اسلام آباد میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعض تقاریب میں غیر ملکی معزز مہمان مقامی لوگوں کو تہذیب اور اقدار سکھاتے پائے جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب مارگلہ کی دہلیز پر سجی تھی اور معزز مہمان مقامی لوگوں کو سمجھا رہے تھے، جنگلی حیات کتنی اہم ہے اور اس کا تحفظ کیوں ضروری ہے۔ خطاب ختم ہوا تو میزبان نے خود پر رقت طاری کرتے ہوئے فدویانہ انداز سے عرض کی، حضور کا اقبال بلند ہو، جناب کی سرپرستی اور تعاون رہا تو ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب مقامی لوگ بھی آپ کی طرح مہذب ہو جائیں گے اور جانوروں کا شکار بند کر دیں گے۔ یہ گفتگو سنی تو خیال آیا کیا اس محفل کے شرکاء میں سے کسی کو علم ہے، برطانیہ کے شہر ایگزیٹر کے 153 سال پرانے رائل البرٹ میوزیم اینڈآرٹ گیلری میں جو بنگالی شیر حنوط کر کے رکھا ہوا ہے وہ کہاں سے آیا تھا؟ یہ شیر اس میوزیم کو کسی غیر مہذب ہندوستانی شکاری سے ضبط کر کے نہیں دیا گیا تھا بلکہ یہ تحفہ جناب کنگ جارج پنجم کی جانب سے میوزیم کو پیش کیا گیا تھا اور یہ شیر ان 39 شیروں میں سے ایک تھا جنہیں بادشاہ سلامت کی سرپرستی میں مسلسل دس دن جاری رہنے والی شکاری مہم کے دوران مارا گیا۔ پہلا شیر بادشاہ سلامت نے مارا اور پھر 600 ہاتھیوں پر مشتمل اس قافلے کے شکاریوں کے ہاتھوں شیروں سے ہرن اور چیتے تک کسی شے کو امان نہ تھی۔ جو شیر بادشاہ سلامت کے ہاتھوں مارا گیا وہی اب رائل البرٹ میوزیم میں رکھا ہے۔
اشوکا یونیورسٹی کے ماحولیات کے پروفیسر مہیش رانگراجن نے اپنی کتاب Indian Wildlife History میں دعوی کیا ہے کہ 1875 سے لے کر 1925 کے دوران برطانوی فوجی افسران اور شکاریوں کے ہاتھوں ہندوستان میں 80 ہزار شیر وں کا شکار ہوا۔ آج بر صغیر کے اس پورے خطے میں چند ہزار شیر رہ گئے ہیں لیکن 1860 میں ان شیروں کی تعدادایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ شیروں کی یہ ساری نسل اس دور میں ماری گئی جب بر صغیر پر مہذب لوگوں کی حکومت تھی اور وہ اہتمام سے شیروں، چیتوں اور تیندووں کا شکار کیا کرتے تھے۔
ایڈ ورڈ پرچرڈ گھی نے بھی The Wildlife of India میں لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے شروع میں بھی یہاں مقامی شہروں کی تعداد 40 ہزار کے قریب تھی (یعنی 1900 تک ساٹھ ہزار شیر مارے جا چکے تھے) جو بعد میں چند ہزاروں تک رہ گئی۔ The Wildlife of Indiaکا دیباچہ نہرو نے لکھا تھا۔ شیروں کا جس بے رحمی سے قتل عام ہوا وہ معلوم انسانی تاریخ کا افسوسناک باب ہے۔ نہ صرف برطانوی افسران نے چن چن کر شیروں کو مارا بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ ایک شیر مارنے والے کو دس روپے انعام دیا جائے گا۔ لارڈ اینڈ لیڈی کرزن کی مردہ شیروں کے ساتھ فخر کے ساتھ بنوائی تصاویر آج بھی برطانوی میوزیم کی زینت ہیں۔
برطانوی دور میں ہی برصغیر میں شیروں کے شکار کو رومانوی رنگ دیا گیا۔ جم کاربٹ جیسے شکاری نے ہندوستان میں شیروں کے شکار پر درجن بھر کتابیں لکھ ڈالیں۔ ان کی اکثر کتابیں آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیں۔ یہی نہیں ہالی وڈ نے یہاں فلمیں بنانا شروع کر دیں۔ Tiger's Claw اور Between Savage and the Tiger جیسی فلمیں بننے لگیں جو ہالی وڈ میں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ شیر بے چارے اپنے قتل عام کے لیے یوں دستیاب تھے کہ فلموں کی شوٹنگ کے لیے اصل شکار کی سہولت دستیاب ہوا کرتی تھی۔ ہالی وڈ کے پروڈیوسر یہاں تشریف لاتے، ہاتھیوں پر کیمرے نصب ہو جاتے اور مہذب لوگوں کی تفریح کی خاطر شیروں کا قتل عام شروع ہو جاتا۔
ایک فلم The Man Eater کی شوٹنگ کے لیے آٹھ شیر صرف اس لیے مارے گئے کہ پروڈیوسر صاحبان کے شکار کی فلم بندی کے مناظر سے مطمئن نہ تھے۔ چنانچہ ان کے اطمینان کی خاطر یکے بعد دیگرے آٹھ شیروں کا شکار کیا گیا۔ ایلس ڈنگن جیسے فلم ڈائرکٹرز کی شیروں کے شکار کی ویڈیوز آج بھی یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ جو فلموں کی شوٹنگ پر آتے اور جی بھر کر جانوروں کا قتل عام کرتے۔ ڈیوک آف کناٹ کی ویڈیو بھی موجود ہے جس میں وہ ہاتھیوں کے قافلے اور پیادہ دستوں کے ساتھ شیروں کا شکار کرتے ہیں۔ ہرفرڈ تائن کولنگ نامی ایک امریکی فوٹو گرافر یہاں آیا اور صرف فوٹوگرافی کا شوق پورا کرنے کے لیے شیر مارتا رہا۔ دسمبر 1924 کے امیرکن سینماٹوگرافر کے شمارے کے مطابق اس نے 7 شیر وں کا شکار کیا۔ مقامی وائلڈ لائف کو یوں برباد کیا گیا کہ بادشاہ سلامت، وائسرائے اور ڈپٹی کمشنر صاحبان ہی نہیں فلموں کے پروڈیوسر اور فوٹوگرافر بھی یہاں آ کر جنگلی حیات کا قتل عام کرتے رہے۔
ولیم رائس اور جم کاربٹ جیسے شکاریوں نے اپنی کتابوں کے عنوان یوں باندھے کہ کماون کا آدم خور، مندر کا خونخوار چیتا، کماون کے مزید آدم خور، اتر کھنڈ کا آدم خور شیر، ردرا پریاگ کا آدم خور چیتا۔ ان کتابوں سے یہ تاثر دیا گیا کہ انگریز شکاری تو جیسے مسیحا بن کر آئے اور انہوں نے لوگوں کو آدم خوروں سے نجات دلائی۔ ان زمانوں کی لکھی کتابوں کے تراجم ہمارے سکولوں کی لائبریریوں میں آج بھی مل جاتے ہیں۔ میں نے بھی زمانہ طالب علمی میں ایسی بہت سی کتابیں پڑھیں۔ سندر بن کا آدم خور، آگرہ کا آدم خور، اتر پردیش کا آدم خور، کشمیر کا خونی چیتا وغیرہ۔ ان کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو شیر اور چیتے اس وقت مارے گئے جب جنگلوں میں ریل کی پٹری بچھائی جا رہی تھی اور یہ حملہ آور ہو جاتے تھے یا پھر آدم خور شیر اور چیتوں کا شکار کیا جاتا تا کہ آبادی محفوظ رہے۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ جسے یونیورسٹی آف اوویلونائے کے ایسو سی ایٹ پروفیسر اور مورخ ڈاکٹر جوزف سرامک نے بیان کر دیا ہے۔ پروفیسر جوزف سرامک اپنی کتاب Face Him Like a Briton میں لکھتے ہیں کہ برطانوی راج میں ہندوستان میں شیروں کے اس بے رحمانہ شکار کی ایک وجہ ٹیپو سلطان سے انگریز کی نفرت بھی تھی۔ (جاری ہے)