جب جب کسی وڈیرے، کسی نواب، کسی سردار کے ہاتھوں انسانیت کے سینے میں کوئی درد پیوست ہوتا ہے یہ سوال بھی ساتھ ہی چلا آتا ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی دور غلامی کی مسلط کردہ یہ وڈیرہ شاہی، نوابی اور سرداری کب ختم ہوگی؟
افسر شاہی کی طرح یہ جاگیرداری اور سرداری نظام بھی برطانوی نو آبادیاتی نظام کا ایک جابرانہ ہتھکنڈہ تھا جو اس معاشرے پر مسلط کیا گیا۔ مقصد ایک ہی تھا۔ ان کے ذریعے جبر اور خوف کا ایک ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ کوئی آدمی سر نہ اٹھا سکے۔
اس واردات کا سیاق و سباق بھی، مناسب ہوگا، آپ مجھ سے نہیں بلکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے سابق چیئر مین سر آرچی بیلڈ گیلوے سے سنیں۔ آرچی بیلڈ گیلوے بر طانوی فوج میں میجر جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ آرچی بیلڈ گیلوے تزوویراتی امور کے ماہر تو تھے ہی، انہیں اسلامی علوم سے بھی دلچسپی تھی۔ ا نہوں نے اسلامی قوانین پر A commentary on Muhammadan Law کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی تھی جو غائب کر دی گئی۔
آرچی بیلڈ گیلوے کی جس کتاب کے مندرجات یہاں اس وقت زیر بحث ہیں۔ اس کا نام ہے: Observations on the law and the constitution and present government of India۔ اس میں انہوں نے لکھا کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے یہاں مغلوں نے جو نظام بنایا ہوا تھا اس نظام میں مغل بادشاہ مقامی سطح پر کچھ لوگوں کو انتظامی ذمہ داریاں سونپتے اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے انہیں عارضی طور پر زمینیں اور جاگیریں عطا کرتے تا کہ ان زمینوں کی آمدن سے وہ اپنے اخراجات ادا کر سکیں۔
مقامی زمین دار اپنے علاقوں میں امن عامہ کے ذمہ دار تھے اور ان کے علاقوں میں کوئی چوری یا ڈکیتی ہو جاتی تو ان پر لازم تھا یا تو چور اور ڈاکو کو پکڑ کر مال سمیت پیش کریں یا پھر ان کی ذاتی جائیداد بیچ کر یہ نقصان پورا کیا جائے۔ گیلوے بتاتے ہیں کہ ا ن کے مرنے پر یہ جاگیریں ان کی اولاد کو منتقل نہیں ہوتی تھیں بلکہ یہ مغل بادشاہ کے انتظام میں واپس چلی جاتی تھیں اور پھر وہ جس کو یہ منصب عطا کرتا تھا زمینیں اور جاگیریں بھی اس شخص کے حوالے کر دی جاتی تھیں۔
انگریز نے جب یہاں قبضہ کیا تو اس نے یہ زمینیں مستقل بنیادوں پر ملت کے غداروں اور اپنے وفاداروں میں بانٹنا شروع کر دیں۔ باپ مر گیا تو جاگیر بیٹے کو مل گئی۔ اب گویا یہ مال غنیمت تھا جو انگریز نے اپنے وفاداروں میں تقسیم کر دیا۔ کسی کو گھوڑے پال سکیم کے تحت جاگیر دے دی کسی کو اس کی دیگر ملت فروش خدمات میں جاگیر عطا فرما دی۔
انگریز نے گویا اپنے وفاداروں کا ایک لشکر منظم کیا اور ایک زرعی معاشرے میں ان وفاداروں (غداروں) کو مسلط کر دیا۔ کچھ وہ بھی ہوں گے جن کے پاس پہلے سے ہی اپنی زمینیں تھیں لیکن اکثر جاگیروں کی کہانی یہی تھی کہ یہ ملت فروشی اور غداری کے انعام میں بانٹی گئیں۔
چنانچہ سر آرچی بیلڈ گیلوے لکھتے ہیں کہ مغل حکومتوں میں اصول یہ تھا کہ زمین خدا کی ملکیت ہے اور اسے امانت کے طور پر انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے عارضی طور پر لوگوں کے سپرد کیا جاتا تھا اور جب تک وہ اس منصب پر برقرارا رہتے تھے، اپنے علاقے میں امن عامہ وغیرہ کے امور کی انجام دہی کے اخراجات ان زمینوں سے پورے کرتے تھے۔
انگریز نے اس نظام کو ختم کر دیاکیونکہ انگریز کا مقصد عوام کو غلام اور محکوم بنا کر رکھنا تھا۔ اس کے لیے آسان تھا کہ چند وفاداروں کو جاگیریں عطا کر کے ان کے ذریعے بنگال اور پنجاب کے زرعی معاشرے کو اپنے شکنجے میں لے لیا جائے۔ انگریز کا مطالبہ صرف اتنا سا تھا کہ ان کے علاقے سے کوئی گستاخ سر نہ اٹھائے۔ انہیں ہر طرح کے مظالم کی آزادی تھی۔ یہ جاگیردار زمین کے فرعون بن گئے۔ گیلوے نے اپنی کتاب پر اس واردات پر تفصیل سے بات کی ہے۔
بلوچستان کے سرداری نظام کی جڑیں بھی بلوچستان کی اپنی تہذیب میں نہیں ہیں۔ اس نظام کی بنیاد انگریز نے 1876 میں رکھی۔ اس نظام کی سفاکیت کا اندازہ لگانا ہو تو ڈاکٹر عطا بخش مری کے یہ الفاظ کافی ہیں کہ " سردار لا شریک ہوتا ہے"۔ انگریز نے اس نظام کو یوں مستحکم کیا کہ عام آدمی کے قتل کا خوں بہا دو ہزار روپے رکھا لیکن اپنے ان وڈیروں نوابوں کے قتل کا خوں بہا آٹھ ہزار روپے رکھا۔ یعنی نو آبادیاتی نظام کے یہ محافظ عام انسان سے چار گنا زیادہ قیمتی تھے۔
بلوچستان میں انگریزوں کے خلاف جب مزاحمت بڑھی تو انگریز نے وہاں یہ سرداری نظام متعارف کرایا۔ اپنے وفاداروں کو منصب دیے۔ لیویز کی شکل میں انہیں مسلح جتھے دیے تا کہ وہ باغیوں کو کچل سکیں۔ ان سرداروں وڈیروں کے بچوں کو ایچی سن سے لے کر ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی تک تعلیم دی لیکن عام آدمی کو تعلیم سے دور رکھا۔ ساتھ مذہبی ٹچ، بھی دیا گیا کہ سردار تو اللہ کا ولی ہوتا ہے۔ اس کی اطاعت لازم ہے۔ سرداروں کی جھوٹی کرامات مشہور کرائی گئیں۔
غلامی کو یوں سائنسی انداز سے مسلط کیا گیا کہ آج ہم اس نظام پر بات کریں تو ہمارے بلوچ ادیب دوست بھی اسٹیبلشمنٹ کے سردار، کی مذمت کر کے اپنے سرداروں، کے حق میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہیں شاید یاد ہی نہیں کہ یہ اپنے سردار، بھی انگریز ہی کے مسلط کردہ تھے اور 1929 میں یوسف عزیز مگسی نے ان نوآبادیاتی سرداروں کے خلاف ایک خفیہ مزاحمتی تحریک شروع کی جس کا نام انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان، تھا۔ سردار کسی کا بھی ہو، سردار ہی ہوتا ہے۔ یہ بندوبست ہی انسانیت کی توہین ہے۔
انگریز چلا گیا تو پیچھے اپنی افسر شاہی کے ساتھ ساتھ اپنے یہ جاگیردار، نواب، سردار اور وڈیرے بھی چھوڑ گیا۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ قائد اعظم جلد خالق حقیقی سے جا ملے اور افسر شاہی اقتدار پر قابض ہوگئی اور اس نے ان جاگیرداروں سرداروں نوابوں اور وڈیروں کے ذریعے سماج کو اپنی گرفت میں رکھنے کے اسی نو آبادیاتی فارمولے کو جاری رکھا۔
قیام پاکستان کے بعد زرعی اصلاحات کی بات ہوئی تو اہل مذہب ان وڈیروں اور جاگیرداروں کے رضاکار محافظ بن کر سامنے آ گئے اور کہا جانے لگا کہ یہ اسلام کے حق ملکیت کی خلاف ورزی ہے کہ ریاست کسی کی زمین لے لے۔ یہ اہل مذہب کی سادگی تھی یا کیا تھا لیکن یہ بہر حال طے ہے کہ ان کی دلیل درست نہ تھی۔ غداری کے بدلے انگریز سے ہتھیائی گئی زمینیں اسلام کے حق ملکیت کے دائرہ کار میں آتی ہی نہیں تھیں۔
یہ مغلوں کے اقتدار میں ریاست کی زمینیں تھیں اور ملکیت اللہ کی تھی۔ انگریز نے یہ امانت مال غنیمت سمجھ کر وفاداروں میں بانٹ دی۔ پاکستانی حکومت کا یہ حق تھا یہ امانت واپس لیتی اور غریبوں میں تقسیم کرتی۔ لیکن یہ نہ ہو سکا۔ با لادست طبقات یہ کرنا بھی نہیں چاہتے تھے اور اہل مذہب نے انہیں دلائل بھی فراہم کر دیے۔ نتیجہ یہ ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔