میں اپنا یہ کالم واپس لینا چاہتا ہوں، یوں سمجھئے نہ کبھی میں نے یہ کالم لکھا، نہ کبھی یہ شائع ہوا۔ میری خوش گمانی تھی جو بد گمانی سے بھی بد تر نکلی۔ میں نے جناب عمران خان وزیر اعظم پاکستان سے اس کالم کی صورت میں ایک درخواست کی تھی، میں یہ درخواست واپس لینا چاہتا ہوں۔ جو کالم میرے ریکارڈ میں تھا، میں نے ضائع کر دیا۔ آپ کے پاس بھی اس کی کوئی کاپی پڑی ہو تو اس کو پھاڑ کر چولہے میں ڈال دیجیے۔ عمران خان سے وابستہ کسی بھی خوش گمانی کا یہ سب سے موزوں مقام ہے۔
اس کالم میں، میں نے دہائی تھی کہ جناب عمران خان قومی اداروں کو جس طرح شریفائز ااور زردارائز کیا گیااس کا نوٹس لیں۔ میں نے عرض کی تھی جناب عمران خان یہ دیکھیے شریف خاندان نے اپنے دور اقتدار میں ہسپتالوں کو ایسے "شریفائز" کیا کہ آدمی حیران رہ جائے۔ جنرل ہسپتال ملتان کا نام شہباز شریف جنرل ہسپتال رکھ دیا گیا۔ گونمنٹ میاں محمد نواز شریف ہسپتال، نواز شریف سیکیورٹی ہسپتال لاہور، نواز شریف ہسپتال یکے گیٹ لاہور اورمیاں شہباز شریف جنرل ہسپتال بیدیاں روڈ لاہور۔
میں نے اپنے وزیر اعظم سے التجا کی تھی کہ جناب گجرات میں قائم میڈیکل کالج کا نام نواز شریف میڈیکل کالج رکھ دیا گیا۔ ملتان میں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی ہے وہ کھڑے کھڑے نواز شریف یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہو گئی۔ ملتان کی زرعی یونیورسٹی کو اب نواز شریف ایگریکلچر یونیورسٹی کہا جاتا ہے۔ سیالکوٹ میں ایک بوائز کالج تھا وہ راتوں رات گورنمنٹ شہباز شریف ڈگری کالج جامکے چیمہ ہو گیا۔ چونا منڈی کے بوائز کالج کو میاں نواز شریف کالج کہا جانے لگا۔
خود نمائی اور احساس کمتری کا سب سے کریہہ مظاہرہ سیالکوٹ اور منڈی بہائوالدین میں ہوا جہاں لڑکیوں کے کالج کا نام نواز شریف گرلز کالج رکھ دیا گیا۔ نواز شریف ڈگری گرلز کالج سیالکوٹ اور نواز شریف گرلز کالج منڈی بہائوالدین۔ چونا منڈی کے بوائز کالج کو اب نواز شریف کالج کہا جاتا ہے۔ راولپنڈی کے خیابان سرسید ڈگری کالج کا نام شہباز شریف کالج خیابان سر سید رکھ دیا گیا۔
میں نے جناب عمران خان نے آگے ہاتھ جوڑے تھے کہ دیکھیے کس طرح ملکی اداروں کو ابا کی جاگیر سمجھتے ہوئے سڑکیں، پارک اور سپورٹس کمپلیکس تک پر بیانیے نے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ مری روڈ راولپنڈی پر نواز شریف فلائی اوور، اس سے اتریں تو نواز شریف پارک، آگے جائیں تو شہباز شریف سنٹر، دائیں مڑیں تو نواز شریف فوڈ سٹریٹ۔ راول روڈ پر ایک سپورٹس کمپلیکس ہے اسے شہباز شریف سپورٹس کمپلیکس کہا جاتا ہے۔ جہلم اور سیالکوٹ میں پل بنے تو نام رکھا گیا : شہباز شریف برج۔
میں نے عمران خان سے درخواست کی تھی کہ جناب وزیر اعظم اس مال غنیمت میں شریف خاندان کے نورتنوں نے بھی پورا حصہ وصول کیا ہے۔۔
سیالکوٹ میں میڈیکل کالج کو خواجہ صفدر میڈیکل کالج بنا دیا گیا۔ خواجہ صفدر خواجہ آصف کے والد تھے۔ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کا لیہ میں سب کیمپس ہے اس کا نام بہادر کیمپس رکھ دیا گیا۔ بہادر صاحب مسلم لیگ ن کے ایم پی اے اعجاز اچھلانہ کے والد تھے۔ ایک آڈیٹوریم ایم پی اے صاحب نے اپنے نام کر لیا اسے اعجاز اچھلانہ آڈیٹوریم کہتے ہیں۔ لڑکوں کے ہاسٹل پر بھی موصوف کا پرچم لہرا دیا گیا اس کا نام اعجاز ہال ہے۔ ایک لڑکیوں کا ہاسٹل تھا اس کا نام ریحانہ ہال رکھ دیا گیا۔ ریحانہ صاحبہ اعجاز اچھلانہ کی اہلیہ محترمہ ہیں۔ میں نے عمران خان سے گذارش کی تھی کہ جناب یہی کام پیپلز پارٹی نے بھی کیا اور سرکاری اداروں کونہ صرف بھٹو اور محترمہ بے نظیر بلکہ بلاول اور بختاورتک سے منسوب کر دیا گیا۔ بلاول میڈیکل کالج، بختاور کیڈٹ کالج۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے نام سے ایک ایک یونیورسٹی ہے لیکن بے نظیر بھٹو کے نام پر سات یونیورسٹیاں ہیں اور درجنوں کالج اور ہسپتال ہیں۔
میں نے جناب وزیر اعظم کے سامنے مثالیں بھی رکھیں تھیں کہ گلاب دیوی اور سر گنگا رام جیسے لوگوں نے اپنی جیب سے ہسپتال قائم کیے اور وہ ان سے منسوب ہو گئے لیکن ان بے شرموں نے سرکاری خزانے سے ادارے بنائے اور اپنا نام یوں لکھ دیا جیسے ابا حضور کی جائیدادیں بیچ کر بنائے ہوں۔
پھر میں نے جناب وزیر اعظم سے التجا کی کہ ان دو خاندانوں اور ان کے کاسہ لیسوں نے ریاستی اداروں کو خود سے منسوب کیا، یہ نام بدل دیجیے۔ میں نے سوال اٹھایا جناب وزیر اعظم کیا ہم بھٹو اور شریف خاندان کی رعایا ہیں؟ میں نے پوچھا جناب وزیر اعظم کیا ہم ان دو خاندانوں کا مال غنیمت ہیں؟مجھے امید تھی عمران خان ضرور نوٹس لیں گے۔
میرا حسن ظن تھا عمران خان یہ نام ضرور بدلیں گے۔ لیکن ہوا کیا؟ پنجاب اسمبلی نے قرارداد پاس کر دی کہ ڈیرہ غازی خان میں بننے والے ہسپتال کا نام عالی جاہ والی سلطنت پنجاب، سلطان معظم عثمان بزدار کے ابا جی کے نام پر رکھا جائے گا۔ گویا میری مناجات کا جواب عمل سے دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ نا ہنجار تم دو خاندانوں کا مال غنیمت نہیں ہو تم تبدیلی کے دربار میں کورنش بجا لانے والے درباریوں کے بھی غلام ہو۔ تم غلام تھے اور غلام ہو۔ تبدیلی نے تمہاری اوقات نہیں بدلی، تبدیلی نے صرف آقا بدلے ہیں۔
اپنی اوقات معلوم ہو جانے پر درخواست واپس لے لینا ہی عقلمندی ہے۔ میں کالم واپس لیتا ہوں۔ میں نے یہ کالم لکھا ہی نہیں تھا۔ مجھے اس واردات سے کوئی اختلاف کبھی تھا ہی نہیں۔ عالی جاہ آپ کا اقبال بلند ہو جو جی میں آئے کیجیے۔
ہسپتال کا نام بزدار کے ابا جی کے نام پر رکھ دیا، ہسپتال کو جانے والی سڑک کا نام شاہراہ عثمان بزدار رکھ دیجیے۔ موٹر وے کم بخت پر ابھی کسی نے ہاتھ صاف نہیں کیا اسے مراد سعید موٹر وے قرار دے ڈالیے۔ اسلام آباد ایر پورٹ کو پرویز خٹک سے منسوب کر دیجیے بلکہ وہاں کھڑے جہازوں کے نام بھی کابینہ کے عالی دماغوں کے ناموں پر رکھ دیجیے۔ ہم آئندہ چوں بھی نہیں کریں گے۔ کبھی آپ کی پرانی باتوں اور پرانے وعدوں نے بہت تنگ کیا تو ہم محسن حدید جیسے نظریاتی کارکن کو فون کر کے بس اتناپوچھ لیا کریں گے کہ لالے کی جان اب بھی تمہارے نونہالان انقلاب کا کپتان خاں دے جلسے اچ ا نچنے نوں جی کردا ہے؟