حکومت نے نیب قوانین میں دوسری مرتبہ تبدیلی کر دی ہے۔ اس ماہرانہ، قانون سازی کو دیکھ کر آدمی سوچتا ہے کہ کیوں نہ اب نیب کے تمام دفاتر کے باہر لکھ کر لگا دیا جائے کہ کرپشن کو عزت دو،؟
نیب کے معاملات ایک عرصے سے اصلاح طلب تھے۔ نیب کی کارکردگی، سر سے پائوں تک، ہر گز تسلی بخش نہ تھی۔ لازم تھا کہ معاملات میں بہتری لانے کو کچھ قانون سازی کی جاتی لیکن جس طریقے سے اب نیب قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں یہ عمل افسوسناک ہے اور اس پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ایسا نہیں کہ نئی قانون سازی ساری کی ساری ہی خراب ہے۔ مثال کے طور پر نیب کی حراست میں ریمانڈ کی مدت 90 دن سے کم کر کے 14 دن کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ محض تفتیش کے نام پر کسی کو بھی اٹھا کر نوے دن کے ریمانڈ پر رکھ لینا کوئی مناسب قانون نہیں تھا۔ اسی طرح مقدمے کی سماعت میں دائرہ اختیار کا تعین کرنا کہ ملزم کے خلاف وہیں چلے گا جس علاقے میں جرم ہوا ہو گا ایک اچھا فیصلہ ہے۔ تا ہم بہت کچھ ایسا بھی ہے جو درست نہیں ہے اور اس سے صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ قانون سازی کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہے۔
چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ نیا قانون یہ کہتا ہے کہ Cheating public at large میں اگر متاثرہ لوگوں کی تعداد 100 سے کم ہو گی تو نیب حرکت میں نہیں آئے گا۔ یعنی آپ نے اپنے کسی کام سے اگر 100 لوگوں کے ساتھ واردات کی ہے تو یہ نیب کا مقدمہ ہے اور اگر 99 لوگ متاثر ہوئے ہیں تو یہ نیب کا مقدمہ نہیں ہے۔ نیب کے ایس او پی کے تحت اگر متاثرہ لوگوں کی تعداد 50 ہے تو یہ Public at large کے زمرے میں آئے گا اور نیب کارروائی کرے گی۔ سپرم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت 22 لوگ بھی متاثر ہوئے ہوں تو وہ Public at large کے زمرے میں آئیں گے اور قانون حرکت میں آئے گا۔
نئے قانون نے یہ تعداد100 کر دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں؟ آخر ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ قانون سازوں کو نہ سپریم کورٹ کافیصلہ پسند آیا نہ نیب کی ایس او پیز۔ بادی النظر میں اس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق صاحب اور ان کے بھائی سلمان رفیق صاحب کی پیراگون ہائوسنگ سوسائٹی کے متاثرین کی تعداد 76 ہے۔ اور یہ متاثرین سپریم کورٹ کے فیصلے اور نیب کے ایس او پیز کے تحت Public at large کی تعریف پر پورا اترتے تھے اور یہ Cheating public at large کا مقدمہ تھا۔ اب قانون سازی کر کے متاثرین کی تعداد 100 کر دی گئی ہے اور نیب اس کیس کو نہیں دیکھ سکتا۔ خواجہ صاحب کی اس مقدمے سے جان چھوٹ گئی۔ قانون سازوں نے اس ترمیم میں یہ نہیں بتایا کہ وہ 76 متاثرین اب کہاں جائیں؟ وہ ووٹ کو عزت دیں یا صبح شام ترانے گائیں کہ کرپشن کو عزت دو؟
وعدہ معاف گواہ کے بارے میں بھی قانون میں تبدیلی کر دی گئی ہے اور یہ قرار پایا ہے کہ وعدہ معاف گواہ بھی پانچ سال کے لیے عوامی عہدہ رکھنے سے نا اہل ہو جائے گا۔ یعنی اب وعدہ معاف گواہ بننا بھی اتنا آسان نہیں رہا کیونکہ اس صورت میں اس کی سیاست کا بھی انجام بخیر اسی طرح ہو جائے گا جیسے سزا یافتہ مجرم کا ہو گا۔ گویا وعدہ معاف گواہی کے آگے رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ہے اور اعلان عام ہے کہ بھائی صاحب اب ہمہ یاراں جنت ہمہ یاراں دوزخ۔ (مجھے چونکہ علم نہیں کہ پیراگون سوسائٹی کے مقدمے میں کوئی وعدہ معاف گواہ ہے یا نہیں اس لیے کچھ کہنا مشکل ہے کہ اس ترمیم کا فائدہ عمومی ہے یا کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں)۔
ایک ترمیم یہ سامنے آئی ہے کہ 500 ملین سے کم کی کرپشن کو نیب نہیں دیکھے گا۔ نیب کا مقدمہ تب بنے گا جب کرپشن کا مبینہ حجم 500 ملین ہو گا۔ یعنی پانچ سو ملین سے کم کی واردات کر کے اہل ہنر ہنسی خوشی رہ سکیں گے۔ نیب کا قانون صرف اس وقت حرکت میں آئے گا جب واردات 500 ملین یا اس سے زیادہ کی ہو گی۔ معلوم نہیں اس ترمیم کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا حکومت پانچ سو ملین کو محض دودھ پتی سمجھتی ہے کہ پی کر ہضم کر لی اور چل دیے یا اس سے کم مالیت کا کوئی مقدمہ ہے یا ہوسکتاہے جس کی پیش بندی کی جا رہی ہے؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ چار سو ملین یا ساڑے چار سو ملین یا پونے پانچ سو ملین کی واردات پر مقدمہ اگر نیب میں نہیں چلے گا تو کہاں چلے گا؟ کون سا ادارہ ہے جو ایسے وائٹ کالر جرائم میں تفتیش کی اہلیت رکھتا ہے اور ایسے مقدمات کو نبٹا نے کی اہلیت کا حامل ہے؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ حکومت ایک گائیڈ لائن دے رہی ہے کہ کرپشن کرنی ہے تو احتیاط سے کریں۔
اثاثوں کی تعریف بھی تبدیل کر دی گئی ہے۔ پہلے نیب قانون یہ تھا کہ جو پراپرٹی کسی کے اپنے نام ہے وہ تو اس ملزم کا اثاثہ تصور ہو گی ہی لیکن اگر اس نے میاں بیوی یا بچوں کے نام پر بھی کروا رکھی ہے اور ان کے پاس الگ سے اس پراپرٹی کے حصول کے ذرائع ثابت کرنا ممکن نہیں تو یہ اسی ملزم کا اثاثہ شمار ہو گی۔ اب ایسا نہیں رہا۔ اب کسی ملزم کا اثاثہ صرف وہی ہو گا جواس کے اپنے نام ہو گا۔ اس کا فائدہ کسے ہو گا؟
پہلے یہ تھا کہ کسی کے اثاثے اس کے اعلانیہ ذرائع آمدن کے مطابق نہ ہوتے تو بار ثبوت اس پر تھا کہ یہ جائز ذرائع سے بنائے گئے۔ اب بار ثبوت نیب پر ہو گا اور اسے بتانا ہو گا کہ ملزم نے فلاں ناجائز اثاثہ فلاں واردات کی شکل میں بنایا ہے۔ یعنی نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ یہی نہیں بلکہ اگر ایسی صورت میں نیب الزام ثابت نہ کر سکا تو اس کا Good faith نہیں مانا جائے گا بلکہ نیب کے متعلقہ افسر کو پانچ سال کے لیے جیل بھیج دیا جائے گا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ باقی ساری بیورکریسی کو اسی Good faith کا فائدہ دیتے ہوئے نیب کے دائرہ ختیار سے نکال دیا گیا ہے۔ یعنی بیوروکریسی اگر کئی فیصلہ Good faith میں کرتی ہے تو اس پر نیب کا مقدمہ نہیں بنے گا، لیکن نیب کا افسر Good faith میں بھی کچھ کرے تو پانچ سال جیل جائے گا۔
اور آخری بات: ان تمام ترامیم کا اطلاق آج سے نہیں بلکہ 1999سے ہو گا۔