عشق کی یہ بازی مولانا نے اس شرط پر کھیلی تھی کہ خزاں کو جانا چاہیے، بہار آئے یا نہ آئے۔ سوال یہ ہے کہ اب مولانا اس بات پر خفا کیوں ہیں کہ بہار ابھی تک ان کے آنگن میں نہیں اتری؟
مولانا نے اپنے اس شکوے کا عنوان بے شک دھاندلی رکھا ہے لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ اندو ہ عشق کا شکوہ نارسائی ہے۔ مولانا دھاندلی سے نہیں ہارے، انہیں تحریک انصاف کا سونامی بہا لے گیا ہے۔ تحریک انصاف کو اس الیکشن میں ملنے والے ووٹ نہ صر ف بہت سارے سیاسی حریفوں کو بہا لے گئے ہیں بلکہ خاکسار سمیت بہت سارے تجزیہ کار اپنے تجزیوں سمیت اس سونامی میں بہہ چکے۔ یہ حقیقت ایک بار پھر سامنے آ گئی کہ سیاسی جماعتیں ان حالات میں بھی تحریک انصاف کا سامنا کرنے کے قابل نہیں۔
مولانا جیسے آدمی کا گنڈا پور جیسے آدمی سے ہار جانا میرے جیسوں کے لیے بھی خوش کن نہیں تھا لیکن مولانا سیاست کے میدان میں تحریک انصاف کی منہ زور لہروں کا سامنا نہ کر سکے۔ جب تک زمین پر جنم لیتی اس حقیقت کو نہ سمجھ لیا جائے کہ تحریک انصاف انہیں بہا لے گئی تب تک دھاندلی یا کسی بھی عنوان سے کھڑا کیا گیا کوئی بھی بیانیہ دل کا غبار تو ہلکا کر سکتا ہے لیکن اس کا عملی زندگی کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ ابھی تو علم یہ تھا کہ تحریک انصاف قانون کے معاملے میں اپنی روایتی بے نیازی کی وجہ سے اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو چکی تھی اور پھر بھی جیت گئی، مولانا کو وقت ملے تو اپنی مجلس عاملہ کے ساتھ مل بیٹھیں اور سوچیں کہ مقابلے میں اگر انتخابی نشان بلا ہوتا تب کیا عالم ہوتا۔
مولانا سیاست کے مدو جزر سے خوب آ گاہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں تحریک انصاف کی مقبولیت کی لہر کے آگے ان کا چراغ نہ جل سکا۔ ان کا غم و غصہ بھی اصل میں یہ نہیں کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔ ان کا دکھ یہ ہے کہ ان کے سیاسی حلیفوں نے ان کا ہاتھ نہیں تھاما۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تازہ بیانیے کے نشانے پر مسلم لیگ ن ہے۔ وہی مسلم لیگ ن جس کی جنگ مولانا نے ابھی ماضی قریب میں لڑی اور یوں لڑی کہ وہ وہ قرض بھی نقد ادا کیے جو واجب ہی نہی تھے۔ مولانا اپنی ان خدمات کے صلے میں شاید اعلی منصب کی کسی امید یا وعدے کی ڈور سے بندھے تھے۔ وعدہ اور امید ٹوٹی تو مولانا کے ضبط کے سارے بندھن بھی ٹوٹ گئے۔
مولانا نے دھاندلی کا بیانیہ کھڑا کیا مگر ثبوت اپنے گھر سے پیش نہ کر سکے۔ سوال ہوا تو ثبوت محمود خان اچکزئی کی شکست کو بطور ثبوت پیش کر دیا کہ وہاں سے مسلم لیگ ن کا امیدوار دست بردار ہو چکا تھا مگر اسے جتوا دیا گیا۔ معلوم نہیں اس الزام کی حقیقت کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ مولانا خود تو تحریک انصاف سے ہارے، اور یوں ہارے کہ کے پی سے اپنی جماعت کو ناک آئوٹ کروا بیٹھے تو پھر دھاندلی کے مقدمے کی دلیل وہ اپنی کسی شکست خوردہ نشست سے کیوں نہ پیش کر سکے؟
یہ سوال نظر انداز کرنے والا نہیں کہ وہ گنڈا پور کی فتح اور اپنی شکست کو بطور دلیل کیوں نہ پیش کر سکے؟ انہیں اچکزئی صاحب کے کندھے پر رکھ کر مسلم لیگ ن اور الیکشن کمیشن کا نشانہ کیوں لینا پڑا؟ وہ بھی اپنے حلقے سے فارم 45 کی بنیاد پر اپنی جیت کا دعوی کرتے اور اس کے ثبوت سامنے رکھ دیتے کہ انہیں دھاندلی سے ہرایا گیا ہے۔ لیکن وہ مقدمہ اپنے ساتھ دھاندلی کا کھڑا کر رہے ہیں اور ثبوت میں وہ اچکزئی صاحب کی ن لیگ کے ہاتھوں شکست کو پیش کر رہے ہیں۔ یعنی ہارے جے یو آئی اور دلیل پختون خواہ میپ کی، ہارے پی ٹی آئی سے اور دشنام مسلم لیگ ن پر اور ہارے کے پی میں او رمثال بلوچستان کی۔ الیکشن کی شفافیت پر دیگر جماعتوں کے لوگ بھی سوال اٹھا رہے ہیں لیکن وہ اپنی مثالیں دے رہے ہیں اور اپنے حلقوں کے فارم 45 بطور ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ مولانا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ مقدمہ اپنا لڑ رہے ہیں اور دلیلیں دسروں سے لا رہے ہیں۔
کے پی میں مولانا اور ان کی جماعت کے لوگ بھاری تعداد میں ن لیگ کے ہاتھوں نہیں، پی ٹی آئی کے ہاتھوں ہارے۔ کیا ہی اچھا ہوتا مولانا اعدادو شمار کے ساتھ بتاتے کہ فلاں فلاں نشست سے جے یو آئی جیت چکی تھی اور تحریک انصاف ہار چکی تھی۔ ساتھ وہ فارم 45 کی تفصیل پیش کرتے اور وضاحت سے بتاتے کہ فلاں فلاں نشست ہماری تھی جو دھاندلی سے تحریک انصاف کو دی گئی۔ لیکن حیران کن طور پر مولانا جس سے ہارے اس کا کا تو ذکر ہی نہیں۔ زیر عتاب وہ مسلم لیگ ن ہی کیوں جو کل تک اخباری اشتہارات چھپوا رہی تھی کہ عوام نے فیصلہ سنا دیا کہ نواز شریف وزیر اعظم اور آج عوام اور اس کے فیصلے سمیت نواز شریف منصب کی دوڑ سے باہر ہو چکے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ جس سے مولانا ہارے اس جماعت سے مل کر چلنے کا عندیہ دے دیا اور مسلم لیگ اور ن اور پیپلز پارٹی کو مخاطب کرکے مولانا نے رجز پڑھنے پڑھنے شروع کر دیے کہ ہم تمہارے غلام نہیں۔ حالانکہ مولانا کی شکست میں ان دونوں جماعتوں کا سرے سے کوئی کردار ہی نہیں۔
بظاہر مولانا کا غم و غصہ یہ ہے کہ جب عمران کی حکومت تھی اور کوئی باہر نکلنے کے قابل نہیں تھا اس وقت مولانا اپنے کارکنان کو باہر لائے۔ پوری تحریک اکیلے مولانا نے چلائی۔ عمران خان کے سامنے کوئی مزاحمتی بیانیہ تھا تو وہ مولانا کا تھا۔ مسلم لیگ تو چار کارکنان باہر نکالنے کی صلاحیت سے بھی محروم تھی۔ سارا بوجھ اکیلے مولانا نے اٹھایا۔ لیکن جب وقت کا موسم بدلا تو میاں صاحبان اور زرداری اقتدار کی جمع تفریق کرنے بیٹھ گئے اور مولانا کسی کو یاد بھی نہ رہے۔ مولانا کی خدمات کا کم ا ز کم اعتراف یہ تھا کہ انہیں بھی کوئی اعلی منصب دیا جاتا۔ یہ امکانات دم توڑنے دکھائی دیے تو مولانا پھٹ پڑے۔ یہاں تک کہ صفوں کی ساری ترتیب بدل دینے کا عندیہ دے ڈالا۔
مولانا اور فیض کا المیہ ایک جیسا ہے۔ انہیں راہ میں کوئی مقام جچتا ہی نہیں، یہ کوئے یار سے سیدھے سوئے دار جاتے ہیں۔ ابھی بھی مولانا نے یہی کام کیا ہے۔ کہاں وہ عالم شوق کہ عمران خان علی وجہہ البصیرہ یہودی ایجنٹ تھا اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مولانا کی قیادت میں عمران سے نجات کی جدوجہد میں مصروف تھے اور کہاں اب اچانک یہ عالم کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی زیر عتاب آ گئی ہیں اور عمران خان سے قربت بڑھنے کے امکانات کی جانب اشارے دیے جانے لگے ہیں۔
کے پی میں تحریک انصاف کی لہر تھی، جے یو آئی سمیت بہت سارے اس لہر میں بہہ گئے۔ خود نواز شریف تحریک انصاف کے امیدوار سے شکست کھا گئے۔ سیاست میں اگر حریف کا بیانیہ مقبول ہو جائے اور وہ نا مساعد حالات میں بھی الیکشن جیت جائے تو اس جیت کو قبول نہیں کر لینا چاہیے؟