قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی ممکنہ تقسیم پر زور و شور سے بحث جاری ہے لیکن اس بنیادی سوال پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ مخصوص نشستیں ہوتی ہی کیو ں ہیں؟ بندر بانٹ کا یہ چور دروازہ بند کیوں نہیں کر دیا جاتا؟
بنیادی جورسپروڈنس ہی یہی ہوتی ہے کہ قومی اسمبلی کا رکن عوام کے براہ واست ووٹ سے بنتا ہے۔ یہی بات آج تک قومی اسمبلی کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود ہے ا ور اس کے مطابق قومی اسمبلی کا رکن عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مخصوص نشستوں پر جو خواتین رکن قومی اسمبلی بنتی ہیں، کیا وہ عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں؟
جمہوریت کے ساتھ اس سے بھیانک مذاق کوئی اور ہو سکتا ہے کہ یہ خواتین نہ الیکشن میں حصہ لیتی ہیں، نہ انہیں کوئی براہ راست ووٹ دیتا ہے، نہ ہی ان کا کوئی حلقہ انتخاب ہوتا ہے لیکن وہ رکن قومی اسمبلی بن جاتی ہیں۔ یہ عوام کی نمائندہ بن کر قانون سازی کرتی ہیں لیکن یہ عوام کی نمائندہ ہوتی ہی نہیں۔
قومی اسمبلی کا رکن صرف عوام کے ووٹ سے بنتا ہے۔ اسمبلیوں کے ووٹ سے سینیٹرز بنتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں غیر ملکی دبائو پر یہ خواتین کے حقوق کے عنوان سے یہ چو ردروازہ کھول دیا گیا ہے۔ یہاں رات دن لمبی لمبی بحثیں ہو رہی ہیں کہ اس چور دروازے سے گزر کر کون کون اسمبلی پہنچے گا لیکن یہ سوال کوئی نہیں پوچھ رہا کہ یہ درواززہ آخر بند کیوں نہیں کر دیا جاتا۔
آئین کے آرٹیکل 25 میں کہا گیا ہے کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حق دار ہیں، نیز یہ کہ جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ جنس کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت ہے تو جنس کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کا رکھا جانا کیا تضاد میں شمار کیا جائے گا؟ اگرچہ اسی آرٹیکل 25 کی ذیلی دفعہ 3 میں خواتین کے تحفظ کے لیے خصوصی اہتمام کی گنجائش دی گئی ہے لیکن جنس کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کے اس اہتمام کا خواتین کے تحفظ سے کیا تعلق ہے؟
اسی طرح آئین کے آرٹیکل 34 میں قومی زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی بات بھی کی گئی ہے لیکن اس کا قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں سے کیا واسطہ ہے؟ بظاہر یہ قانون قومی زندگی میں خواتین کی شرکت کو بڑھانے کے لیے وضع کیا گیا لیکن عملاً یہ ہوا کہ پارلیمان کے دروازے اس قانون کے باوجود خواتین پر نہ کھل سکے اور صرف چند گھرانوں اور چند شہروں کی خواتین ہی اس قانون سے فیض یاب ہوئیں۔
مخصوص نشستوں پر انتخاب کے لیے سیاسی جماعتیں اپنی خواتین کی ایک فہرست جمع کروا دیتی ہیں کہ ہماری طرف سے مخصوص نشستوں کی امیدوار یہ خواتین ہیں۔ یعنی کسی جماعت کے حصے میں عام انتخابات کے بعد خواتین کی جتنی مخصوص نشستیں آتی ہیں، اس جماعت کی طرف سے جمع کرائی گئی فہرست میں پہلے نمبروں پر موجود اتنی ہی خواتین قومی اسمبلی کی رکن بن جاتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں کی یہ فہرست بتاتی ہے کہ اس قانون کی آڑ میں سیاسی اشرافیہ کیا کھیل کھیلتی چلی آ رہی ہے۔ یہ خواتین نہ الیکشن میں حصہ لیتی ہیں، نہ انہیں کوئی براہ راست ووٹ دیتا ہے، نہ ہی ان کا کوئی حلقہ انتخاب ہوتا ہے لیکن وہ رکن قومی اسمبلی بن جاتی ہیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس طریقے سے خواتین کو تو کوئی فائدہ نہیں ملا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ چند مخصوص شہروں اور چند مخصوص گھرانوں کی خواتین کو الیکشن کے بغیر اسمبلی میں پہنچنے کا چور دروازہ مل گیا۔ یعنی جو اصول خواتین کو پارلیمان میں لانے کے لیے نرم کیے گئے، ان کا فائدہ خواتین کو نہیں بلکہ چند شہروں کی اور چند گھرانوں کی خواتین کو ہی ملا۔
فافن (فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) کی دو فروری 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی 57 فیصد خواتین صرف چھ بڑے شہروں اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کی رہائشی تھیں۔ پنجاب اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین میں سے 59 فیصد کا تعلق لاہور سے تھا۔ سندھ اسمبلی میں 66 فیصد کا تعلق کراچی سے تھا۔ بلوچستان اسمبلی میں 73 فیصد کا تعلق کوئٹہ سے اور خیبر پختونخوا میں 50 فیصد کا تعلق پشاور سے تھا۔
اس طرح ملک کے 136 اضلاع میں سے 105 اضلاع ایسے تھے جن میں سے مخصوص نشستوں پر ایک بھی رکن قومی اسمبلی نہیں تھا۔ اسی طرح پنجاب کے 23، بلوچستان کے 32، خیبر پختونخوا کے 30 اور سندھ کے 20 اضلاع میں قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر خواتین کی نمائندگی نہیں تھی۔ ہواصرف یہ کہ چند بڑے شہروں کی سیاسی اشرافیہ نے اس قانون کی آڑ میں اپنے گھر کی خواتین کو الیکشن کے تکلف کے بغیر اسمبلیوں میں لا بٹھایا اور اس واردات کو خواتین کے حقوق کا نام دیا گیا ہے۔
خیال خاطر احباب میں، میں یہاں نام نہیں لکھ رہا کہ کس حالیہ انتخابات میں کس کس جماعت نے مخصوص نشستوں کی فہرست میں کس کس خاتون کا نام لکھا اور کون کون سی محترم خاتو ن کس کس سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتی ہے لیکن یہ کوئی راز کی بات تو نہیں ہے۔ فہرستیں بھی موجود ہیں اور الیکشن کمیشن نے ان فہرستوں میں سے کامیاب امیدوارو ں کی جو فہرست دی ہے وہ بھی دستیاب ہیں۔ اپنے اپنے سیاسی آقائوں کی محبت میں تعلقات، دوستی اور رشتے داری تک کو نفرت کی بھینٹ چڑھانے والے کارکنان کو چاہیے کہ اس فہرست کا مطالعہ کریں کہ کس کس قائد انقلاب نے مخصوص نشستوں کے نام پر کس کس کو نوازا ہے۔ اس کے بعد وہ چاہیں تو از رہ مروت بیٹھ کر سوچیں کہ یہ چند گھرانوں کو کب تک نوازا جاتا رہے گا؟ ٹکٹ بھی ان ہی کو ملتے ہیں اور مخصوص نشستوں کے نام پر بھی ان ہی کو نوازا جاتا ہے۔ کارکن کی مبلغ اوقات اور افادیت کیا ہے؟
اس بندو بست سے عام خواتین کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ صرف چند شہروں اور چند گھرانوں کا لنگر خانہ ہے اور وہ اس پر شکم فرماہیں۔ حقوق نسواں کے نام پر مغرب سے دبائو آیا تو ہم نے اپنی پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصول ادھیڑ دیے اور براہ راست ووٹ سے رکن اسمبلی بنانے کی بجائے چور دروازہ کھول لیا اور غیر منتخب "عوامی نمائندے" قومی اسمبلی میں لا بٹھائے۔ نظریہ ضرورت کی یہ دلیل اگر درست ہے کہ چونکہ خواتین اس معاشرے میں جیت کر کم ہی آ سکتی ہیں اس لیے ایوان میں ان کے لیے خصوصی اہتمام کیا جائے تو پھر جیت کر تو کوئی بھی متوسط طبقے کا پڑھا لکھا آدمی نہیں آ سکتا۔ پھر یہ اہتمام سب طبقات کے لیے کیوں نہیں؟ پھر متناسب نمائندگی پر انتخابات کروائیے اور اصول بنا دیجیے کہ اتنی خواتین، اتنے کسان، اتنے علماء، اتنے ماہرین قانون، اس تناسب سے اسمبلی میں آئیں گے۔
چور دروازہ اگر کھلا رکھنا ہے تو اس سے سب طبقات کو گزرنے دیجیے ورنہ ا سے بند کر دیجیے۔