Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Margalla Jal Raha Hai

Margalla Jal Raha Hai

مارگلہ ایک بار پھر جل رہا ہے۔ آگ جنگل میں لگی ہے، دھواں دل سے اٹھ رہا ہے۔ تین دن سے جنگل جل رہا ہے۔ ٹریل فائیو سے دائیں جانب جنگل کا بڑا علاقہ جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ آگ کی شدت کا یہ عالم ہے کہ دن کی روشنی میں راول جھیل کے کنارے پرکھڑے ہو کر دیکھا تو آگ کے شعلے نظر آ رہے تھے۔ جنگل جل رہا ہے اور شہر میں سکون ہی سکون ہے، سوچتا ہوں کیا کنکریٹ کے اس شہر میں کوئی شخص ایسا نہیں جس کے سینے میں دل ہو؟

یہ کوئی ایسا حادثہ نہیں جو پہلی بار ہوا ہو۔ مارگلہ میں یہ ہر سال کی کہانی ہے۔ گذشتہ پندرہ سالوں میں 332 دفعہ جنگل کو آگ لگ چکی ہے۔ 2003 میں مارگلہ کے جنگل میں اکہتر (71) مرتبہ آگ لگی تھی۔ 2004 میں 62 دفعہ اور 2006 میں 40 بار جنگل میں آگ لگی۔ اب تک مجموعی طور پر 500 ایکڑ رقبے میں چیڑ اور صنوبر کے درخت جل چکے ہیں۔ تازہ ترین آتشزدگی کی تباہ کاریاں کیا ہیں، یہ تو تب معلوم ہو گا جب یہ آگ " چند لمحوں بعد" تھم جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ حادثہ بار بار ہو رہا ہے تو اس کے محرکات اور وجوہات کیا ہیں اور ان کے تدارک کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

ٹریل فائیو کی ندی کے کنارے بیٹھا، اوپر اٹھتے دھویں کو دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں یہ کیسا نیشنل پارک ہے جہاں ایک سال میں 71مرتبہ آگ لگ جاتی ہے اور پورے شہر میں سکون رہتا ہے۔ نیشنل پارک کو ہم نے باقاعدہ قانون سازی کر کے جانوروں اور پرندوں کے لیے جائے امان قرار دیا ہے۔ کیا جائے امان ایسے ہوتی ہے؟ سینکڑوں بار پرندوں کے گھونسلے اور جانوروں کے ٹھکانے جل گئے اور کیا معلوم کتنے ہی پرندے اس آگ میں جل کر راکھ ہو گئے ہوں گے لیکن مجھے نہیں یاد اسلام آباد میں کبھی کسی نے احتجاج کیا ہو کہ ہمارا جنگل، ہمارے پرندے اور ہمارے جانور ہر سال کیوں جلائے جاتے ہیں؟ پتھر کا شہر ہے جس میں پتھر رہتے ہیں۔ جنگل پرندوں اور جانوروں کے بارے میں یہاں کون سوچے؟

ایک یا دو بار آگ لگے تو یہ حادثہ ہو سکتا ہے لیکن جب آگ بار بار بھڑکتی ہے تو یہ حادثہ نہیں واردات ہے۔ اس واردات پر کوئی کھل کر بات کیوں نہیں کرتا؟ اتنا خوبصورت جنگل ہے، جنگل میں چشمے ہیں، بہتی ندیاں ہیں، لومڑیاں ہیں، ہرن ہیں، چیتے ہیں، کتنی ہی قسم کی تتلیاں اور پرندے ہیں، کیا پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں کوئی ایسا حساس دل نہیں جو اس جنگل سے پیار کرتا ہو اور اس کے تحفظ کے لیے کچھ کر گزرنے کو تیار ہو؟

ایک وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ ہے لیکن جنگل کے جل اٹھنے کا اس سے شکوہ نہیں بنتا۔ اسے تو اس حادثے کا پرسہ دینا بنتا ہے۔ محدود سا اس کا سٹاف ہے اور کیا ہی شاندار سٹاف ہے۔ ہمہ وقت متحرک، ہمہ وقت دستیاب۔ آگ پر قابو پانا البتہ وائلڈ لائف کے بس کی بات نہیں۔ اس کے پاس نہ وسائل ہیں اور افرادی قوت۔ لیکن اس کے باوجود وائلڈ لائف کے لوگ بساط سے بڑھ کر میدان عمل میں پائے جاتے ہیں۔ وائلڈ لائف کا ایک اہلکار ٹریل فور پر قتل کر دیا گیا اور شہر اقتدار کے لیے یہ سرے سے کوئی واقعہ ہی نہ تھا لیکن وائلڈ لائف نے اس جنگل کی حفاظت گھر کی طرح کی ہے۔ زخمی پرندوں کی نگہداشت سے لے کر جنگل کی صفائی تک اور صفائی رضاکاروں سے لے کر مقامی کمیونٹی کو انگیج کرنے تک وائلڈ لائف ہر مورچے پر موجود ہے۔ جنگل میں مرغ سیمیں کے ساتھ ساتھ اگر لوگوں کو لومڑیاں اور ہرن بھی نظر آنے شروع ہو گئے ہیں تو اس حسن جانفزا کے پیچھے وائلڈ لائف کے اہلکاروں کی ان تھک محنت موجود ہے جس کے ہم جیسے لوگ شاہد ہیں۔ اس افرادی قوت کے ساتھ ایک ٹریل سنبھالنا مشکل ہے لیکن وہ پورا جنگل سنبھالے ہوئے ہے۔ وائلڈ لائف والوں کا شکریہ قرض تھا، شکر ہے آج ادا ہوا۔

آگ کیوں لگتی ہے؟ بہت سی وجوہات ہیں، اگر کوئی غور کرے۔ یہ سچ بھی صرف وائلڈ لائف نے بولا ہے کہ لوگ ایندھن کے لیے درخت کاٹتے ہیں۔ روکنے پر رد عمل میں آگ لگا دیتے ہیں۔ تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مارگلہ کے اس پار وادی میں جو گائوں ہیں ان تک گیس پہنچا دی جائے؟ نہ ایندھن کی حاجت ہو نہ جنگل کو خطرہ رہے۔ آخر حکمت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ہر معاملہ تعزیر کے کوڑے سے حل نہیں ہوتا، بصیرت کو بھی کہیں بروئے کار آ ہی جانا چاہیے۔ یاد رہے کہ تازہ آتشزدگی میں بھی موقع پر ماچس کی ڈبیا پائی گئی ہے جو ساری کہانی سنا رہی ہے۔

جنگل بہت بڑا ہے۔ جب تک مقامی آبادی کو انگیج نہیں کیا جاتا، جب تک انہیں احساس نہیں دلایا جاتا کہ جنگل آپ کا ہے اور اسے آپ نے بچانا ہے تب تک آپ آگ پر قابو نہیں پا سکتے چاہے جتنے مرضی انتظامات کر لیں۔ آپ کہاں کہاں پہرے دار کھڑے کریں گے؟ کسی کونے سے کسی لگڈنڈی سے کوئی آئے گا اور ٓاگ لگا جائے گا۔ خطرہ مقامی آبادی سے ہے تو حل بھی مقامی آبادی ہی سے تلاش کیا جانا چاہیے۔ یہ وہی فارمولا ہے جو جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے وادی سون میں بروئے کار آیا ہے اورچرواہے وائلڈ لائف کے دست و بازو بن گئے ہیں۔ نتائج حیران کن ہیں۔ کیونکہ شکاری وائلڈ لائف والوں سے تو چھپ سکتا ہے، چرواہوں سے کیسے چھپے گا؟

یہی فارمولا مارگلہ میں لاگو کیا گیا تھا۔ آتشزدگی کے بڑھتے واقعات کے بعد ہر سال مقامی آبادی میں سے تین سوکے قریب لوگ اس موسم میں عارضی طور پر بھرتی کیے جاتے تھے تا کہ آگ نہ لگے۔ وہ مقامی لوگ جنگل کے نگہبان بن جایا کرتے تھے۔ کیا سی ڈی اے سے کوئی پوچھے گا کہ اس سال ان لوگوں کو کیوں بھرتی نہیں کیا گیا؟ کوئی ہے جو ہمیں بتائے کہ سی ڈی اے نے یہ بھرتیاں اس سال نہ کر کے جو پیسے بچائے، وہ زیادہ تھے یا جنگل کی تباہی کا نقصان ز یادہ ہے؟ وائلڈ لائف والے اکیلے کیا کریں، اگر پتھر کے شہر میں کوئی بھی ان کا ساتھ نہ دے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran