نواز شریف واپس آ رہے ہیں اور عمران خان جیل میں ہیں، کل نواز شریف جیل میں تھے اور عمران خان کوچہ اقتدار میں نغمہ سرا تھے۔ یہ وہ دن ہیں جو خالق کائنات لوگوں کے در میان پھیرتا رہتا ہے۔ دنوں کو اگر کل ثبات نہیں تھا تو اب بھی نہیں ہوا۔ یہ تغیر و تبدل جاری رہے گا۔ عمران خان کی بہار ان کے آنگن میں ٹھہر نہ سکی تو یہ خزاں بھی ایک دن ختم ہو جائے گی۔ سوال کچھ اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنے نامہ اعمال پر غور فرما کر اپنی غلطیوں کی اصلاح کر سکیں گے یا انہی غلطیوں کو دہرائیں گے اور کیلے کا چھلکا دیکھ کر اعلان فرمائیں گے کہ عزیز ہم وطنو! مجھے ایک بار پھر پھسل کر گرنا پڑ گیا ہے؟
جیل کی تنہائی آدمی کے مزاج کی تہذیب کر سکتی ہے، اگر وہ سوچنے ا ور غوروفکر پر آمادہ ہو۔ اٹھتی جوانی سے بڑھاپے تک، عمران خان کا سفر شہرت کی چکا چوند میں نہایا ہوا سفر تھا۔ تعریف، خوشامد، مبالغہ، کاسہ لیسی کی وجہ سے خود پسندی اور نرگسیت جیسے وہ سارے عارضے ان کے دامن سے لپٹ گئے جو کسی بھی مقبول آدمی کا امتحان بن جاتے ہیں۔ عمران تو پھر غیر معمولی مقبول تھے، ان کی خود پسندی کا عارضہ بھی غیر معمولی نکلا۔ نہ کوئی دوست، نہ کوئی ناقد، نہ کوئی خیر خواہ، بس مداحوں کا ایک ہجوم تھا، واہ واہ، سبحان اللہ کی صدائیں تھیں اور معقولیت الامان الامان پکارتی رہی۔
مستثنیات یقینا موجود ہوں گی لیکن عمومی صورت حال یہ تھی کہ ہر شعبے کا پست آدمی اٹھا کر قافلہ انقلاب کے ماتھے کا جھومر بنا کر سجا لیا گیا۔ مہارت، دیانت، تجربہ، متانت یہاں سب بے کار تھا، ایک ہی زاد راہ تھا جو راتوں رات بندے کو معتبر بنا دیتا تھا، بد زبانی اور خوشامد۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جسٹس وجیہہ الدین جیسے نجیب آدمی چھوڑ کر چلے گئے اور چھوٹے لوگوں نے منصب سنبھال لیے۔ عمران خان تیسرے درجے کی نثر کہتے تو اہل دربار اسے میر کی مثنوی قرار دیتے اور ایک پہر واہ واہ، مکرر مکرر، ارشاد ارشاد کی آوازیں بلند ہوتی رہتیں۔
جنہوں نے خیر خواہی میں تنقید کی، ان کی باقاعدہ پالیسی کے تحت کردار کشی کی گئی۔ ماں بہن کی گندی اور غلیظ گالیوں کا ایسا ایسا ذخیرہ متعارف کرایا گیا کہ اب بھی یاد آتی ہے توکنپٹیاں جل اٹھتی ہیں۔ جو مشکل وقت کے دیرینہ کارکنان تھے انہیں نظر انداز کر دیا گیا اور ابن الوقتوں کے لشکر بنی گالہ کی دہلیز پر جا اترے۔ جنہیں ابھی شرفاء کی محفل میں بیٹھنے کے آداب سیکھنے کی ضرورت تھی وہ صاحب مسند ہو گئے۔ ایسا سونامی آیا، شائستگی، وضع داری، مروت، سب بہا لے گیا۔
جس آزار کو دوسروں کے لیے تیار کیا گیا تھا وہ اب لوٹ کر خوود عمران خان کے دامن سے لپٹ رہا ہے۔ جن کے ہاتھوں دوسروں کی پگڑیاں اچھالی جاتی تھیں ان کے آتشیں لہجے اب عمران خان کے دامن کو جلا رہے ہیں۔ جو ہر ٹاک شو میں اپنی بدزبانی سے دنیا کے چھ براعظم فتح کرکے گھر جایا کرتے تھے، وہ نا موافق موسموں کا ایک تھپیڑا برداشت نہ کر سکے۔ جو دوسروں کی تذلیل اور تضحیک کرتے تھے اب خود حالات کی گرفت میں ہیں اور ایک پہر نہیں گزار سکے۔
یہ سارا کھیل دیکھ کر آدمی سوچتا ہے کیا یہ وہ رستم تھے جو عمران خان نے پاکستان میں معلوم انسانی تاریخ کا پہلا انقلاب لانے کے لیے متعارف کرائے تھے؟ تازہ ترین غزل ہی کو دیکھ لیجیے، فرخ حبیب کا مطلع بھی پڑھ لیا اور شہباز گل کا مقطع بھی، سوال اب یہ ہے کیا یہ وہ ٹیم تھی جسے تیار کرنے میں عمران خان کے بیس بائیس برس صرف ہوئے؟
فرخ حبیب نے عمران کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا؟ اور جواب میں شہباز گل نے کیا کچھ کہ دیا۔ شہباز گل سچا ہے یا فرخ حبیب، دونوں صورتوں میں یہ عمران خان کی ناکامی ہے۔ دونوں نے عمران خان کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔ فرخ حبیب تو مخالفت میں بول رہا تھا، شہباز گل نے تو عمران کی حمایت کرتے ہوئے عمران خان کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ اگر کسی کو یہ طعنہ دیا جائے کہ تم عمران کے دور میں موٹر سائیکل سے پراڈو تک پہنچے تو یہ فرخ حبیب سے زیادہ عمران خان کا پوسٹ مارٹم ہے۔ فرخ حبیب جیسوں کو کون جانتا تھا، یہ عمران تھے جنہوں نے ایسوں کو اٹھایا اور وزارتیں دے دیں۔ شہباز گل کے مطابق وزارتوں کے دوران اگر وہ موٹر سائیکلوں سے پراڈو تک آ ئے تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ عمران دور میں لوٹ مار اور اندھیر مچی تھی۔ بس شہباز گل نے اعتراف اس وقت گیا جب اگلا بندہ پارٹی چھوڑ گیا۔ یعنی پارٹی میں رہتا تو موٹر سائیکل سے پراڈو تک کا یہ سفر انقلاب کا سفر ہونا تھا۔ اب چھوڑ گیا تو یہ کرپشن کی داستان بن گیا۔
پارٹیوں میں لوگ آتے بھی ہیں اور جاتے بھی، سیاست بھی موسم سازگار بھی ہوتے ہیں اور ناسازگار بھی لیکن اس قافلہ انقلاب کے بانکوں کا عالم جدا ہے۔ بزم ہو یا رزم، ان کی زبان پر ہر وقت انگارے دھرے ہوتے ہیں۔ انگاروں کا کام جلا دینا ہے۔ انہیں کب کیا پرواہ اپنا دامن زد میں ہے یا پرایا۔ زبان بکف یہ جنگجویہ جدھر کا رخ کرتے ہیں، دیکھنے سننے والے پناہ مانگتے ہیں۔ ان سے نہ غیروں کو امان ہے نہ اپنوں کو۔ جیل کی تنہائی میں اگر عمران خان کو وقت ملے تو انہیں سوچنا چاہیے یہ کیسے کیسے لوگ انہوں نے تبدیلی کے نام پر عوام پر مسلط کیے تھے اور اب بھی ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔
عمران اقتدار کا دور گزار چکے۔ ان کی مدت پوری نہیں ہوئی تو باقیوں کی کون سی پوری ہوئی۔ باقیوں سے سوالات ہو سکتے ہیں تو ان سے بھی ہوں گے۔ سوال یہ ہے ان کے دامن میں کارکردگی کا وزن کتنے کلو گرام ہے؟ کب تک دوسروں کی خامیوں پر سیاست کریں گے؟ کب تک جذباتی نعروں سے مائنڈ گیم کی مہارت ثابت کریں گے؟ پوست ٹروتھ کی سیاست کب تکِ؟ اپنا نامہ اعمال کہاں ہے؟ قادر ٹرسٹ سے فرح گوگی کیس تک کرپشن کی کیسی کیسی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں؟ کیا یہ تبدیلی تھی؟
عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے سیاسی حریفوں کا رویہ وہ نہیں جو ان کا ہوا کرتا تھا۔ آج پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بار بار کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ سیاسی جلسے کر رہے ہیں تو عمران کو بھی میدان میں ہونا چاہے۔ یہ نہیں کہ ایک آدمی تو جیل میں ہوا اور دوسرا جلسے کر رہا ہو۔ مولانا فضل الرحمن ان کا اے سی اتارنے کی بات نہیں کر رہے نہ ہی پانچ سو لوگوں کو پھانسی دینے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کے لیے سیاسی ماحول سازگار کرنے کی بات کر رہے ہیں اور قومی مفاہمت کی بات کی جا رہی ہے۔
وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا، اسے بدلنا ہوتاہے۔ عمران خان کے سیاسی مستقبل کا تعین اب اس بات سے ہوگا کہ اب تک کی غلطیوں سے انہوں نے کچھ سیکھا یا نہیں۔ ہیجان کی سیاست، انگارے اگلتے لہجوں کی سرپرستی، یوٹرن پر یوٹرن، نفرت کے فروغ نے نہ انہیں کچھ دیا نہ معاشرے کو۔ سوال یہ ہے کیا آنے والے وقت میں ایک نیا کپتان سامنے آ سکتا ہے یا وہی کپتان ہوگا، وہی اہل دربار ہوں گے اور وہی کیلے کا چھلکا ہوگا۔