مارگلہ کی پہاڑیوں کو نیشنل پارک کادرجہ تو دے دیا گیا لیکن کیا ہمیں کچھ معلوم بھی ہے کہ نیشنل پارک کا مطلب کیا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہوتے ہیں؟ نیشنل پارک کے ساتھ کیا ایسے ہی وحشیانہ سلوک کیا جاتا ہے جو ہم مارگلہ کے ساتھ کر رہے ہیں؟
مارگلہ کے پہاڑوں کا یہ قریب چالیس کلومیٹر کا علاقہ ہے جسے اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈی ننس 1979 کے ذریعے نیشنل پارک کی حیثیت دیتے ہوئے جنگلی حیاتیات کے لیے " جائے امان" قرار دیا گیا۔ آج چار دہائیوں بعد سوال یہ ہے کہ کیا اس نیشنل پارک میں جنگلی جانوروں کووہ امان حاصل ہو پائی جس کا وعدہ اس آرڈی ننس کے ذریعے کیا گیا۔
مارگلہ کے بیچ سے ایک سڑک گزرتی ہے۔ جو آگے جا کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک سڑک نیچے وادی تلہاڑ میں چلی جاتی ہے اور دوسری سڑک منال سے پیر سوہاوہ کی طرف نکل جاتی ہے۔ اس سڑک نے عملا نیشنل پارک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ جانوروں کے لیے ایک حصے سے دوسرے حصے میں آنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے بلکہ شمال مشرقی حصے میں تو جنگلی حیاتیات کے لیے رہنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے اور یہی عالم رہا تو اس حصے میں صرف کہانیاں باقی رہ جائیں گی۔
مرغزار سے یہ سڑک اوپر جاتی ہے۔ ٹریل ٹو، ٹریل تھری، ٹریل فائیو اور ٹریل فائیو اے اس کے دائیں جانب رہ جاتے ہیں۔ یہ سڑک ٹریل ٹو کے پاس سے گزرتی ہے اور اوپر سے گھوم کر ٹریل فائیو ٹاپ کے پاس سے گزرتی ہے۔ ٹریل فائیو ٹاپ پر سڑک اور آگے وادی میں گائوں ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہا کہ اوپر سے جانوروں کی آمدورفت آسانی سے ہو سکے۔ یوں سمجھیے کہ یہ علاقہ "لاک" ہو چکا ہے۔ اس میں جو جانور بچ رہے ہیں وہ اسی علاقے تک محدود ہو گئے ہیں۔ ان کے پاس ایک ہی راستہ باقی ہے کہ وہ ٹریل فائیو اے سے ہوتے برونڈی اور رملی اور پھر آگے شادرا کی طرف نکل جائیں۔
سڑک کی دوسری جانب ٹریل فور اورٹریل سکس کا علاقہ ہے جو کالنجر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں لوگوں کی آمدو رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں پورے علاقے میں کوئی ایسی بڑی سڑک نہیں گزرتی جو جنگل کو دو حصوں میں تقسیم کر دے۔ یہاں وہی آتے ہیں جنہیں جنگلوں کی محبت کھینچ لاتی ہے۔ چنانچہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں چیتوں، ہرنوں، لومڑیوں اور بھورے ریچھوں کو سازگار ماحول ملتا ہے۔ مارگلہ ٹریلز پر چیتوں کی جو حالیہ تصاویر اسلام آباد وائلڈ لائف والوں نے شیئر کی ہیں وہ انہی دو ٹریلز پر لی گئی ہیں۔
ٹریل فور اور فائیو کا یہ علاقہ جنگلی حیاتیات کا مرکز ہے۔ لیکن یہ ناجائز شکار کا بھی مرکز ہے کیونکہ یہاں بھی جانور عملا محصور ہو چکے ہیں۔ 2018 کے جاڑے میں اسی ٹریل سکس پر وائلڈ لائف کے اہلکار سفیر حسین شاہ کو کسی نے سر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ شہر اقتدار میں کسی کو پرواہ نہیں کہ یہ قتل کیسے ہوا اور کس نے کیا۔ بے زبان جانوروں کو بچاتے ہوئے سفیر حسین نے تو جان دے دی لیکن یہ قربانی دو سطری خبر کی جگہ بھی نہ پا سکی۔
طریق واردات بہت آسان ہے۔ نیشنل پارک پہلے ہی دو حصوں میں بٹ چکا۔ ایک حصے میں اوپر آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جانور دوسری سمت بھاگتے ہیں اور دھر لیے جاتے ہیں۔ ٹریل فور اور سکس کا سینہ گزٹ کسی روز سامنے آ گیا تو لوگ حیرت سے انگلیاں منہ میں داب لیں گے کہ شہر اقتدار کے سائے میں نیشنل پارک میں بے زبان جانوروں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہا۔
نیشنل پارک میں سے گزرنے والی اس سڑک پر ٹریفک بے پناہ ہے۔ اوپر منال پر ہوٹلز بن گئے ہیں کیونکہ آرڈی ننس میں جنگل کو نیشنل پارک تو قرار دے دیا گیا لیکن دفعہ 21 میں یہ عجیب و غریب گنجائش دے دی گئی کہ یہاں ہوٹلز قائم ہو سکتے ہیں۔ اب ان ہوٹلز کو جاتی گاڑیاں، ان کا شور، ان کا دھواں یہ سب گویا جانوروں کے گھروں میں بلااجازت گھس کر اودھم مچانے والی بات ہے۔ ہر روزان ہوٹلوں پر ہجوم ہوتا ہے۔ رمضان کے دنوں میں تو افطار سے سحر تک یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ پھر ساری سڑک پر لائٹیں نصب کر دی گئی ہیں۔ کیا کوئی ہے جو سوچ سکے کہ اس شور، اس غیر ضروری آمدو رفت، اس دھویں اور اس ٹریفک کے سیلاب کا نیشنل پارک میں کیا کام؟
اس سڑک پر رات کے پہلے پہر اتنی ٹریفک ہوتی ہے کہ اس کے شور اور ان روشنیوں میں کسی جانور کے لیے اس سڑک کو عبور کر کے جنگل کی دوسری طرف جانا ممکن ہی نہیں۔ یہ سڑک گویا اس جنگل کی دیوار برلن بن گئی ہے۔ جنگلی حیاتیات رات کی خاموشی میں چلتی پھرتی ہے اور ہمارے مصنوعی پن کی وحشتوں نے اس جنگل سے اس کی رات ہی چھین لی ہے۔ جانور کہاں جائیں؟ یہ کیسا نیشنل پارک ہے کہ درہ کوانی میں رہنے والے جانور درہ جنگلاں تک نہیں جا سکتے؟
ان ٹریلز کے اندر کی صورت حال بھی تکلیف دہ ہے۔ لوگ جاتے ہیں اور پانی کی بوتلیں اور شاپرز وہیں پھینک کر آجاتے ہیں۔ پچھلے سال گرمیوں میں، بوہڑی کے چشمے پر میں دوپہر میں سستا رہا تھا کہ وائلڈ لائف کے اہلکار وہاں سے گزرے۔ ان کے ہاتھ میں مرغ سیمیں تھا، جو مر چکا تھا۔ بعد میں پتا چلا اس بے چارے نے کہیں کھانے کی کسی چیز پر چونچ ماری تو ساتھ ہی شاپر کا کچھ حصہ اندر چلا گیا۔ اب معلوم نہیں گلے میں پھنسنے کی وجہ سے مر گیا یا کھا کر مر گیا لیکن ایک انتہائی حسین پرندہ کسی کی لاپرواہی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ اب خاصا متحرک ہے اور جنگل میں پلاسٹک کے خلاف اس نے بہت محنت سے مہم چلا رکھی ہے۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ لیکن خرابی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ اصلاح احوال اب صرف اس بورڈ کے بس کی بات نہیں۔ سماجی اور حکومتی سطح پر سب کو اپنی ذمہ داریاں محسوس کرنی چاہییں۔
نیشنل پارک سے گزرتی سڑک پر آمدورفت کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ مقامی لوگوں کو تو نہیں روکا جا سکتا لیکن سیاحوں کے لیے گالف کارٹ کی طرز پر کوئی سروس شروع کرنی چاہیے تاکہ گاڑیوں سے ہر ممکن حد تک جنگل کو نجات ملے۔ سکیورٹی کے مسائل آڑے نہ آ رہے ہوں تو چیئر لفٹ بھی لگائی جا سکتی ہے۔ سڑک پر غیر ضروری روشنی کو کم کرنا چاہیے۔ رات دس بجے کے بعد مکمل نہ سہی تو نصف روڈ لائٹس آف کر دی جائیں تو جنگلی حیاتیات کو بہت ریلیف مل سکتا ہے۔
نیشنل پارک کو کنکریٹ کا جنگل مت بنائیے۔ پہلے ہی دامن کوہ پر غیر ضروری جدت لا کر اس کا حسن تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ ہوٹلز اور یہ مصنوعی روشنیوں کی چکا چوند، ان کے لیے اسلام آباد شہرکیا کم ہے؟ جنگل میں صرف چاند کی روشنی اچھی لگتی ہے۔ شاخوں سے چھن کر آتی ہے تو پگڈنڈیوں پر قوس قزح کے رنگ بکھر جاتے ہیں۔