Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Mulk Par Reham Karen

Mulk Par Reham Karen

گرفتاری پر اتنا رد عمل؟ یہ معاملہ کیا ہے؟ یہ معلوم انسانی تاریخ کی پہلی گرفتاری نہ تھی، کون سیاست دان ہے جو یہاں گرفتار نہ ہوا ہو۔ عدالت سے گر فتاری پر سوال اٹھ سکتا ہے لیکن اس کا تعلق عدالت سے ہے گرفتار سے نہیں۔ یہ کیسا سماجی شعور ہے کہ باقی سیاسی رہنما پکڑے جائیں تو اسے قانون کی عمل داری قرار دیا جائے لیکن جناب عمران خاں گرفتار ہوں تو معاشرے میں آگ لگا دی جائے۔

عمران خاں نیب کو مطلوب تھے اور نیب نے گرفتار کر لیا۔ نہ یہ نیب کے ہاتھوں پہلی گرفتاری تھی اور نہ ہی کوئی سیاست دان پہلی بار پکڑا جا رہا تھا۔ نہ ایسا تھا کہ کوئی وزیر اعظم پہلی بار گرفتار ہو رہا تھا۔ عمران خاں خوش قسمت ہیں کہ جب وہ گرفتار ہوئے توپارلیمان اس قانون کی ہیئت بدل چکی ہے۔ اس قانون کی اصل شکل تو ورنہ یہ تھی کہ صرف ریمانڈ کا دورانیہ تین ماہ تھا اور ضمانت کا کوئی تصور تک نہ تھا۔ قانون میں ہی لکھ دیا گیا تھا کہ جسے نیب پکڑ لے کوئی عدالت اس کو ضمانت دینے کی مجاز نہیں۔

یہاں تو لوگ اٹھائے جاتے تھے اور نیب کا پراسیکیوٹر عدالت میں کہتا تھا: مائی لارڈ ہم نے اسے ڈمپ کیا تھا اور ہم اسے بھول گئے تھے۔ نیب کی اس قوت قاہرہ تھی سے بھی عمران خاں مطمئن نہ تھے اور وہ چین اور ایران جیسا نظام چاہتے تھے۔ وہ امریکہ میں کھڑے ہو کر چتائونی دیا کرتے تھے کہ ذرا واپس آنے دو مجھے، میں تمہارا اے سی اترواتا ہوں۔

عمران خاں جس مقدمے میں گرفتار کیے گئے اس کی تفصیلات بھی ہمارے سامنے ہیں۔ معاملہ یہ نہیں کہ عمران خاں نے یونیورسٹی کیوں بنائی۔ معاملہ یہ ہے کہ پراپرٹی ٹائیکون کی ضبط شدہ جو رقم برطانیہ نے حکومت پاکستان کوبھیجی وہ رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے اسی شخص کے جرمانے کی مد میں کیسے جمع کرائی گئی۔ جو رقم قومی خزانے میں جانی چاہیے تھی وہ رقم اسی فرد کوکیسے دی گئی۔ یہ رقم بھی معمولی نہیں، یہ پچاس ارب کامعاملہ ہے۔ اس کے ساتھ دو سو چالیس کنال کا سوال بھی حل طلب ہے۔ یہ سوال آج کا نہیں ہے۔ یہ سوال اس وقت بھی اٹھا تھا جب یہ واردات کی جا رہی تھی۔ یہ سوال اس وقت بھی اٹھا تھابند لفافہ دکھا کر کابینہ سے تائید کیسے حاصل کر لی گئی۔ ان سوالات کا کیا جواب ہے؟ یہ کوئی معمولی معاملہ ہے، مفتاح اسماعیل کے مطابق تو یہ 4275 کروڑ کا معاملہ ہے۔

بظاہر یہ ایک بھر پور مقدمہ ہے اور اس میں گرفتاری بھی منطقی سی بات ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ اس مقدمے میں جان نہیں ہے اور عمران خاں کے پاس اس مقدمے کے رد میں دلائل موجود ہیں تو وہ انہیں عدالت میں پیش کر سکتے ہیں۔ مقدمہ چلنا ابھی باقی ہے۔ شواہد پیش ہونے ہیں۔ بحث اور جرح ابھی باقی ہے۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ عدالت میں ہی ہونا ہے۔ لیکن یہ کیسا رویہ ہے کہ گرفتاری کے بعد چند ہی گھنٹوں میں ملک کو ایک عذاب سے دوچار کر دیا جائے؟

کیا تحریک انصاف یہ کہنا چاہ رہی ہے کہ چونکہ عمران خاں ایک مقبول رہنما ہیں، اس لیے وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ انہیں ایک عصبیت حاصل ہے اور تحریک انصاف کے "قدیم رہنما ابن خلدو ن صاحب" فرما گئے ہیں کہ جسے عصبیت حاصل ہو اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہو سکتا؟

میں نے چند سال پہلے یہ سوال اٹھا کر گالیاں کھائی تھیں کہ کیا تحریک انصاف فاشزم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آج نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اس سوال کی کوئی حاجت ہی نہیں رہی۔ سب کچھ ہمارے سامنے رکھا ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں۔ یہ اس رویے کا منطقی نتیجہ ہے جس کی یہاں اہتمام سے آبیاری کی گئی ہے۔

ہمارے ہاں رویوں کی انتہا پسندی کا سماجی مطالعہ نہیں کیا گیا۔ کیا جاتا تو ہمیں معلوم ہوتا کہ انتہا پسندی ہی کی انتہائی شکل کو دہشت گردی کہتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو قانون کو سڑک پر آ کر پامال کرتے ہیں، املاک جلاتے ہیں اور بلوے کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو سوشل میڈیا پر ان کے حق میں تاویلات تلاش کرکے انہیں دلائل فراہم کرتے ہیں۔ واردات دونوں کی یکساں ہیں۔ فرق صرف طریقہ واردات کا ہے۔

جب آپ اس رویے کی تائید کرتے ہیں کہ ایک رہنما کے سوا سب کرپٹ ہیں، وہی سچا ہے، وہ جو کرتا ہے حکمت و بصیرت کا شاہکار ہوتا ہے اور اس کا حریف جو کرتا ہے وہ ابن الوقتی کا آزار ہوتا ہے، جب آپ ہر حریف کی کردار کشی کی تائید کرتے ہیں، جب آپ میر صادق اور میر جعفر جیسے بیمار بیانیے کی تائید کرتے ہیں تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے منطقی نتائج نہ نکلیں۔ اس سیاسی انتہا پسندی کا یہ نتیجہ فطری ہے کہ پھر زعم تقوی میں ہجوم سڑکوں پر آ جائے اور قانون ہاتھ میں لے لے۔ اس وقت پھر یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ یہ غلط ہو رہا ہے ہم اس کی تائید نہیں کرتے۔ جب آپ نے اس رویے کو زاد راہ فراہم کیا ہے تو اب اس کے نتائج سے آپ بری الذمہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ آپ پانی میں میٹھا ڈال رہے ہیں تو اب اس کی شیرینی سے لطف اندوز ہوئیے، اب اس ذائقے سے بے نیازی کیسی؟

حالیہ واقعات میں بھی یہی ہوا۔ جب گھیرائو جلائو شروع ہوا تو سوشل میڈیا پر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور باقاعدہ رجز پڑھے گئے کہ بہت اچھا ہو رہا ہے۔ سخت رد عمل ضروری ہے۔ سخت رد عمل کے مظاہر جب سامنے آئے تو پھر حیلہ اختیار کیا گیا کہ یہ تو غلط ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی کمال معصومیت سے یہ سوال اٹھائے گئے کہ ریاستی قوت ہمارے بلائیوں کو روک کیوں نہیں رہی۔ یہ تو ہمارے خلاف سازش ہوگئی ہے۔ کوئی پوچھے یہ غلط ہو رہا ہے تو گھیرائو جلائو کے ابتدائی مرحلے میں سخت رد عمل، پر اکسانے سے آپ کی کیا مراد تھی؟ جب آپ انتہا پسند رویے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو اس رویے کے منطقی نتائج سے آپ کیسے دامن بچا سکتے ہیں؟ اور آپ کو روکا نہیں جا رہا تو یہ آپ کے خلاف سازش کیسے ہوگئی؟ یعنی کیا آپ کا ارادہ تھا کہ کوئی بڑا حادثہ ہو جائے؟ نہیں ہوا تو یہ آپ کے خلاف سازش ہوگئی؟

سیاسی جماعتوں کا احتجاج کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن یہ جس طرح کا رویہ شہر میں دستور ہوتا جا رہا ہے، یہ سیاست نہیں ہے۔ ملک کو دائمی ہیجان سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں کوئی رہنما جارج آرول کا مور ایکول، نہیں ہو سکتا۔ کسی کو ریڈ لائن کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہیے۔

قانون کا اطلاق مگر سب پر ہونا چاہیے۔ انتہا پسندی کی ہر شکل کی نفی ضروری ہے۔ رانا ثناء اللہ سے بھی پوچھا جانا چاہیے انہوں نے پریس کانفرنس میں چار بار گالی کیوں دی؟ پیمرا سے پوچھا جانا چاہیے اس نے یہ گالی نشر کرنے والوں کے خلاف کیاکارروائی کی اور پی ڈی ایم سے سوال ہونا چاہیے اس نے اس رویے کی مذمت کیوں نہیں کی؟ ملک پر رحم کریں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran