جاڑاشروع ہوتا ہے تو اسلام آباد میں راجہ اللہ داد خان کی قدیمی حویلی یعنی لوک ورثہ میں ایک میلہ سجایا جاتا ہے۔ یہ ایک روایت سی بن گئی تھی۔ یوں سمجھیے کہ پورے پاکستان کی ثقافت ایک قو س قزح کی صورت جنگل میں اتر آتی تھی۔ پنجاب، کشمیر، گلگت بلتستان، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ ہر صوبے کا اپنا علاقہ مختص کر دیا جاتا اور وہاں اس صوبے کے کھانوں سے لے کر اس کی ثقافت کے مختلف مظاہر سٹالز پر دستیاب ہوتے۔ ایک وقت تھا ہر چیز معیاری ہوتی تھی اور ہر صوبے کے نمایاں کاریگر اور مشہور ثقافتی اور تہذیبی رنگ یہاں دستیاب ہوا کرتے تھے۔ اب تو لگتا ہے بیوروکریسی کو صرف مال کھانے سے لگائو ہے اور گھٹیا اور غیر معیاری سٹال لگا کر مال غنیمت لوٹا جا رہا ہوتا ہے۔
اسلام آباد کے رہنے والے، اپنے علاقوں کی ثقافت کی محبت میں کھچے چلے آتے ہیں۔ یہاں آ کر پتا چلتا ہے یہ صوبائی ثقافت تو نہیں ہے، یہ تو بیوروکریسی کے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے غیر معیاری چیزوں کے مہنگے سٹالز لگا کر لوگوں سے ان کی اپنے اپنے علاقوں سے محبت کا تاوان وصو ل کیا جا رہا ہے۔ ہر سال معیار گرتا جا رہا ہے اور ہر سال بیوروکریسی کی جہازی سائز کی گاڑیوں کی آلودگی پھیلتی جا رہی ہے۔ ہر چیز کو پیٹ کی آنکھ سے دیکھنے والی یہ بیوروکریسی کیا جانے ثقافت کیا چیز ہے۔ بد ذوقی کا ایک کریہہ منظر ہوتا ہے جسے ثقافتی میلہ قرار دے کر ثقافت کی باقاعدہ تذلیل کی جاتی ہے۔
ہنر مندوں کی دست کاری اور دیگر فن کے جو مظاہر یہاں ملتے ہیں، تیسرے درجے کے ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کوئی اہتمام نہیں۔ راجہ بازار اور جی نائن کے بازاروں میں جو چیزیں سارا سال فٹ پاتھوں پر بیچی جا رہی ہوتی ہیں وہی چیزیں اٹھا کر اس میلے میں رکھ دی جاتی ہیں اور اسے ثقافت قرار دے کر پانچ چھ گنازیادہ قیمت پر بیچا جاتا ہے۔ معلوم نہیں سٹالز میں سے کون کون کھاتا ہوگا اور کتنا کھاتا ہوگا۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ یہ جو کچھ ہوتا ہے اس کا ثقافت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے بہت اچھے معیار کی چیزیں بری امام کے مزار کے سامنے قائم بازار میں قریب چھ گنا سستی قیمت پر دستیاب ہیں۔
پنجاب کی ثقافت کے جتنے بھی حوالے ہیں ان میں سے ساگ کے سوا یہاں کچھ بھی موجوود نہیں۔ جو موجود ہے وہ تیسرے درجے کا ہے۔ یہی عالم باقی صوبوں کا ہے۔ بلوچستان کی تہذیب میں ہمیشہ مجھے ایک سحر سامحسوس ہوتا ہے۔ میں یہاں جاتا ہوں تو دل کرتا ہے سیدھا بلوچستان کے سٹالز پر جائوں۔ لیکن وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ کل بلوچستان کے سٹالز پر گیا تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھی کہ کیا بلوچستان کی تہذیب و ثقافت ہے جو یہاں پیش کی جا رہی ہے؟
کچھ تو ایسا ہوتا کہ آدمی یہاں پہنچ کر بلوچستان کی تہذیب کی خوشبو محسوس کر تا۔ یہ تو ایسے ہی تھا جیسے آپ راجہ بازار کی ایک نکر سے دوسری نکر جا پہنچے ہوں۔ بلوچستان کی ثقافت سراپا حسن ہے۔ اس کے روایتی ملبوسات کے دو سٹال ہی کم از کم یہاں لگا دیے ہوتے۔ بلوچستان کی موسیقی غضب ہے۔ چند قدیم آلات موسیقی ہی رکھ لیے ہوتے۔ مارگلہ کی ڈھلتی شام میں یہاں سروز رکھا ہوتا، کوئی اس کا ماہر بیٹھا ہوتا، ساتھ کوئی طنبورا بجا رہا ہوتا۔ سروز کے بغیر کیسا بلوچستان؟ بلوچستان کے قدیم چرواہوں کی زندگی مکمل ہی سروز کے ساز سے ہوتی تھی۔
گلگت بلتستان تو ہے ہی موسیقی۔ فطرت کی موسیقی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں ایک زبان بھی بولی جاتی ہے جسے سازندوں کی زبان کہا جاتا ہے۔ اس کا نام غالبا ڈوماکی ہے۔ یہاں کے ساز دنیا کے قدیم سازوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ خوبانی کی لکڑی سے بنی سرنائی، اخرٹ سے تیار کردہ ڈامل، شہتوت سے بنا رباب، ہنزہ کا چھردہ، جنگلی بید کا ڈڈنگ، درجن بھر سوراخوں والی ڑغنی، کچھ تو یہاں رکھا ہوتا؟ کوئی تو ہوتا تو جڑے کی شام میں بان چھوس کی دھن بکھیر رہا ہوتا۔ کوئی ہوتا جو مہمانوں کے لیے تاجور کی دھن بجا رہا ہوتا، کہیں بدھ چھوس کے سر نکل رہے ہوتے۔ پتا تو چلتا گلگت بلتستان دیکھنے آئے ہیں۔
گلگت بلتستان کے لیے مختص سٹالز کے باہر داخلی دروازے پر چینی ز بان لکھی تھی جو نئے آقا کی گویا آرتی اتار رہی تھی۔ سوال یہ ہے کیا یہاں بلتستان کی نصف درجن مقامی زبانوں میں سے کوئی زبان استعمال نہیں کی جا سکتی تھی؟ بروشسکی میں لکھ دیتے، شنا میں لکھ لیا ہوتا۔ قومی خزانے پر داد عیش دینے والا کوئی بابو ہماری رہنمائی فرمائے گا کہ کس صوبے کے کارنر میں اس صوبے کی کونسی تہذیبی علامت ہے جو آپ نے مہیا کر رکھی ہے؟ کیا ثقافتی میلے ایسے ہوتے ہیں؟ بیوروکریسی کا فکری افلاس شدید ہو چکا ہے تو اس کی سزا صوبوں کی تہذیب و ثقافت کو کیوں دی جا رہی ہے؟
اسلام آباد میں اگر ایک ثقافتی میلہ لگایا جا رہا ہے تو یہ ایک سنجیدہ مشق ہے کوئی مذاق نہیں۔ یہاں دنیا بھر کے سفارت کار موجود ہیں۔ غیر ملکی بھی بڑی تعداد میں رہ رہے ہیں۔ ان کی اکثریت یہاں یہ ثقافتی میلہ دیکھنے آتی ہے۔ سوال یہ ہے ہم انہی ثقافت کے نام پر یہ کیا دکھا رہے ہیں؟
دست کاری سے لے کر اپنی مقامی ثقافت و ہنر کے اصل مظاہر کی بجائے یہ ناقص اور گھٹیا قسم کی اشیاء سے سٹال سجا کر بیورویسی کے پیٹ کا جہنم تو بھرا جا سکتا ہے لیکن اس سے ملکی ثقافت اجاگر نہیں جا سکتی۔ آپ کسی بھی صوبے کے رہنے والوں سے پوچھ لیجیے وہاں کی نمایاں ثقافتی اور تہذیبی اشیاء کیا ہیں؟ اور پھر خود ہی دیکھ لیجیے متعلقہ صوبوں کے سٹالز میں کیا وہ چیزیں موجود ہیں؟
ثقافتی میلہ محض سٹالز بیچ کر اور داخلے کے لیے ٹکٹ لگا کر تیسرے درجے کی تفریح کا نام نہیں۔ یہ ایک سنجیدہ کام ہے اور یہ اتنا سنجیدہ کام ہے جسے بیوروکریسی پر تو بالکل نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ہمارے ہاں بد قسمتی یہ ہے کہ بیوروکریٹ کو ماہر جملہ امور، سمجھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر شعبے میں بربادی کا سا عالم ہے۔
ایک بیوروکریٹ نے عرصہ ہوا مجھے راز کی بات بتائی کہ کیسے استاد مہدی حسن ایک ویزے کے لیے اس کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ بات وہ فخر سے بتا رہا تھا۔ مجھے آج بھی یاد آتا ہے تو گھن آتی ہے۔ میں اس وقت صرف اتنا کہہ سکا کہ ریٹائر منٹ کے بعد استاد مہدی حسن کے طبلہ نواز کی تیسری نسل کا شاگرد بھی شاید آپ کو منہ لگانا وقت ضائع کرنے کے برابر سمجھے۔ کیونکہ آپ میں عہدے کے علاوہ تو کوئی خوبی ہے نہیں۔
لوک ورثہ میلہ ہماری تہذیب و ثقافت کا نوحہ ہے۔ کنال کنال کی گاڑیوں میں بیوروکریٹ دندناتے آتے ہیں لیکن اتنی توفیق نہیں ہو سکی کہ اللہ داد خان صاحب کی اس شاندار اور تاریخی حویلی ہی کو محفوظ رکھا جا سکے۔ دیواریں ٹوٹ رہی ہیں اور جھروکے بکھر چکے۔ کھڑکیاں ٹوٹ کر گر رہی ہیں۔ کوئی دکھ سا دکھ ہے۔