سوال یہ ہے کیا مری کے لوگ اچھے نہیں ہیں؟ کیا وہ سفاک اور ظالم ہیں؟ ان سوالات کا جواب اثبات میں دینا تو بہت دور کی بات ہے ان سوالات کو سنجیدہ لینے کے لیے بھی ضروری ہے کہ آدمی کی اخلاقی موت واقع ہو چکی ہو۔
مرض وہی دیرینہ ہے کہ مسئلہ کوئی سا بھی ہو، اس پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے ہم ہانپ جاتے ہیں۔ چنانچہ ہم سانس پھولنے سے پہلے پہلے نتائج فکر ہتھیلی پر رکھ لینا چاہتے ہیں تا کہ سند رہے اور ضرورت نہ بھی ہو تو کام آئے۔ ہم ہر طرف کسی ہیرو کسی مسیحا یا قربانی کے کسی بکرے کی تلاش میں رہتے ہی۔
غیر متوازن سماج قصیدے پر مائل ہوتا ہے یا کتھارسس پر۔ بیچ کا کوئی مقام اسے راس ہی نہیں آتا۔ کچھ اچھا ہو جائے تو ایک بت تراش کر اس کے سہرے کہے جاتے ہیں۔ اور کچھ غلط ہو جائے تو ہیجان، غصے اور نفرت میں بھرے لشکری کسی نا پسندیدہ شخص یا گروہ کو چن کر تاک تاک کر نشانے لگاتے ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ" ہمارا" غیرت ایمانی اب بھی نہیں جاگے گا تو کب جاگے گا۔
ہماری اکثریت کا مقصد صرف کتھارسس ہوتا ہے، اصلاح احوال نہیں۔ مری میں ہونے والے حادثے کے بعد یہی موذی مرض اپنے عروج پر ہے۔ یوں سمجھیے کہ مرض وبا بن چکا اور وبا پھیل چکی۔ آپ اس حادثے کے بعد اپنے اجتماعی ردعمل کو دیکھ لیجیے۔ حساب برابر ہو رہے ہیں اور کتھارسس کیا جا رہا ہے۔ اس کتھارسس کے عمل میں ایک انتہائی بے ہودہ آواز یہ اٹھ رہی ہے کہ مری کے لوگ بہت خراب ہیں، بڑے ظالم ہیں۔
حقیقت مگر اس چاند ماری سے تبدیل نہیں ہو جاتی اور حقیقت یہ ہے کہ مری کے لوگ انتہائی مخلص اور شاندار لوگ ہیں۔ کوئی شخص اگر مال روڈ کی کاروباری دنیا ہی کو مری سمجھ بیٹھا ہے تو یہ اس کا نقص فہم ہے۔ اس میں مری یا مری کے رہنے والوں کا کوئی قصور نہیں۔ مال روڈ کے اطراف میں پھیلے ہوٹلوں کے مسائل " کارپوریٹ کلچر" کا تحفہ ہیں۔ اس میں مری کا کیا قصور؟ اس کا رپوریٹ کلچر سے لوگوں کو بجا طور پر شکوے ہیں لیکن اس پر مری کے رہنے والوں کو لعن طعن کرنے کی بجائے معاملے کو سمجھنا ہو گا۔ چند سوالات میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
کیا کسی نے تحقیق کی ہے کہ مری کے ہوٹلوں کے مالکان کون ہیں؟ اور اگر یہ ہوٹل ٹھیکے پر دیے گئے ہیں تو ٹھیکہ کس کے پاس ہے؟ ان میں سے کتنے لوگ مری کے رہنے والے ہیں اور کتنے باقی شہروں اور صوبوں کے نو دولتیے، سرمایہ کار اور کرپٹ افسران وغیرہ ہیں۔ اگر کبھی ایک تفصیلی رپورٹ حکومت ہی مرتب کر دے تو معلوم ہو جائے گا اس سارے عمل میں کون کہاں کھڑا ہے۔
ہوٹل مالکان اور وہ جن کے پاس ہوٹلوں کے ٹھیکے ہیں ان کی واضح اور غالب اکثریت کا تعلق مری سے نہیں ہے۔ ہاں سڑک پر جس سٹاف سے لوگوں کا واسطہ پڑتا ہے ان میں اکثریت مری والوں کی ہے۔ ان کے رویے بھی نامناسب ہوتے ہیں اور انتہائی تکلیف دہ بھی لیکن ان کی حیثیت سیٹھ کے ملازم سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس سارے مروجہ کارپوریٹ کلچر میں ان کو اتنا ہی ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے جتنے وہ با اختیار ہیں۔ کتھارسس کی تقسیم بھی حصہ بقدر جثہ ہونی چاہیے۔
مری میں برف باری میں کمروں کے ریٹ بڑھ جاتے ہیں تو اس کا فیصلہ مالکان کرتے ہیں یا وہ مینیجرز جن کے پاس ٹھیکے ہوتے ہیں۔ فیصلہ سازوں میں مری کے رہائشی شاید اتنے فیصد بھی نہ ہوں جتنے فیصد پر سلطنت برطانیہ یہاں کے باشندوں کو امتحان میں پاس کر دیا کرتی تھی۔ پھر بھی اگر کسی کا خیال ہے کہ مری کے لوگ ہی اس کے ذمہ دار ہیں تو ذرا بتائیے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے اصول پر معیشت چلانے کی بات مری والوں نے کی ہے یا حکومت پاکستان کی یہی پالیسی ہے۔
اگر یہی پالیسی حکومت کی ہے تو مری کی کارپوریٹ مارکیٹ سے کیسا شکوہ؟ اس مارکیٹ نے وہی کیا جو وطن عزیز میں سکہ رائج الوقت ہے۔ جب کبھی کسی نے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی سے ہٹ کر اخلاقیات پر مارکیٹ کے تعین کی بات کی تو اس کا مذاق اڑا یا گیا کہ معیشت کا اخلاق سے کوئی تعلق نہیں، اس کا تعلق تو ڈیمانڈ اینڈ سپلائی سے ہے۔ کیا مری سے بہت دور کی مارکیٹوں میں بھی یہی اصول کارفرما نہیں؟ کیا بارش ہونے پر رکشوں کے کرائے بڑھ نہیں جاتے؟ کیا عیدوں پر بسوں کے کرایوں میں اضافہ نہیں ہو جاتا؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی شہر کی کارپوریٹ دنیا کی کسی خرابی پر اس شہر کو لعن طعن کی جا سکتی ہے؟ اگر اس بات کا جواب اثبات میں ہے تو ہر عید پر لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں سے چھوٹے شہروں کو جانے والی ٹرانسپورٹ کرایہ بڑھاتی ہے تو اس وقت کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ لاہور کے شہری بڑے ظالم اور اسلام آباد والے بھی بڑے ہی ظالم ہیں۔ جو قانون مری کے لیے ہے وہی قانون آپ کے دیگر شہروں کے لیے کیوں نہیں ہے؟ مری کی کارپوریٹ مارکیٹ کو ریگولیٹ کرنا مری کے مضافات میں رہنے والوں کا کام نہیں۔ یہ کام متعلقہ اداروں کا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے کہ ان کی ناکامی کا بوجھ بھی مری کے لوگوں پر ڈال دیا جائے؟
کچھ سیانے قسم کے لوگ سیاحوں کو لعن طعن کر رہے ہیں کہ وہ مری جاتے ہی کیوں ہیں، آگے گلیات کی طرف کیوں نہیں چلے جاتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سارے سیاح ان سیانوں کی طرح مری کی بجائے آگے گلیات کی طرف نکل جائیں تو کیا گلیات میں بھی اسی طرح کا رش نہیں ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ ان سیانوں کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ زیادہ گاڑیاں پھنسی ہی باڑیاں کے اطراف میں اسی راستے پر ہیں جو مری سے آگے گلیات کو جا رہا ہے۔
کارپوریٹ کلچر کی قباحتوں سے ہٹ کر دیکھیے کہ مری کے سماج کا رویہ کیسارہا؟ جنہوں نے برف میں پھنسے لوگوں کے لیے مسجد اور مدارس کھولے وہ کہاں کے تھے؟ جو لوگوں کو اپنے گھروں میں مہمان بنا کر لے گئے اور عزت سے رکھا وہ بھی مری والے ہی تھے؟ کئی ہوٹلوں نے نہ صرف مفت رہائش فراہم کی بلکہ سوشل میڈیا پر ہوٹل کا نام اور اپنے موبائل نمبر دے کر اس کا اعلان بھی کیا۔ یہ بھی مری والے ہی تھے جو لوگوں کو دودھ اور خوراک مفت دیتے رہے۔ الخدمت فائونڈیشن نے غیر معمولی کام کیا، یہ بھی مری ہی کے لوگ تھے۔ گاڑیوں میں سے بے ہوش لوگوں کو نکالنے والے بھی مری کے عام شہری ہی تھی، اس وقت انتظامیہ کو تو علم ہی نہ تھا کتنے مر گئے اور کتنے زندہ ہیں۔
مری کے کارپوریٹ کلچر کی وحشت اور مری کی انتظامیہ کی نا اہلی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ مری کے لوگوں کو گالی دینا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ مال روڈ کے کارپوریٹ کلچر کو مری سمجھنے والوں کو معلوم ہی نہیں مری کیا ہے اور مری کے لوگ کتنے اچھے ہیں۔ جو جانتے ہیں وہ مگر خوب جانتے ہیں۔