بہار آتی ہے تو اسلام آباد کے راستے پھولوں سے اور ہسپتال مریضوں سے بھر جاتے ہیں۔ پولن الرجی کا یہ عذاب ہمارے فیصلہ سازوں کے فکری افلاس کا تاوان ہے، جو آج ہم ادا کر رہے ہیں، کل ہماری نسلوں کو ادا کرنا ہو گا۔
اسلام آباد سے پہلے مارگلہ کے پہاڑ خشک اور ویران نہ تھے۔ پرانی تصاویر آج بھی دستیاب ہیں، دیکھا جا سکتا ہے، ان میں وہی حسن تھا، جو پوٹھوہار کے باقی پہاڑوں میں ہے۔ غیر ملکی ماہرین شہر کی پلاننگ کر رہے تھے، انہیں مقامی تہذیب کا کچھ علم نہ تھا۔ ایوب خان صاحب فیصلہ ساز تھے، جو حکم اور تعمیل کے بیچ کسی وقفے کے ذائقے سے آشنا نہ تھے۔ ایک شام فیصلہ ہوا، اسلام آباد کو مزید سر سبز بنانا چاہیے۔ مقامی درختوں اور پھلدارپودوں کی ایک فہرست پیش کی گئی، جسے یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ مقامی درخت بڑا ہونے میں وقت لیتے ہیں اور پھلدار پودوں کو بہت نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
فیصلہ سازوں کو اسلام آباد " جلد از جلد" سر سبز چاہیے تھا۔ چنانچہ " ماہرین کرام" نے شمال مشرقی ایشیاء سے جنگلی توت منگوانے کا مشورہ دیا، بتایا کہ: اسے نہ پانی درکار ہو گا نہ نگہداشت، بس اس کا بیج لا کر پھینک دیجیے اور تماشا دیکھیے۔ یہ مشورہ قبول فرما لیا گیا۔ اسلام آباد میں اور مارگلہ کی پہاڑی کے ساتھ ساتھ جنگلاں گائوں کے شمال مشرق سے لے کر درہ کوانی سے آگے درہ کالنجر تک اس پردیسی درخت کا بیج جہازوں کے ذریعے پھینکا گیا۔
دوسرے ہی سال اسلام آباد میں " وبا " پھیل گئی۔ 1963 میں اسلام آباد میں جو تھوڑی بہت آبادی تھی، جاڑا ختم ہوتے ہی سرخ ناک، بہتی آنکھیں اور اکھڑتی سانسیں لیے، الامان الامان پکارتی اکلوتے طبی مرکز جا پہنچی۔ شہر میں خوف پھیل گیا کہ یہ کون سی وبا آ گئی ہے۔ پاکستان آرکائیوز کی لائبریری میں اس زمانے کے راولپنڈی سے شائع ہونے والے اخبارات دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے، شہر میں سراسیمگی سی پھیل گئی تھی کہ یہ ہو کیا گیا ہے۔ تیسری بہار میں جا کر معلوم ہو گیا کہ جو منحوس بیج بویا گیا تھا، یہ اس کا فیض عام ہے۔
یہ جنگلی توت مقامی ماحول کے لیے سازگار نہیں ہے۔ اس کی شاخوں میں زہر ہے۔ اسلام آباد کے جنگلوں کی ایک ایک پگڈنڈی میں نے گھومی ہے اور مجھے آج تک اس کی شاخوں میں کوئی گھونسلہ نظر نہیں آیا۔ کوئی پرندہ اس پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ اس درخت کی وجہ سے پرندوں پر کیا بیتی اگر اس کا مطالعہ ہو جائے تو درد کے نئے عنوان سامنے آ جائیں۔ سر شام اس میں سے باقاعدہ دھواں نکلتا ہے۔ اس کے نیچے تو کیا اس کے پاس بھی کھڑا ہونا ممکن نہیں رہتا۔ کبھی اس کی شاخوں پر بہار کی رت میں کوئی چڑیا، کوئی بلبل کوئی پرندہ دکھائی نہیں دیا۔
دنیا میں 1500 تک پہنچ جائے، تو یہ پولن کائونٹ خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اسلام آباد میں پولن کائونٹ 82 ہزار تک پہنچا ہے۔ مارچ کے آخری ایام میں چالیس سے پچاس ہزار تو معمول کی کارروائی ہے۔ ناک میں کھجلی ہوتی ہے، چھینکیں آتی ہیں۔ آنکھیں بہتی ہیں۔ گلا خشک ہو جاتا ہے اور اس میں درد ہونے لگتا ہے۔ سانس کی تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔ سینے سے آوازیں آتی ہیں اور آپ سو نہیں پاتے۔ پولن الرجی صرف دمے کا باعث نہیں بنتی، یہ بلڈ پریشر اور دل کے دورے کا باعث بھی بن جاتی ہے۔
اسلام آباد میں باقاعدہ اعدادو شمار دستیاب نہیں کہ پولن الرجی سے کتنے لوگ مرے اور کتنے لوگ کن دوسرے امراض کا شکار ہوئے۔ کرونا کی طرح کسی ایک بہار میں یہ اعدادوشمار اہتمام سے جمع کر لیے جائیں تو ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ یہ درخت اور مرض بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا حل تلاش نہ کیا گیا تو بہار میں اسلام آباد میں رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ شہر نہیں رہے گا مقتل بن جائے گا۔
جنگلی توت کو کاٹنے کے کئی منصوبے بھی بنے لیکن یہ سخت جان درخت ہے۔ کاٹ کر پھینک دینے سے یہ ناسور ختم نہیں ہوتا۔ پھر اگ آتا ہے۔ چند سال پہلے اسے کاٹنے کی مہم چلی اور 2017میں پولن کے مریض پچاس ہزار رہ گئے لیکن اگلے ہی سال پولن سے متاثر ہو کر ہسپتالوں کا رخ کرنے والے مریضوں کی تعداد ایک لاکھ تیس ہزار ہو چکی تھی۔
درخت کاٹنے کی مہم بھی ناقص تھی۔ طے یہ ہوا کہ تین مراحل میں درخت کاٹے جائیں گے۔ پہلے سال یعنی 2018 میں تعلیمی ادورں سے، 2019میں رہائشی علاقوں سے اور 2019-20میں پارکوں سے انہیں کاٹا جائے گا۔ سوال یہ ہے یہ مہم ہمہ جہت کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟ بیوروکریسی کا کمال ہی یہی ہے ہر چیلنج کو یہ اپنے لیے معاشی امکان بنا لیتی ہے۔ چنانچہ اس وقت بھی بیس ہزار سے زیادہ یہ درخت موجود ہیں اور بعض دستاویزات کے مطابق آج بھی اسلام آباد کا ساٹھ فیصد سے زیادہ درخت یہی جنگلی توت ہے۔
ہر موسم میں ایک درخت کے ساتھ پندرہ بیس مزید درخت اگ آتے ہیں۔ ان چھوٹے درختوں کو مقامی لوگ کاٹتے ہیں تو پکڑ لیے جاتے ہیں کیونکہ تازہ قانونی پوزیشن یہ ہے کہ اسلام آباد سے درخت نہیں کاٹا جا سکتا۔ چنانچہ یہ درخت پھر سے پھیل رہے ہیں۔
اس عذاب سے نجات کے لیے ایک ہمہ جہت پالیسی کی ضرورت ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر تمام جنگلی توت کاٹ کر آگ لگا کر اس کی راکھ اڑا دینی چاہیے۔ اس کے بعد مقامی درخت لگانے چاہیں۔ اس ضمن میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں مقامی درختوں کے بیج مارگلہ کے پہاڑوں میں پھینکے گئے ہیں لیکن ہمیں ایک جارحانہ مہم کی ضرورت ہے تاکہ مقامی اور پھلدار درخت اگائے جا سکیں۔ مارگلہ کا درہ جنگلاں اور درہ کوانی میں جنگلی زیتون کے بہت سے درخت ہیں۔ انہیں پیوند کر دیا جائے تو یہ کارآمد درخت بن سکتے ہیں۔ بارہ ندیاں ہیں جن کے کنارے پھلدار درخت لگائے جا سکتے ہیں۔
یہاں عالم یہ ہے کہ نرسریاں غیر ملکی پودوں اور جھاڑیوں سے بھری پڑی ہیں۔ فخرسے بتایا جاتا ہے کہ یہ بوٹی اور یہ بیل ملائیشیا سے منگوائی گئی ہے اور یہ پودا انڈونیشیا سے آیا ہے۔ یہ گھاس اٹلی سے آئی ہے اور یہ جھاڑی جرمنی سے منگوائی گئی ہے۔ احساس کمتری کے مارے لوگ انہیں گھروں میں لگا کر خوش ہوتے ہیں۔ پنج پھلی (لانتا کمارا) کی لعنت بھی باہر سے منگوائی گئی تھی اور اب اس نے تباہی پھیلا دی ہے۔
ایسی شرمندہ نسل یہاں پروان چڑھ چکی ہے، جسے نہ مقامی لباس اچھا لگتا ہے نہ اپنی زبان اور ثقافت۔ حتی کہ پودے، بیلیں اور درخت بھی انہیں امپورٹڈ چاہییں۔ معلوم نہیں یہ مقامی ہوا میں سانس کیسے لے لیتے ہیں؟ ان کے بس میں ہو تو جرمنی اور امریکہ سے آکسیجن کے سلنڈر منگوا کر پشت پر لادے پھریں کہ ہم مقامی آکسیجن سے اپنے گلوبل پھیپھڑوں کو خراب نہیں کر سکتے۔ ہم امپورٹڈ ہوا میں سانس لیں گے۔ ایک زرعی ملک میں عالم یہ ہے کہ یورپ سے منگوائی مصنوعی گھاس سے لان سجائے جا رہے ہیں۔
جنگل بھی سوچتا ہو گا، کیسے لوگوں سے واسطہ پڑ گیا ہے، جو اپنی شناخت کے ہر حوالے سے شرمندہ پھرتے ہیں۔