مودی کی پالیسیوں کے نتیجے میں ہندوستان کا تو جو حشر ہو گا سو ہو گا، سوال یہ ہے وحشت اور اس جنون کے اس کھیل میں ہمارے سیکھنے کو بھی کچھ ہے؟
مودی ایک غیر تعلیم یافتہ شخص ہے۔ جاہل ہی کہہ لیجیے۔ مطالعے سے محروم۔ تہذیب انسانی کے ارتقاء سے لاعلم۔ اسے کچھ خبر نہیں شعور انسانی کیا ہوتا ہے اور اس کے مطالبات کیا ہوتے ہیں۔ عصر حاضر کے شعوری دھارے سے لاعلم شخص کا ویژن انتہائی محدود ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ دنیا سے کٹ جاتا ہے اور اپنے کنویں کی وسعت کے سحر سے باہر نہیں آ سکتا۔ ایسا شخص محض اپنی افتاد طبع اور نا خواندہ جبلت کا اسیر ہوتا ہے۔ وہ اپنے نامعقولیت کے آزار سے الگ نہیں ہو سکتا۔ انجام یہ ہوتا ہے وہ پورے سماج کو الائو میں جھونک دیتا ہے۔ مودی کے اقتدار میں بھارت کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ شائننگ انڈیا اب شعلوں سے چمک رہا ہے۔ دنیا میں بھارت کا جمہوری امیج گھائل ہو چکا۔ اس کا غیر معمولی معاشی حجم ابھی دنیا میں اسے اچھوت تو نہیں بننے دے گا لیکن وہ سفر مودی نے شروع کر دیا ہے جس کے اختتام پر دنیا کی نفرت کی مہر آپ کے ماتھے پر ثبت ہو جاتی ہے۔ بھارت کے کاروباری طبقے کی مالی سرپرستی میں مودی اس مقام تک پہنچا، اب جوں جوں وحشت بڑھے گی بھارت میں معاشی امکانات سمٹنا شروع ہو جائیں گے۔ ، اس سرمایہ دار طبقے کو بہت جلد یہ معلوم ہو جائے گا نا خواندہ قیادت پر سرمایہ کاری کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ اس سانحے کا پہلا سبق گویا یہ ہو ا کہ قیادت کا منصب جب کسی نا خواندہ اور جاہل کے ہاتھ میں ہاتھ آئے گا تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ معاشرہ المیوں سے بھر جائے۔
مودی مذہبی جنونی بھی ہے۔ وہ ہندو شائونزم کا علمبردار ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں وہ جدید نیشن سٹیٹ اور اس کے تقاضوں کو سمجھ سکے۔ اکثریت کی بنیاد پر وہ ملک کا وزیر اعظم تو بن گیا لیکن مزاج کے اعتبار سے وہ سنگھ پریوار کا بالک ہے۔ اسے اس بات کا کچھ احساس نہیں کہ بھارت میں کتنے مذاہب کے لوگ بستے ہیں اور ان کی تعداد کیا ہے۔ وہ ہندو شائونزم سے آگے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ اس کے خیال میں ہندوستان صرف ہندوئوں کا ہے اور دیگر مذاہب کے لوگ یہاں خواہ مخواہ ہی آبسے ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ اس کی نفرت وحشت کے درجے میں ہے۔ گجرات سے دلی تک اس وحشت کے مظاہر جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ مذہبی جنونی اس بات سے بے نیاز ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے حقوق کیا ہیں، وہ جائز نا جائز کی تفریق کیے بغیر صرف اپنے گروہ کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ مذہبی انتہا پسند معاملات کو اپنے محدود زاویے سے دیکھتا ہے۔ حقوق انسانی اور احترام انسانیت جیسے تکلفات سے وہ بے نیاز ہوتا ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ سب کو ساتھ لے کر چل سکے۔ دوسرا سبق گویا یہ ہوا کہ جدید نیشن سٹیٹ کی قیادت اگر کسی انتہا پسند مذہبی جنونی کے ہاتھ میں آئے گی تو اس کا نتیجہ تباہی ہو گا۔
بھارت ایک جمہوریت ہے۔ وہاں ایک آئین بھی موجود ہے اور پارلیمان بھی۔ اس کے باوجود وہاں اقلیتوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے غاصبانہ قبضہ ہو یا شہریت کا شرمناک قانون ہو، ہر کام پارلیمانی جمہوریت کے آئینی بندوبست کے ذریعے کیا گیا ہے۔ بھارت بد ترین فاشزم کے تاریک دور سے گزر رہا ہے۔ دلی میں آگ لگ چکی۔ درودیوار سے شعلےاٹھ رہے ہیں۔ اس بربریت کی جو وجوہات ہیں وہ بھارت کی پارلیمان کی پیدا کردہ ہیں۔ یعنی پارلیمانی جمہوریت کے پردے میں وہاں ہندو شائونزم کی وحشت اپنے عروج پر ہے۔ تیسرا سبق گویا یہ ہوا کہ جاہل اور مذہبی جنونی اگر مروجہ جمہوری طریقے سے بھی اقتدار میں آئے گا تو آخری تجزیے میں تباہی کے سوا کچھ نہیں کرے گا۔ اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ جمہوری اقدار کے مطابق وسعت نظر کا مظاہرہ کرے اور سماج کی تمام اکائیوں کو ساتھ لے کر چل سکے۔
مودی کی جہالت، جنون اور انتہا پسندی جلد یا بدیر بھارت کو اس کے منطقی انجام سے دوچار کر دے گی۔ اتنے متنوع سماج کو جس میں کروڑوں مسلمان، مسیحی اور سکھ بستے ہوں اور جس میں میزورام سے ناگالینڈ تک درجنوں فالٹ لائنز موجود ہوں، ہندو انتہا پسند یر غمال نہیں بنا سکتے۔ رد عمل آئے گا اور ہندو شائونزم کے ساتھ ساتھ بھارت کی بنیادیں بھی ہل جائیں گی۔ ارتعاش ہمارے سامنے ہے، کیا معلوم کب یہ کسی زلزلے کا روپ دھار لے۔ مزید کچھ عرصہ معاملات مودی جیسی ناخواندہ، انتہا پسند اور متعصب قیادت کے ہاتھ میں ہی رہے تو بھارت زوال کی کھائی میں اس پتھر کی طرح گرنے جا رہا ہے جسے بلندی سے لڑھکا دیا جائے۔
قوانین قدرت سب کے لیے ایک جیسے ہوتے ہیں اس لیے مودی کی اس جہالت جنون اور انتہا پسندی میں ہمارے سیکھنے کے لیے بھی بہت کچھ ہے۔ ہمارے پیش نظر بھارت کے مطالعے کے ساتھ ساتھ اپنا مستقبل بھی ہونا چاہیے۔ اقوام عالم میں سر بلند ہونا ہے توان تین چیزوں سے ہمیں بچنے کی شعوری کوشش کرنا ہو گی جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ہمارے مسلم معاشروں کی اکثریت جمہوریت سے محروم ہے اور اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ فکری ارتقاء رک سا گیا ہے اور معاشرے جمود کا شکار ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی نے جہاں جہاں اور جس جس شکل میں ظہور کیا اس کے نتائج بھی ہم دیکھ چکے۔ زیادہ افسوس یہ ہے کہ جہاں انتہا پسندی بھی نہیں، جدت فکر بھی ہے اور جمہوریت بھی موجود ہے وہاں بھی مسلم معاشرے شخصی نرگسیت کے آزار سے نہیں نکل پا رہے۔ بھارت کا تجربہ ہمیں یہ بتا رہا ہے جمہوریت بھی اگر جنون، جہالت اور انتہا پسندی میں لتھڑی ہو تو تباہی کا انتساب بن جاتی ہے۔