مارگلہ ایک پہاڑ یا ایک وادی کا نام نہیں۔ یہ پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے جس میں بہت سی وادیاں اور درے ہیں۔ ہر وادی کے اپنے رنگ ہیں اور ہر درے کی اپنی کہانیاں۔ بس آپ کی قسمت اچھی ہو اور اترتے جاڑے کے کسی سنہرے دن میں کوئی باتونی چرواہا آپ کو میسر ہو جائے۔ کسی چراگاہ سے گزرتی ندی کے کنارے وہ آپ کو ایسی کہانیاں سنائے گا جیسے اس نے ساری عمر حسینوں میں گزاری ہو۔ یہ چرواہا اگر تلہاڑ کے عابد کی طرح بانسری کے سروں پر بھی قدرت رکھتا ہو تو بس یوں سمجھیے آپ ایک پرستان میں ہیں۔ اوپر بدلتے موسم کے بادلوں میں پریاں بال سکھا رہی ہیں اور ندی میں کھلکھلاتا پانی ان کے قہقہے ساتھ لیے جا رہا ہے۔
درہ کوانی مارگلہ کا معبد ہے۔ دنیا سے کٹا ہوا۔ نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات۔ بلھے شاہ کو یہیں بسیرا کرنا چاہیے تھا۔ ایک ز مانہ تھا میں اس درے سے ہوتا ندی کے ساتھ ساتھ چلتا پہاڑ پر چڑھتا درہ بولدار پہنچ جایا کرتا تھا۔ درہ کوانی سے درہ کالنجر، درہ بولدار، درہ بالیماہ، درہ سنیاری، ان قدیم راستوں پر زمانے بکھرے پڑے ہیں اور ان زمانوں کے کچھ لمحے میری یادوں سے لپٹے ہیں۔ اب تو درہ کوانی بند ہے، یہاں تیندووں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
کچھ سالوں کی بات ہے یہیں اوپر اس چرواہے عابدسے شناسائی ہوئی۔ بالیماہ کا چاچا یعقوب کہتا تھا یہ عابدتمہیں جھوٹ سچ سناتا رہتا ہے اور تم سنتے رہتے ہو۔ میں کہتا چاچا یعقوب ساتھ بانسری بھی تو سناتا ہے۔ بہت سال پہلے مجھے لالہ زار کے ایک خانہ بدوش نے جب پری بدر جمال کی یاد میں گرنے والے جن کے آنسو سے آنسو جھیل نکال لی تو میں تھوڑا سا کھانسا کہ داستان گو سمجھ جائے اور کچھ رعایت سے کام لے۔ بوڑھے خانہ بدوش نے مجھے اس وقت سنجیدگی سے بتایا تھا کہ لوک داستانیں سنتے وقت جو سچ جھوٹ میں پڑ جاتے ہیں کسی دھند بھری شام میں انہیں جنگل میں راستہ بھول جاتا ہے۔
میں چونکہ مارگلہ کے جاڑے کی دھند میں راستہ نہیں بھولنا چاہتا تھا، اس لیے میں چرواہا کی داستان بانسری کی طرح اشتیاق سے سنتا تھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا یہ بدھو بن کیا ہے؟ بن تو ہو گیا جنگل لیکن بدھو کی کیا کہانی ہے؟
اس نے بتایا کہ مارگلہ اصل میں ایک بہت بڑی شکار گاہ تھی۔ یہاں ہرنوں کی مختلف اقسام ہوتی تھیں اور غول در غول پھرا کرتے تھے۔ مار کا مطلب شکار اور گلہ کا مطلب ہرنوں اور غورالوں کے ریوڑ۔ چرواہے کا کہنا تھا کہ جب اسلام آباد بن رہا تھا تو بابو لوگوں نے ادھر بہت شکار کھیلا۔ لیکن جنگل کا جو حصہ درہ کوانی کی ندی کے جھنڈ سے اس پار درہ بولدار سے پہلے آتا ہے یہاں ایک سادھو بزرگ رہتا تھا۔ یہ سادھو کا احترام تھا یا اس کی برکت تھی لیکن جنگل کے اس حصے میں کبھی کوئی شکاری شکار کرنے نہیں گیا۔ یہاں ہر جانور کو امان تھی۔ سب کو پتا تھا کہ یہ شکار گاہ نہیں ہے۔ یہ بدھو بن ہے۔ یہ سادھو کا جنگل ہے۔ جو یہاں داخل ہو گیا اسے امان مل گئی۔
اتفاق دیکھے کہ اس وقت اوپر ہزارہ اور مری کے علاقوں سے جنگلی حیات بھاگ کر جان بچا کر عین اسی علاقے میں رہ رہی ہے جو بدھو بن کہلاتا ہے۔ حتی کہ شادرا کے علاقے کے تیندوے بھی ادھر آ چکے ہیں اور درہ کوانی میں عام لوگوں کا داخلہ بند ہو چکا ہے۔ دو سال پہلے جب وائلڈ لائف بورڈ نے اس علاقے کو عام لوگوں کے لیے یہ کہہ کر بند کر دیا کہ اب یہ لیپرڈ پریزرو زون، ہے تو مجھے چرواہے عابد کی بہت یاد آئی۔ میں برڈنگ ٹاور پر بیٹھ کر کتنی ہی دیر اس کی باتیں دہراتا رہا۔
شادرا سے آگے نکلیں تو سر سبز پہاڑوں پر کچھ خشک پتھر ایسے پڑے ہیں جیسے انسان کھڑے ہوں۔ زعفران چیچی بتاتے ہیں کہ شادرا اور ماندلہ کے بڑے بوڑھے بتایا کرتے تھے کہ یہاں ایک سادھو ملنگ ہوتا تھا۔ ادھر سے ایک بارات گزری تو سادھو ملنگ نے ان سے پیسے مانگے۔ دولہے نے اس ملنگ کو ڈانٹ دیا۔ ملنگ نے غصے میں کہا جائو پتھر بن جائو اور ساری بارات پتھر بن گئی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ پتھر اسی ترتیب میں پڑے ہیں کہ دیکھیں تو لگتا ہے انسانوں کے سر ہیں۔ یہ لوک داستان سن کر میں سوچ رہا تھا ایک ہی وادی کے دو سادھو بابے مزاج میں کتنے مختلف نکلے۔
یہیں ایک بڈ ھ واہن ہے۔ یہ اوپر پہاڑوں پر ایک غار ہے۔ مقامی زبان میں بڈ ھ بھیڑ کو کہتے ہیں، برسات میں پہاڑوں کا پانی جس راستے سے بہتا گزرتا ہے اسے واہن کہا جاتا ہے۔ روایت یہ ہے کہ ایک بھیڑ اس غار سے پہاڑ میں داخل ہوئی اور کشمیر سے جا کر نکلی۔ میں نے جب یہ کہانی سنی تو ذہن میں سوال تو آیا کہ کب داخل ہوئی اور کب نکلی اور کیا لائیو ٹرانسمیشن چل رہی تھی کہ لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ اب طویل سفر کر کے بہت دور کشمیر میں جلوہ افروز ہو رہی ہے۔ لیکن میں نہیں چاہتا کہ جاڑے کی کسی دھند میں لپٹی شام پہاڑوں میں بھٹک جائوں اس لیے میں نے خود کو ڈانٹا کہ بالکل بھیڑ اسی غار سے گئی تھی اور کشمیر میں جا کر نکلی تھی۔
یہ ڈھلتے بھادوں کی ایک شام تھی، مارگلہ کی وادی میں بیرسٹر عدنان کے فارم پر ہم بھیڑ کے دودھ کی لکڑی کی آگ پر تیار چائے پی رہے تھے کہ یہی باتیں چل نکلیں۔ ولایت سے لوٹے ایک بیرسٹر صاحب نے کندھے اچکا کر کہا یہ کیسے ممکن ہے کہ بھیڑ پہاڑ میں گھس جائے اور کشمیر سے جا نکلے۔ عدنان نے کہاآصف سے پوچھ لیں۔
میں نے کہا عدنان ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ بھیڑ پہاڑ میں گھسی تھی اور کشمیر میں جا کر نکلی تھی۔ بیرسٹر صاحب نے پھر کندھے اچکائے: یہ کیسے ممکن ہے۔ جسٹ نان سنس۔
میں نے کہا عالی جاہ اگر یہ ممکن ہے کہ ایک کشمیری بکرا برطانوی فوج کی انفنٹری بٹالین میں لانس کارپورل کے طور پر بھرتی ہو جائے اور پھر ملکہ کی سالگرہ کی تقریب میں نامناسب رویہ اختیار کرنے اور لائن سے نکل جانے کی گستاخی پر اس کے عہدے میں تنزلی کر دی جائے، پھر اس کی باقاعدہ ریٹائرمنٹ ہو جائے اور اس کی جگہ ریکروٹمنٹ بورڈ ایک نیا بکرا فوج میں بھرتی کر لے۔ نئی بھرتی کے ساتھ اس کے راشن کا قانون بھی بنا لیا جائے اور طے کر دیا جائے کہ اسے شراب تب ملے گی جب یہ ولیم ونڈسر صاحب بالغ ہو جائیں گے، اور اگر یہ ممکن ہے کہ آپ کے بکرے جنگوں میں حصہ لینے پر برٹش وار میڈل اور حتی کہ جنگ عظیم میں وکٹری میڈل کے بھی حق دار ٹھہریں تو مارگلہ کی بھیڑ بھی پہاڑ کو چیر کر کشمیر تک جا سکتی ہے۔
ہم نے اگر آج تک آپ کے بکرے کی بہادری اور بہادری پر اسے دیے گئے میڈل پر سوال نہیں اٹھایا تو آپ بھی جذبہ خیر سگالی کے طور پر ہماری بھیڑ کی اس کوہ پیمائی کو صدق دل سے قبول کر لیں تا کہ باہمی دلچسپی کے امور پر آئندہ بھی تبادلہ خیال ہوتا رہے۔