مارگلہ کی وادی میں منال سے تھوڑا آگے ایک فاریسٹ ریسٹ ہائوس ہے۔ زمانہ طالب علمی میں پورے چاند کی کتنی ہی راتیں یہاں گزاریں۔ پیر سوہاوہ یہاں ساتھ ہی ہے۔ یہاں اسلام آباد کی حدود ختم ہو جاتی ہیں اور کے پی کے شروع ہو جاتا ہے۔ پختہ سڑک بھی یہاں ختم ہو جاتی اور آگے ٹوٹا پھوٹا سا ایک رستہ پہاڑوں میں دور تک جاتا دکھائی دیتا۔ چاندنی راتوں میں ہم فاریسٹ ریسٹ ہائوس سے نکل کر پیدل ہی پیر سوہاوہ تک آتے اور ہزارہ کی طرف پھیلی وادیوں میں ٹمٹماتے چراغ جیسی روشنیاں دیکھ کر یہی سوچتے کہ آگے کی وادی کیسے ہو گی؟ کاش رستہ ٹھیک ہو تا تو جا کر دیکھ آتے۔
مارگلہ کی وادیاں اور پگڈنڈیاں تو یوں گھوم گھوم کر دیکھ رکھی ہیں کہ سارے راستوں اور چور راستوں تک کی خبر ہے لیکن جہاں اسلام آباد کی حدود ختم ہوتیں اس بیرئر پر اپنی حدود بھی گویا ختم ہو جاتیں۔ وادی کا ایک ایک کونہ گھوم کر دیکھا لیکن جانے کیوں اس بیرئر سے آگے کبھی نہ جا سکا۔ بس ایک تشنگی اور ایک تجسس دیوار دل سے کائی کی طرح لپٹ کر رہ گیا کہ اس سے آگے کیا ہے، ان پہاڑوں کاراستہ کیسا ہو گا اور وادیوں میں شام کیسے اترتی ہو گی۔
بیریئر سے آگے کا علاقہ " بفر زون " کہلاتا تھا۔ یہ نیشنل پارک کا حصہ تو نہیں تھا لیکن مارگلہ سے آگے اور ہری پور سے پہلے کی ان وادیوں کو بھی سرکاری طور پر جنگلات قرار دیا جا چکا تھا اور یہاں تعمیرات پر پابندی تھی۔ بفر زون میں سڑک بنانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ لوگوں کا مطالبہ تھا کہ ایک سڑک بنا دی جائے تا کہ ہری پور کے وہ لوگ وہ دریائے ہرو کے اِس پار مارگلہ کے قریب رہتے ہیں وہ اوپر سے ٹیکسلا کی طرف سے ہو کر اسلام آباد آنے کی بجائے دو وادیاں عبور کریں اور مارگلہ سے ہوتے ہوئے مختصر وقت میں اسلام آباد پہنچ جائیں۔ لیکن طویل عرصہ یہ مطالبہ قبول نہ ہو سکا۔ کیونکہ اس صورت میں بفر زون کے روزرو جنگل میں بھی سڑک بنتی اور تعمیرات شروع ہو جاتیں اور پھر ٹریفک کا سارا بہائو مارگلہ کے جنگل کی طرف ہو جاتا جو خود جنگلی جانوروں کی پناہ گاہ قرار دیا جا چکا ہے اور نیشنل پارک ہونے کی وجہ سے اس شور و و غل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
چند سال پہلے مسلم لیگ کے دور حکومت میں ڈپٹی سپیکر مرتضی جاوید عباسی نے اس مسئلے کو ایک بار پھر اٹھایا کہ جنگل کی افادیت اپنی جگہ لیکن وہاں کچھ لوگ بھی بستے ہیں اس لیے ان کی آسانی کے لیے یہاں سے ایک سڑک گزاری جائے۔ سی ڈی اے نے ابتدائی طور پر اس منصوبے کی مخالفت کی لیکن کسی نہ کسی طرح منصوبہ منظور ہو ہی گیا اور ایک چھوٹی سے، خوبصورت سی کارپٹ سڑک بنا دی گئی۔ کوہالہ سے آگے دریائے ہرو کے کنارے تک یہ سڑک بن چکی ہے۔
اسی دریا کے کنارے ہمارے دوست افتخار چودھری کا گائوں ہے۔ افتخار چودھری پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات ہیں۔ وہ اپنے گائوں اور ان وادیوں کا ذکر کرتے تو تشنگی بڑھ جاتی۔ چند سالوں سے ہم پروگرام بناتے ہی رہ گئے کہ مارگلہ کے اُس پار بفر زون کے جنگل سے گزر کر افتخار چودھری کے گائوں " نلہ" جانا ہے۔ ایسی ہی ایک پلاننگ کے بیچ مفتی کفایت اللہ نے گرہ لگائی کہ افتخار کا گائوں کون سا پیرس ہے کہ اسے دیکھنے جا رہے ہو۔
افتخار چودھری صاحب کے بھتیجوں کی شادی تھی۔ گویا رسم دنیا بھی تھی، موقع بھی تھا دستور بھی تھا اور سڑک بھی بن چکی تھی۔ چنانچہ میں پہلی بار مرغزار سے دریائے ہرو کی طرف روانہ ہوا۔ یہاں پر دریائے ہرو کا حسن بھی دنیا سے پوشیدہ ہے۔ مری سے ایبٹ آباد کی طرف جائیں تو باڑیاں سے ذرا پہلے کالی مٹی کی وادیوں سے یہ دریا پھوٹتا ہے۔ یہاں کے چشمووں، بارشوں اور پگھلتی برف سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔ بانسرہ گلی سے ایک اور گھوڑا گلی سے تین بڑی ندیاں اس میں آ گرتی ہیں۔ افتخار چودھری کے گائوں نلل میں سے گزرتا یہ خان پور ڈیم کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس سے آگے اس کا سفر کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن کالی مٹی سے نلہ تک یہ دریا سڑکوں اور شور سے دور خاموش وادیوں سے سفر کرتا رہتا ہے جہاں جدید زندگی کے آثار بہت کم ہیں۔
واپس ہوئے تو دن ڈھلنے کو تھا۔ مکھنیال کے قریب جنگلات کے ریسٹ ہائوس سے نکلے اور ایک موڑ مڑے تو نیچے وادی میں شام اتر رہی تھی۔ آج کا سفر شاید اسی منظر کو دیکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔ دو تین مساجد سے اذان بلند ہو رہی تھی اور خاموش وادی میں شام کی اس اذان کے حسن کو صرف محسوس کیا جا سکتا بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اذانیں ختم ہوئیں آگے بڑھے تو اگلے موڑ پر وادی کا دوسرا حصہ سامنے تھا۔ نیچے وادی کے کسی گائوں کی مسجد سے اذان کی آواز آ رہی تھی اور یہ اتنی خوبصورت آواز تھی کہ موحول اور وجود پر سحر طاری ہو گیا۔ گائوں میں ایسا خوش الحان موذن بھی ہو سکتا ہے، یہ ناقابل یقین تھا۔
مکھنیال سے آگے وہ منظر تھا جو ناران سے آگے بیسل گائوں سے گزرنے کے بعد ملتا ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ندی بہہ رہی تھی۔ موسم ایسا نہ تھا کہ اس میں روانی ہوتی لیکن اگر اس ندی کو عین موسم میں دیکھا جائے جب اس کے پانیوں میں طغیانی ہو تو یہ وہ مقام ہے جہاں قدم پتھر ہوجائیں اور آدمی ساکت ہو جائے۔ بیسل سے آگے بھی ایک مقام ایسا ہی آتا ہے جب سڑک کے ساتھ ساتھ چشموں اور برف کا پانی سفر کرتا رہتا ہے اور دوسری جانب دریا ہوتا ہے۔ ایسے میں ساتھ شام بھی اتر رہی ہو تو اس سے حسین منظر اور کیا ہو سکتا ہے؟
مارگلہ سے ہرو تک، یہ سڑک نئی بنی ہے۔ چھوٹی سی سڑک ہے۔ باہر کی دنیا کا ابھی ادھر آنا جانا نہین ہے۔ سڑک کو مقامی لوگ ہی استعمال کرتے ہیں چنانچہ اسے میلوں لمبی چپ لگی رہتی ہے۔ نہ شور ہے نہ ٹریفک ہے نہ دھواں۔ شاندار سڑک اور قدرتی حسن۔ بس چلتے جائیے اور چلتے جائیے۔ یہاں تک کہ دریائے ہرو آپ کا راستہ روک کر کھڑا ہو جائے۔
کہیں کہیں ہوٹل بنتے نظر آتے ہیں جو اس بات کا اعلان ہے کہ کارپوریٹ کلچر نے یہاں نظریں جما رکھی ہیں۔ آنے والے سالوں میں یہاں بہت بڑا چیلنج سامنے آئے گا جب ہوٹل کھلیں گے اور سیاح آئیں گے۔ یہ سارا بوجھ مارگلہ نیشنل پارک پر پڑے گا کیونکہ ساری ٹریفک وہاں سے گزر کر آئے گی۔ اس کا کوئی حل تلاش کرنا ہو گا ورنہ یہ سارا علاقہ راجہ بازار اور مری بن جائے گا۔
تا ہم فی الحال یہ گوشہ عافیت ہے۔ غیر معمولی حسن، غیر معمولی خاموشی۔۔۔ یوں لگتا ہے زمین کا یہ حصہ ابھی ابھی تیار کر کے یہاں پیوست کیا گیا ہو۔ زندگی گویا پانچ عشرے پیچھے چلی جاتی ہے۔ بس ایک سڑک ہے جو جدت کی واحد نشانی ہے ورنہ موبائل سگنل بھی نہیں ہیں۔ آپ فطرت سے اور فطرت آپ سے باتیں کرتی ہے۔
دیکھ لیجیے ابھی میں نے کالم لکھنا شروع ہی کیا اور وہ ختم بھی ہو گیا۔ دریائے ہرو کی کہانی پھر کبھی سہی۔