درہ کوانی سے نکلا تو سامنے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی تھی۔ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔ پہاڑ کے اس پار سورج ڈوب رہا تھا اور میں اپنی بکھری یادوں کو جمع کر رہا تھاجنہیں غروب ہوئے بھی زمانے بیت گئے۔ یاد آیا آج تو اساتذہ کا دن منایا جا رہا ہے اور ناسٹیلجیا ہاتھ تھامے مجھے ریکٹر آفس کے اندر لے گیا۔ اندر ملک معراج خالد بیٹھے تھے۔ اس منصب کی حرمت بہت بعد میں خاک ہوئی، ان وقتوں میں ایک درویش نے اس مسند کو کہکشاں بنا رکھا تھا۔
استاد اگر وہ ہے جس سے آپ نے پڑھا ہے تو اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے۔ قابل اور باصلاحیت اساتذہ۔ لیکن استاد اگر وہ ہے جو بول کر کچھ نہ سمجھائے اور آپ پر جہان معنی کھل جائیں، جو لمبے لمبے لیکچر نہ دے مگر زندگی کی گرہیں کھلتی چلی جائیں اور جو زبان سے نہیں بلکہ کردار سے آپ کی تہذیب کرے، جس کی صحبت آپ پر بیت جائے، جس کے اس جہان سے گزر جانے کے بعد بھی، اس کی باتیں یاد آئیں اور کسی کمزور لمحے میں آ کر تھام لیں، جو جنگل کی مٹی کی خوشبو کی طرح آپ کے وجود میں رچ بس جائے اور جو آپ کو یاد آئے تو بدلتے موسموں کی ہوا کی طرح آسودہ کر جائے تو پھر میرے تین استاد ہیں۔ ایک مرحوم ملک معراج خالد، دوسرے مرحوم راجہ بشیر احمد اور تیسرے میرے مرحوم نانا چودھری ظہیر الدین گوندل۔
سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے تینوں میں کتنی قدریں مشترک تھیں۔ شاید قدرت نے تینوں کی مٹی کسی ایک ندی سی اٹھائی تھی۔ مٹی سے محبت کیا ہوتی ہے اور کردار کسے کہتے ہیں، یہ میں نے نانا سے سیکھا۔ ان کی انگلی تھام کر میں نے چلنا سیکھا، کبھی کھیت کی پگڈنڈی پر، کبھی باغ کی منڈیر پر، کبھی گھر میں، کبھی سکول میں، کوئی وعظ نہیں، کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں، کوئی لمبے لمبے خطبے نہیں، کوئی نصیحت نہیں۔ یہ بیان کی چیز نہیں تھی جو بچپن اور لڑکپن کی شوخیوں میں ایک کان سے سنتا اور اڑا دیتا، یہ ایک مشاہدہ تھا جو وجود میں اتر گیا۔ ایسے جیسے دھوپ سیپ کے دل میں اتر جائے۔ اب جب نانا کو مٹی اوڑھے بھی عشرہ ہونے کو آ رہا ہے، ایسا ہوتا ہے کہ ان کی یادوں کا کوئی منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور تھام لیتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کوئی پاس بیٹھ کر رہنمائی کر رہا ہو کہ ایسے نہیں ویسے کرو۔
کینو کے باغ کی منڈیر پر ایک پھول کھلا تھا۔ میں نے کہا دیکھیں تو کتنا پیارا ہے۔ جواب ملا بہت پیارا ہے مگر کوئی ایسا پھول ڈھونڈو جو مرجھا جائے تو بھی اس کی مہک ختم نہ ہو۔ میں نے کہا ایسا پھول بھلا کہاں سے ملے گا۔ برس بیت گئے اور ایک روز میں گائوں کے قبرستان میں فاتحہ پڑھ کر نکلا تو اس سوال کا جواب میرے ہمراہ تھا۔ ہر دو چار موسموں بعد ایسا ہوتا ہے کہ ان کی کوئی بات یاد آتی ہے اور کوئی الجھن سلجھ جاتی ہے، کوئی گرہ کھل جاتی ہے۔
راجہ بشیر احمد صاحب نے میں نے آئین پڑھا۔ آئین کیا ہوتا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہوتی ہے، راجہ بشیر صاحب سے بہتر کوئی نہیں سمجھا جا سکتا تھا۔ ایسا لگتا تھا آئین پاکستان خود آپ سے مخاطب ہے۔ ایک روان ندی کی طرح ان کی باتیں جس وجود سے گزر جاتیں وہاں آئین شکنی کی آکاس بیل کا اترنا ممکن نہ رہتا۔ لیکن یہ تو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ راجہ صاحب نے تو ہمیں کردار پڑھایا تھا۔ ان کے ہاتھ میں بھلے آئین کی کتاب ہوتی تھی مگر ایک کتاب وہ خود بھی تو تھے۔ انسان دوستی، شرافت اور کردار کی کھلی کتاب۔ آئین تو ہم نے چند ماہ میں پڑھ لیا۔ اس کتاب کا فیض آج بھی جاری ہے۔ پوٹھوہار کی ایک حسین وادی سے ان کا جنازہ اٹھا تو وہاں ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے مجھے یقین تھا آپ یہاں ضرور آئیں گے۔ میں نے سوچا، زمین کا نمک زمین میں دفن کیا جا رہا ہے، یہاں نہ جاتا تو کہاں جاتا۔
ملک معراج خالد۔ ان سے تعلق ایک گستاخی سے شروع ہوا۔ میں ایم اے انگریزی کا طالب علم تھا۔ فیسوں میں دو فیصد اضافہ ہوا اور میں نے کالم لکھ دیا کہ دودھ فروش کا بیٹا ریکٹر بن جاتا ہے مگر اس کی گردن میں سریا آ جاتا ہے۔ میری طلبی ہوئی اور اس طلبی کے بعد جب میں ان کے دفتر سے نکلا تو میرے لیے زندگی کے معنی بدل چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ تمہاری معلومات ناقص ہیں، دودھ فروش کے بیٹے کی اوقات یہ تھی کہ اس کے اور اس کے باپ کے پاس ایک جوتوں کا جوڑا تھا، دن میں بیٹا سکول جانے سے پہلے دودھ بیچتا تھا۔ اور جوتا سائیکل کے ساتھ باندھ کر لے جاتا تھا۔ دودھ بیچ کر جب سکول جاتا تھا تو جوتا پہن لیتا تھا۔ سکول سے نکل کر پھر اتار لیتا تھا کہ کہیں سائیکل چلاتے ٹوٹ نہ جائے کیونکہ واپسی پر اس کے باپ نے بھی یہی جوتا پہننا ہوتا تھا۔ نوٹی فیکیشن منسوخ کر دیا اور مجھے حکم دیا کہ میں ان سے ملتا رہا کروں، بلانا نہ پڑے۔
اس حکم کی لاج انہوں نے پھر یوں رکھی کہ میں جو ایک طالب علم تھا، جب چاہتا ان کے دفتر چلا جاتا۔ بہت بار بلا مقصد۔ ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ گرمجوشی سے نہ ملے ہوں۔ کوئی نصیحت نہیں، کوئی وعظ نہیں، کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں۔ بس پاس بیٹھے رہو اور سیکھتے رہو کہ عاجزی کیا ہوتی اور کردار کس چیز کا نام ہے۔ یہ ویسی ہی درسگاہ تھی جو ساری عمر طالب علم کو تھامے رکھتی ہے۔ ایک درجہ چہارم کا ملازم بیمار تھا۔ اسے ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا کہ جگہ نہیں۔ میں نے کالم لکھ دیا۔ ملک صاحب کا یہ معمول تھا کہ صبح اخبارات پڑھ لیتے۔ اتفاق سے یہ کالم ان کی نظر سے گزرا۔
انہوں نے ایم ایس کو فون کیا کہ میں بیمار ہوں، ایڈ مٹ ہونا چاہتا ہوں، کوئی جگہ ہے؟ سابق وزیر اعظم کا فون تھا ایم ایس نے کہا سر بالکل جگہ ہے تشریف لائیں۔ پوچھا واقعی جگہ ہے یا کسی غریب سے بیڈ خالی کروائو گے؟ جواب ملا سر بالکل جگہ موجود ہے، ہم ابھی ایمبولینس بھجواتے ہیں۔
ملک صاحب نے کہا کہ اگر معراج خالد کے لیے جگہ موجود ہے تو اس کے ادارے کے چوکیدار کے لیے جگہ کیوں موجود نہیں ہے؟ اسی وقت ایمبولینس آئی اور یونیورسٹی کے ملازم کو لے گئی۔
ایسی کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ عام ملازمین کی افسر شاہی سے کبھی نہیں بنی لیکن ملک معراج خالد پر سٹاف کے اعتماد کا عالم دیکھیے کہ وہ یونیورسٹی کے عام ملازمین (افسران نہیں) کی تنظیم کے سرپرست تھے۔ جس روز ملک معراج خالد نے یونیورسٹی سے استعفی دیا، ہر شخص کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ سب رو رہے تھے۔
منصب کا پھول مرجھا چکا تھا مگر کردار کی خوشبو باقی تھی۔ جو سوال کینو کے باغ کی منڈیر پر دامن سے لپٹا تھا وہ حل ہو چکا تھا۔