس کے محرکات ہیں اور اس کے معاشرے پر کیا نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔
ہمارے ہاں ابھی سماجی مطالعے کی کوئی روایت پنپ ہی نہیں سکی۔ یہاں حالات حاضرہ کا مطلب صرف سیاست ہے۔ کیا اخبارات اور کیا ٹی وی چینلز، سب پر صرف سیاست چل رہی ہے۔ خبر بھی سیاست، تجزیے بھی سیاست، تاک شوز بھی سیاست۔ حد تو یہ ہے کہ تفریح کے نام پر جو مزاحیہ پروگرام شروع ہوئے ان کا مرکز و محور بھی اب سیاست ہے۔ ایک سیاست دان بلا لیا دو چار غیرمعیاری جملے کہہ لیے اور سمجھا کہ یہ تفریح ہوگئی ہے۔
سماج مگر ایک سنجیدہ موضوع ہے۔ اس چیز کا مطالعہ ہونا چاہیے کہ معاشی دبائو اور غیر یقینی جیسے عوامل نے معاشرے کی عمومی نفسیات پر کیسے کیسے تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ جاننے کی سخت ضرورت ہے کہ ملک میں کتنے فی صد آبادی دماغی طور پر صحت مند ہے اور کتنی آبادی بیماریوں سے گزر رہی ہے۔ ایسا کوئی سنجیدہ مطالعہ ہو تو اس کے نتائج انتہائی خوفناک بھی ہو سکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس خطے میں ذہنی صحت کے سب سے سنگین مسائل افغانستان اور پاکستان میں ہیں۔ افغانستان تو عشروں جنگوں کی تباہ کاری سے گزرا لیکن پاکستان کا معاملہ کیاہے؟ پاکستا ن کی کل بیماریوں کا چار فیصد ذہنی امراض سے متعلقہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ڈھائی کروڑ پاکستان مختلف ذہنی امراض کا شکار ہیں اور ان امراض کے معالج ملک میں اتنے کم ہیں کہ ایک لاکھ لوگوں کے لیے صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے۔
یعنی ہمارے ہاں اس مسئلے کو مسئلہ ہی نہیں سمجھا رہا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سماجی سطح پر ایک آتش فشاں سلگ رہا ہے۔ ہم اس سے بے خبر سہی لیکن ہماری یہ لا علمی اس کی تباہ کاری کو کم نہیں کر سکتی۔ ذہنی امراض کی ہمارے ہاں ایک ہی شکل معروف ہے کہ کوئی آدمی آخری درجے میں پاگل ہو جائے۔ اس سے پہلے کے مراحل کو ہم اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ ان پر غور کیا جائے۔
یہ ڈھائی کروڑ والے اعدادو شمار بھی عالمی ادارہ صحت کے ہیں، پاکستان کے اندر کسی سطح پر ایسی کوئی کاوش نہیں کی جا سکی جس سے معلوم ہو کہ ذہنی صحت کا معیار کیا رہ گیا ہے۔ اگر کسی مرحلے پر کوئی باقاعدہ اعدادو شمار مرتب کیے جائیں تو اگر آدھی سے زیادہ آبادی دماغی صحت کے مسائل سے دوچار ہو تو اس پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
معاشی بحران ان امراض کو مزید بڑھائے گا۔ لیکن یہاں کسی کو احساس نہیں کہ تیزی سے مایوس ہوتے عوام کو انگیج کیسے کرنا ہے ان کا حوصلہ کیسے برقرار رکھنا ہے اور انہیں امید کیسے دلانی ہے۔ طاقتور طبقات کے جھغرے ہیں اور ان کے مشقتی، اس جھگڑے میں ہم اس آتش فشاں سے بے نیاز ہو چکے ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
اب یہاں پر رکیے اور خود سے ایک سوال پوچھیے۔ سادہ سا سوال ہے۔ یہ کہ آپ آخری بار کھل کر کب ہنسے تھے۔ کب آپ نے قہقہے لگائے تھے؟ اس سوال کے جواب سے معلوم ہو جائے گا ہم کس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔