پاکستان کے نئے نقشے میں صرف جونا گڑھ شامل نہیں، اس نقشے میں مناوادر بھی شامل ہے۔ مسئلہ کشمیر سے جڑی بھارت کی نفسیات کو درست تناظر میں سمجھنا ہو تو مناوادر، جودھ پور اور حیدرآباد میں جو ہوا اسے جان لینا چاہیے۔ یہ مقدمہ کشمیر کی واقعاتی شہادتیں ہیں۔
ریاست مناوادرکے سربراہ غلام محی الدین کو ہندوستان کی تقسیم کے فارمولے کے تحت دو آپشن دیے گئے کہ آپ پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔ خان آف مناوادر نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ تقسیم کے فارمولے کے تحت خان آف مناوادر کے اس فیصلے کے بعد مناوادر کی ریاست پاکستان کا حصہ بن گئی۔ بھارت نے ریاست کے پاکستان میں شامل ہونے کے بعد یہاں فوج اتاری اور قبضہ کر لیا۔
چند چیزیں اہم ہیں :اول: ریاست کا پاکستان سے الحاق ہو چکا تھا۔ دوم: یہ الحاق ریاست کے کسی حادثاتی سربراہ نے نہیں کیا تھا بلکہ خان آف مناوادر غلام محی الدین نے جب الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تو انہیں ریاست کی حکمرانی کرتے 29 سال ہو چکے تھے۔ وہ 1918 سے اس ریاست کے سربراہ تھے۔ ان کی عملداری بھی قائم تھی۔ وہ مہاراجہ کشمیر کی طرح ریاستی دارالحکومت سے فرار نہیں ہوئے تھے۔ سوم: الحاق تقسیم ہند کے فارمولے کے عین مطابق اور جائز تھا۔ چہارم: جب بھارت نے مناوادر پر قبضہ کیا تو یہ محض مناوادر کی ریاست پر نہیں یہ پاکستان کے ایک علاقے پر قبضہ تھا۔ پنجم: یہ قبضہ اقوام متحدہ چارٹر کی صریحا خلاف ورزی اورجارحیت تھا۔
کشمیر کے باب میں یہ عذر اختیار کیا جاتا ہے کہ قبائلی لشکر کشمیر میں نہ گھستا تو بھارت کو فوجیں اتارنے کا جواز بھی نہ ملتا۔ کشمیر میں قبائلیوں کے داخلے کے اپنے حقائق اور وجوہات ہیں جو میں انہی کالموں میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ لیکن مناوادر اور جونا گڑھ میں تو پاکستانی قبائل کا کوئی لشکر نہیں اترا تھا یہاں بھارت نے کیوں فوج کشی کر دی؟ یہاں توہمارا کوئی فوجی نہیں گیا تھا، کشمیر کی طرح یہاں کوئی بغاوت بھی نہیں ہوئی تھی، کسی ہندو کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی تھی اور ریاست کے جائز اور موجود حکمرانوں نے الحاق کا فیصلہ بھی کر دیا لیکن اس کے باوجود بھارت نے لشکر کشی کر دی۔
قبضے کے بعد بھارت نے وہاں ایک عدد استصواب رائے کرایا۔ یہ استصواب رائے اس عالم میں ہو رہا تھا کہ ریاست کا تیس سال حکمران رہنے والا جائز اور قانونی خان بھارت نے گرفتار کر لیا تھا۔ خان آف مناوادر کو بھارت کی قید سے اس وقت رہائی ملی جب "لیاقت نہرو پیکٹ" ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ملک کے ساتھ الحاق کرنے والی ایک ریاست پر دوسرا ملک قابض ہو کر وہاں کس حیثیت سے استصواب رائے کروا سکتا ہے؟ اس کے ساتھ ایک سوال یہ بھی ہے کہ تقسیم ہند کے فارمولے کے عین مطابق جب والی ریاست نے الحاق کر دیا تو اس الحاق کی تنسیخ کا اختیار بھارت کو کس قانون نے دیا تھا؟
حیدر آباد میں کیا ہوا؟ نظام آف حیدر آباد کو فیصلے میں تامل تھا۔ نظام کی پہلی ترجیح یہ تھی کہ اس کی ریاست آزاد حیثیت برقرار رکھے۔ دوسری ترجیح پاکستان کے ساتھ الحاق تھا۔ وہ ابھی پہلے آپشن کے لیے کوشاں تھا۔ حیدر آباد کی ریاست ہندوستان کی امیر ترین ریاست تھی اور ہندو سرمایہ کروں کے ترجمان اور ہندو شائونزم کی علامت سردار پٹیل کی اس پر نظر تھی۔ بھارت کے عزائم کو محسوس کرتے ہوئے حالات کی نزاکت کے تحت اس نے اقوام متحدہ کو لکھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت سلامتی کونسل کو لکھا کہ یہاں تنازعہ کی کفیت پیدا ہو سکتی ہے اور امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اس لیے اقوام متحدہ اپنا کردار ادا کرے۔ سلامتی کونسل میں یہ درخواست زیر بحث آنے سے قبل بھارت نے فوج بھیج کر حیدرآباد پر قبضہ کر لیا۔ سوال یہ ہے کیا تقسیم برصغیر کے فارمولے، اقوام متحدہ کے چارٹر اور انٹر نیشنل لاء کی دیگر دستاویزات کے مطابق کیا بھارت کے اس اقدام کا کوئی قانونی جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟
جودھ پور کا راجہ بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتا تھا۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے اس کے معاملات طے ہو رہی تھے۔ لیکن اسے باقاعدہ دھمکایا گیا۔ اور یہ دھمکی صرف سردار پٹیل کی جانب سے نہیں دی گئی بلکہ بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن بھی اس کام میں سردار پٹیل کے ساتھ تھے۔ The Story of the Integration of the Indian States میں وی پی مینن لکھتے ہیں کہ مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ جودھ پور کو کہا کہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنے کی صورت میں انہیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ کیونکہ مائونٹ بیٹن کے خیال میں جودھ پور کا پاکستان سے الحاق تقسیم کے اس اصول کے خلاف تھا جو مسلم اور غیر مسلم آبادی کے تصور پر کھڑا تھا۔ سوال یہ ہے کہ مائونٹ بیٹن کے یہ اصول کشمیر میں کیوں نہ بروئے کار آ سکے؟ اور کوئی اصول تھے بھی یا نہیں؟
آزاد کشمیر کے تناظر میں جو طبقہ "مطالعہ پاکستان" کی پھبتی کستا ہے اور جس کا خیال ہے قبائل کشمیر نہ جاتے تو بھارت کشمیر پر قبضہ نہ کرتا انہیں قبائل کے کشمیر میں گھسنے کے سیاق و سباق کو بھی سمجھنا چاہیے اور جوناگڑھ، مناوادر، جودھ پور اور حیدر آباد کا منظر نامہ سامنے رکھ کر پوری تصویر کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو انگریز آرمی چیف کے قائد اعظم کو لکھے گئے خط کا تناظر درست طور پر سمجھ آ جاتا ہے کہ جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ پاکستان فوری طور پر اپنی فوج کشمیر میں اتارے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت جنوب میں بھمبر، میر پور اور پونچھ اور شمال میں مظفر آباد اور کوہالہ تک کے علاقوں پر قبضہ کرنے کے لیے بڑھ رہا ہے۔ اگر وہ بھمبر اور میر پور تک پہنچ جاتا ہے تو گویا وہ دریائے راوی اور دریائے چناب کی رکاوٹیں عبور کر چکا ہو گا اور جہلم کا پل اس کی دسترس میں ہو گا۔ پاکستان اور اس کے درمیان کوئی قدرتی رکاوٹ حائل نہیں ہو گی۔ یہی نہیں بلکہ منگلا ہیڈ ورکس کے پانیوں پر بھی بھارت کا قبضہ ہو گا۔ یہ قبضہ ہو گیا توپنجاب کے کئی اضلاع اس کے رحم وکرم پر ہوں گے۔
اب پاکستان نے جونا گڑھ کے ساتھ مناوادر کو بھی اپنے نئے نقشے میں شامل کر دیا ہے۔ یہ وہ دعوی ہے جو انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں ثابت شدہ ہے۔ قانونی اعتبار سے ان دونوں ریاستوں پر پاکستان کے دعوے کو جھٹلایا ہی نہیں جا سکتا کیونکہ یہ ریاستیں ایک جائز اور مسلمہ قانونی عمل کے ذریعے پاکستان کا حصہ بنی تھیں اور ان پر بھارت نے قبضہ کر لیا۔
ان ریاستوں پر دعوی ایک عزم بھی ہے اور تذکیر بھی۔ ہماری نسل کو معلوم ہونا چاہیے حقائق کیا تھے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر کے باب میں جو ملامتی بیانیہ پیش کیا جاتا ہے علم اور حقیقت کی دنیا میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ان ریاستوں کے معاملے میں بھارت کا کردار اور رویہ مسئلہ کشمیر کی تفہیم میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ مقدمہ کشمیر کی واقعاتی شہادتیں بھی ہیں۔