کبھی آپ نے غور کیا کہ معین قریشی سے حفیظ شیخ تک یہ لوگ اتنے اہم مناصب تک کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ گھر سے باہر آئیں تو علاقہ غیر شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ ریاست کے اہم ترین عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں اور ان کی محبت میں حکمران جماعت اس حد تک چلی جاتی ہے کہ پھر اعتماد کا ووٹ لے کر " ڈیمیج کنٹرول" کرنا پڑتا ہے۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی بجائے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ یہ معاملہ کیا ہے؟
معین قریشی وزیر اعظم بنے تو انہیں یاد آیا یہاں کہیں ان کے والد کی قبر بھی ہوا کرتی تھی۔ وہ قبر کیسے تلاش کی گئی یہ قصہ شیخ رشید بیان کر چکے۔ سوال یہ ہے کہ جس شخص کو والد کی قبر کا کچھ علم نہ ہو، اسے دھرتی ماں سے کیا نسبت ہو گی؟ معین قریشی صاحب کے بارے میں روایت ہے کہ وزیر اعظم بنے تو شناختی کارڈ پر رہائش کے خانے میں وزیر اعظم ہائوس لکھنا پڑا کیونکہ موصوف کا کسی حوالے سے اپنی دھرتی سے کوئی تعلق ہی باقی نہیں تھا۔
حفیظ شیخ صاحب ہیں، تو اپنے بل بوتے پر شاید چک جھمرہ یونین کونسل کے کونسلر منتخب نہ ہو پائیں لیکن مشیرخزانہ ہیں اور کسی میں جرات نہیں سینیٹ میں شکست کے بعد ان سے استعفی مانگ سکے۔ یہ معاملہ صرف تحریک انصاف کے ساتھ خاص نہیں، اپنے تئیں " خالصتا عوامی " اور جمہوری سیاست کی علمبردارپیپلز پارٹی کو جب اقتدار ملا تو ان کا انتخاب بھی یہی حفیظ شیخ صاحب ہی تھے۔ کہانی یہاں بھی ختم نہیں ہوتی، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ پرویز مشرف صاحب کے دور اقتدار میں ق لیگ کے ٹکٹ پر انہیں سینیٹر بناکر نجکاری کا وفاقی وزیر بنایا گیا۔
پہلے اتنا تکلف ضرور ہوتا تھا کہ وہ ق لیگ اور پیپلز پارٹی میں پہلے شامل ہوئے تھے اور پھر انہیں عہدہ ملا تھا۔ اب کی بار تو کسی نے اس تکلف کی بھی زحمت نہیں کی اور ایک سہانی صبح لوگوں سے کہا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی والے حفیظ شیخ اب ہمارے مشیر ہوں گے۔ آپ نے گھبرانا بالکل نہیں، بس سمجھ لیجیے کہ اب سے وہ تحریک انصاف میں ہیں۔ 2000 سے پہلے موصوف کا کوئی سیاسی تعارف اور کیریئر نہیں۔ 2000 میں اچانک انہیں سندھ کا وزیر خزانہ بنا دیا گیا اور تب سے اب تک کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن شیخ صاحب ابھی تک اقتدار میں ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ سنجیدہ سوال درپیش ہو تو ہم فکری پولن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ناک بہنے لگتی ہے، گلا خراب ہو جاتا ہے اور سانس پھول جاتا ہے۔ ہم ہانپنے لگتے ہیں اور ایک ہی جست میں نتیجہ نکال کر ہتھیلی پر رکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ اس سوال کا فوری، سستا اور آسان جواب یہ دیا جاتاہے کہ یہ سب آئی ایم ایف کی سازش ہے اور آئی ایم ایف چاہتا ہی نہیں کہ ہم معاشی طور پر بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ اس لیے وہ اپنے لوگوں کو یہاں مسلط کرتا ہے۔ چونکہ ہم پہلے ہی ہانپ چکے ہوتے ہیں، اس لیے آگے سے کوئی پوچھ لے کہ اگر آئی ایم ایف کے لوگ مسلط کرنے پر(ق) لیگ، پرویز مشرف، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے تو ان میں فرق ہی کیا ہے اور یہ کون سی تبدیلی آئی ہے، جس پر اتنا اتراتے پھر رہے ہو، تو پھر اس کا جواب صرف کالی کھانسی کی شکل میں دیا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف سے پہلے خرابی ہمارے اندر ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی ماہر معیشت موجود ہی نہیں۔ سیاسی کلچر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ جو قائد محترم کی خوشامد میں حد سے گزر جاتا ہے، وہی معتبر ہے اور جو زبان بکف جنگجو دوسروں کی دامان کی دھجیوں کی پتنگ بنانے پر قدرت رکھتا ہو، وہی رستم ہے۔ کہیں کوئی شیڈو کابینہ نہیں۔ کسی شعبے کا کوئی ماہر نہیں۔ وزارتیں دلچسپی اور مہارت پر نہیں دی جاتیں، مال غنیمت میں بانٹی جاتی ہیں۔ ایل ایل بی پاس لوگ یہاں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیر بن جاتے ہیں اور میٹرک پاس لوگوں کو تعلیم کا قلمدان مل جاتا ہے۔
باقی کی وزارتوں کا تعلق داخلی معاملات سے ہے، اس لیے سب چل جاتا ہے لیکن معیشت ایک ایسا معاملہ ہے جہاں یہ واردات نہیں ہو سکتی کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قدم قدم پر معاملہ کرنا ہوتا ہے اور بہت سے مقامات آوہ فغاں آتے ہیں جہاں ایسا آدمی چاہیے ہوتا ہے، جو معیشت کی مبادیات کو سمجھتا ہو۔ سیاسی جماعتوں کا اس میں ہاتھ تنگ ہے۔ کسی چودھری، خان، حاجی یا شیخ کو باقی کی ساری وزارتوں کے کھلونے دے کر کہا جا سکتا ہے کہ جائو جی بہلائو لیکن یہ حاجی، چودھری خان وغیرہ وغیرہ کے بس میں نہیں کہ معیشت کو دیکھ سکیں۔ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی معاشی ماہر موجود نہیں۔ نہ ہی کسی نے ادارہ سازی کی شکل میں ماہرین پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ معاشی ماہرین پر یہاں جگت باز وں کو ترجیح دی جاتی ہے جو ٹاک شوز میں گھوڑے دوڑاتے رہیں اور فتوحات سمیٹتے رہیں۔ سنجیدہ امور پر تربیت کی بجائے یہاں سوشل میڈیا کے کارندوں پر نوازشات کی جاتی ہیں۔ چنانچہ جب معیشت کے سنجیدہ چیلنج درپیش ہوتے ہیں تو ہاتھ خالی ہوتا ہے۔
اسد عمر کی شکل میں ایک معاشی ماہر تراشا گیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ سب مایا ہے۔ ان کی وزارت کے زمانے میں کوئی تدبیر اور ویژن نظر نہیں آیا۔ اقوال زریں اور بڑھکیں البتہ وافر تھیں اور آئی ایم ایف کو مسلم لیگ ن سمجھ کر اس کا بینڈ بجایا گیا۔ اس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔ اب ناک سے لکیریں کھینچ کر اسی آئی ایم ایف کی آرتی اتارنا پڑ رہی ہے۔
سیاسی جماعتوں کو سمجھنا ہو گا کہ دلاوری محض اپنے اپنے حصے کے سخت کلام قائدین کے ہاتھوں دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے میں نہیں، ہر شعبے کے ماہرین تیار کرنے میں ہے۔ یہاں کسی سیاسی جماعت کے پاس کسی شعبے کا کوئی تھنک ٹینک ہو توبتائیے۔ جگت بازی اور دوسروں کی عزتیں اچھالنے والے جبگجو البتہ ہر جماعت میں وافر مقدار میں ہیں۔ چنانچہ جب معیشت کا معاملہ آتا ہے تو سب کو کسی معین قریشی، کسی شوکت عزیز اور کسی حفیظ شیخ کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔