مسجد اقصی مشرقی یروشلم میں واقع ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں اس وقت رائج بین الاقوامی قانون کے مطابق بھی یہ علاقہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ اسرائیل اس علاقے پر قابض ہے اور اقوام متحدہ نے اس قبضے کو ناجائز اور غاصبانہ قرار دے رکھا ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون آج بھی اس علاقے کو اسرائیل کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔
سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب عربوں سے کیے وعدوں کے برعکس فلسطین میں یہودیوں کو لا کر بسایا جانے لگا اور بعد میں اسرائیل قائم کیا گیا تو یروشلم شہر اسرائیل کا حصہ نہیں تھا۔ یہ آج بھی اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔
اپریل 1947 تک ان علاقوں کے معاملات برطانیہ کے پاس رہے۔ اپریل میں برطانیہ اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ یہاں 29 نومبر1947 کو جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 منظور کی۔ یہ قرارداد اسرائیل کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اور اس قرارداد کی منظوری کے لیے جو حربے استعمال کیے گئے ان کے بارے میں امریکی سیکرٹری ادفاع جیمز فرسٹل نے لکھا کہ "اقوام متحدہ میں دوسری اقوام کو دبائو میں لانے اور اسرائیل کے حق میں ووٹ لینے کے لیے جو طریقے اختیار کیے گئے وہ قریب قریب شرمناک تھے"۔
تاہم قرارداد منظور ہو گئی اور فلسطین کو تقسیم کر دیا گیا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس قرارداد کے مطابق بھی (اور یہ قرارداد اسرائیل کے قیام کی قرارداد ہے) یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ اس قرارداد میں یروشلم کے لیے Corpus separatum کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شہر ریاست اسرائیل کا حصہ نہیں ہو گا۔ یہ سب کے لیے محترم ہے اور یہ سب کا ہے۔ جنرل اسمبلی کیقرارداد نمبر 194 میں بھی اسی اصول کا اعادہ کیا گیا۔
اقوام متحدہ کا کمیشن UNCCP بھی 1949میں سوئٹزرلینڈ میں ہونے والی کانفرنس میں یہی اصول طے کر چکا ہے۔ خود اسرائیل نے مصر اردن اور شام کے ساتھ جو معاہدہ 1949 میں کیا تھا جسے Armistice agreement کہتے ہیں، اس کے مطابق بھی یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔
مشرقی یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ 1967 کی جنگ میں ہوا۔ اس سے پہلے مشرقی یروشلم کے مقامات مقدسہ اردن کے پاس تھے۔ اس جنگ میں مسجد اقصی پر اسرائیل کا قبضہ تو ہو گیا لیکن اقوام متحدہ نے اس قبضے کو ماننے سے انکار کر دیا اور قرار دیا کہ یہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ چنانچہ اقوام متحدہ کی دستاویزات اور انٹر نیشنل لاء کے مطابق اس ناجائز قبضے کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس علاقے کو آج بھی اسرائیل نہیں کہا جاتا بلکہ اسے " مقبوضہ فلسطین " کہا جاتا ہے۔
جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 22 نومبر 1967 کو قرارداد نمبر 242 منظور کی جس میں اسرائیل کو مقبوضہ جات خالی کرنے کا کہا گیا۔ یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور اسے یروشلم سے نکل جانے کا کہا گیا۔ اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ کوئی ایک ووٹ بھی مخالفت میں نہیں آیا، نہ ہی کوئی ملک ووٹنگ سے غیر حاضر رہا۔ امریکہ نے بھی اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ خود اسرائیل نے اس پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی۔ (ابھی اسرائیلی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ دیکھ رہا ہوں وہاں لکھا ہوا ہے ہمیں سلامتی کونسل نے کہا تھا کہ مقبوضہ جات خالی کر دو یہ تو نہیں کہا تھا کہ " تمام " مقبوضہ جات خالی کر دو)۔ یہ بالکل ویسی ہی دلیل ہے جیسی امریکی صدر ریگن نے دی تھی کہ بعض مقامات پر اسرائیل کی چوڑائی صرف دس کلومیٹر رہتی ہے اور اگر وہ اپنی قانونی سرحد تک محدود ہو جائے تو اس کی بقاء کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ اس لیے اسے مقبوضہ جات پر ناجائز قبضہ رکھنے کا حق حاصل ہے۔
مشرقی یروشلم میں اسرائیل کے نا جائز قبضے کو جنرل اسمبلی میں بھی زیر بحث لایا گیا۔ 4 جولائی 1967 کو قرارداد نمبر 2253 پاس کی گئی اور یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو علاقہ خالی کرنے کا کہا گیا۔ 99 ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور کوئی ایک ملک بھی ایسا نہ تھا جس نے مخالفت میں ووٹ دیا ہو۔
یہ الگ بات کہ اسرائیل نے تمام معاہدے اور تمام قراردادیں پامال کر دیں اور یہ ناجائز قبضہ برقرار رکھا۔ 1980 میں اسرائیل نے اپنا دارالحکومت یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو سلامتی کونسل نے دو مزید قراردادوں (قرارداد نمبر 476 اور قرارداد نمبر 478) میں اسرائیل کے اس ااقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیا کہ جو شہر اسرائیل کو علاقہ ہی نہیں ہے وہ اس شہر میں دارالحکومت کیسے منتقل کر سکتا ہے۔
سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ جنرل اسمبلی نے بھی اس اقدام کو انٹر نیشنل لاء کی خلاف ورزی قرار دیا۔ جنرل اسمبلی نے اسے چوتھے جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزی قرار دیا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 672 میں ایک بار پھر واضح کیا گیا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے اور یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز اور غیر قانونی ہے۔
1980 میں جب اسرائیل یروشلم کو دارالحکومت قرار دینے لگا تو مسلم دنیا نے شدید مزاحمت کی تھی اور اعلان کر دیا تھا کہ جو ملک اپنا سفارت خانہ یروشلم لے جائے گا اس سے تعلقات ختم کر دیے جائیں گے۔ اس دبائو کے تحت اسرائیل ایسا نہ کر سکا۔ لیکن اب یہ عالم ہے کہ مسلم دنیا دبائو ڈالنا تو دور کی بات ہے مذمت کے دو لفظ بولنے کے قابل بھی نہیں رہی۔ قانونی پوزیشن البتہ وہی ہے جو اوپر بیان کر دی گئی ہے کہ یروشلم اورمسجد اقصی پر اسرائیل کا قبضہ اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی روشنی میں بھی ناجائز ہے جن قراردادوں کے نتیجے میں اسرائیل قائم ہوا۔