جس دہائی میں دہشت گردی عروج پر تھی اس دہائی میں پاکستان میں جتنے لوگ دہشت گردی کے ہاتھوں مرے اس سے قریب چار گنا زیادہ تعداد میں لوگ سڑکوں پر حادثات میں جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دہشت گردی پر تو بڑی حد تک قابو پا لیا گیا لیکن ٹریفک حادثات میں ہونے والا " قتل عام" اسی طرح جاری ہے۔ قربان جائیے اس ملک کی سیاسی قیادت کے اور اس کی مبلغ بصیرت کے کہ اتنا بڑا انسانی المیہ کسی جماعت کے انتخابی منشور میں جگہ نہیں پا سکا۔
ٹریفک حادثات کو ہم بالعموم تقدیر کا لکھا سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ نو آبادیاتی اشرافیہ نے رعایا کو سکھایا ہی یہی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی ہر واردات تقدیر کے باب میں لکھ کر سر جھکا کر اور ہاتھ باندھ کر، اپنا نصیب سمجھتے ہوئے برداشت کر لے لیکن وہ اپنے اوپر مسلط اشرافیہ سے کبھی یہ سوا ل نہ پوچھے کہ ان کی نا اہلی اور فکری افلاس کا تاوان عام آدمی کیوں ادا کرے۔
کبھی آپ نے موٹر وے پر سفر کیا ہے؟ ذرا تصور کیجیے کہ سالٹ رینج میں یا کہیں بھی کوئی حادثہ ہو جائے تو زخمیوں کی جان بچانے کے لیے کیا کوئی بندو بست ہے؟ گاڑی خراب ہو جائے تو ریسکیو ٹیم بالعموم تین سے چار گھنٹے میں پہنچتی ہے۔ چلیں حادثے پر ذرا جلد پہنچ جاتی ہوگی لیکن کتنا جلد؟ غیر معمولی جلدی بھی دکھائی جائے تو ٹیم کو پہنچتے کم از کم ایک گھنٹہ درکار ہے۔
چلیے ٹیم پہنچ گئی، اس کے بعد کیا ہوگا؟ پوری موٹر وے پر کہیں بھی ابتدائی طبی امداد تک کا کوئی مرکز نہیں ہے۔ زخمیوں کو کسی نزدیکی شہر کے ہسپتال لے جانا ہوگا۔ اب سوچیے کہ کون سا شہر دو گھنٹے سے کم کی مسافت پر ہے؟ یعنی حادثے کی صورت میں کسی ہسپتال تک پہنچنے کے لیے اوسط دورانیہ کم از کم تین گھنٹے ہے۔ تین گھنٹے کی یہ تاخیر اب تک کتنی جانیں لے چکی ہوگی؟ کوئی اعدادو شمار ہیں کسی کے پاس؟
ریسٹ ایریا میں بھانت بھانت کے ریستوران کھل چکے ہیں لیکن طبی امداد کا کہیں کوئی مرکز نہیں۔ مناسب واش روم ہونے کے باوجود اشرافیہ کے لیے الگ سے واش روم بنا دیے گئے ہیں تا کہ ان کی بیگمات اور صاحبزادگان عام لوگوں والے واش روم شئیر نہ کریں۔ لیکن یہ خیال کسی کو نہیں آیا کہ موٹر وے پر کم از کم اتنی طبی امداد کی سہولت تو موجود ہو کہ مریض کسی نزدیکی شہر کے ہسپتال پہنچنے تک خون بہہ جانے کی وجہ سے مر نہ جائے۔
ساری توجہ ٹیکس وصول کرنے پر ہے جس میں آئے روزا ندھا دھند اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ کوئی ایسا فورم نہیں جہاں اس اضافے کا کوئی فارمولا طے ہوتا ہو یا اسے چیلنج کیا جا سکے۔ بس مزاج یار میں آیا اضافہ کر دیا۔ پھر ساتھ لکھ کر لگا دیا کہ فلاں فلاں عالی جاہ اس ٹیکس سے بھی مستثنی ہیں۔ ٹیکس وصولی میں پورا اہتمام موجود ہے کہ ایم ٹیگ کی لائن یہ ہے اور ایم ٹیگ نہیں ہے تو لائن وہ ہے۔ غلط لائن میں آئیں گے تو اتنا جرمانہ ہوگا، اور فلاں تاریخ تک ٹیگ لگوا لیجیے لیکن یہ اہتمام کہیں بھی موجود نہیں ہے کہ راستے میں کسی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تو اس کی جان کیسے بچائی جائے۔
کبھی کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ موٹر وے پر کتنا ٹیکس لیا جاتاہے اور یہ کہاں خرچ ہوتا ہے۔ نہ ہی کوئی یہ پوچھتا ہے کہ موٹر وے پر چیزیں اتنی مہنگی کیوں ہیں؟ جن اسسٹنٹ کمشنروں کو کنال کنال کی گاڑیاں پرائس چیک کرنے کے لیے دی جاتی ہیں وہ بابو لوگ آخر کہاں پائے جاتے ہیں؟
بھاری ٹیکس دے کر اور راستے میں مہنگی چیزیں خرید کر سفر کرنے والوں کا کیا یہ حق نہیں کہ راستے میں کوئی حادثہ ہو جائے تو ریسٹ ایریاز میں اس کے لیے کم از کم ابتدائی طبی سہولیات تو موجود ہوں۔ کیا پوری موٹر وے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر نہیں خریدا جا سکتا کہ زخمیوں کو بروقت ہسپتال تو پہنچا سکے؟ چالان کی مد میں کھڑے کھڑے 200 فی صد اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن طبی امداد کے لیے چند روپے خرچ کرنا گوارا نہیں۔ عوام کی جیب پر تو نظر ہے عوام کی جان کی پرواہ نہیں۔
یہی حال بلوچستان کا ہے۔ کراچی کوئٹہ ہائی وے 813 کلومیٹر پر پھیلی ہے۔ سارے راستے میں ایک بھی طبی امداد کا مرکز نہیں۔ چنانچہ یہاں حادثوں میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ادارہ شماریات کے مطابق دہشت گردی میں مارے جانے والوں کی تعداد سے دو گنا اور بعض روایات کے مطابق چار گنا ہے۔ صرف ایک سال میں یہاں 800 حادثات ہوئے۔ اسے قاتل ہائی وے کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا مجال کہ کہیں کسی بھی فورم پر کسی نے کسی سے کوئی سوال کیا ہو کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ دیگر حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ اس شاہراہ پر دس پندرہ ابتدائی طبی امداد کے مراکز کھول دیے جائیں کہ قیمتی انسانی جانیں بچائی جا سکیں۔ روزانہ دس ہزار سے زاید گاڑیاں یہاں سے گزرتی ہیں اور چند سال پہلے تک سپیڈ لمٹ چیک کرنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ ایسا نہیں کہ اب سپیڈ لمٹ چیک ہوتی ہے، صرف اتنا ہے کہ مجھے تازہ حالات کا معلوم نہیں، شاید ہوتی ہو شاید نہ ہوتی ہو۔ بلوچستان میں 40 کلومیٹر طویل سڑکیں ہیں لیکن ایک بھی دو رویہ نہیں ہے۔
یہ المیہ صرف بڑی شاہراہوں کا نہیں، اندرون شہر بھی ٹریفک کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان کا حل یہ نہیں کہ آئے روزگرین بیلٹ کاٹ کر سڑکیں چوڑی کرتے جائو کیونکہ گاڑیوں کا سمندر ہے اور ایک گاڑی میں ایک فرد جا رہا ہوتا ہے۔ ان کاحل یہ ہے کہ ایک مربوط پالیسی دی جائے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک جاندار اور قابل اعتماد نظام وضع کیا جائے۔ ٹریفک کے حوالے سے مسائل کا انبار ہے لیکن یہ مسائل ہمارے قومی سیاسی اور صحافتی بیانیے میں کہیں جگہ نہیں پا سکے۔ صرف اسلام آباد میں ٹریفک کے مسائل اتنے شدید ہو چکے ہیں کہ اس پر مضامین نہیں، پورے دفتر لکھے جا سکتے ہیں۔
مسئلہ سب کا ہے لیکن کوئی اس پر بات نہیں کر رہا۔ امید کے نخلستان کی صورت قائد اعظم یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے روح رواں جناب ڈاکٹر زمان ہیں جو اس حوالے سے متحرک ہیں اور ایچ ای سی کے ساتھ مل کر ٹریفک کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں۔ امید ہے ا ور دعاگو ہوں کہ ایک وقت آئے گا وہ ارباب اقتدار و اختیار کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ٹریفک اور اس سے جڑے مسائل ایک بہت بڑا اور سنگین مسئلہ ہیں۔
ارباب اختیار کی حساسیت کو بیدار کرنے کے لیے سماجی بیداری بھی بہت ضروری ہے۔ عوام جس المیے کے بارے میں خود حساس نہ ہوں اور جس کے حل کے لیے سماجی سطح پر آواز بلند نہ کی جا رہی ہو، ایسا معاملہ اہل اقتدار کی نگاہ انتخاب کی توجہ بھی حاصل نہیں کر پاتا۔ پاکستانی سماج کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر اسے آگے بڑھنا ہے تو لایعنی مباحث کے آزار سے نکل کر اپنے حقیقی مسائل پر بات کرنا ہوگی۔