نیوزی لینڈ کا فیصلہ افسوسناک ہے لیکن اس فیصلے پرہمارا اجتماعی رد عمل اس سے ز یادہ افسوسناک ہے۔ ہرمرتبہ جب کوئی بحران ہماری دہلیز پر دستک دیتا ہے اور ہمیں بطور قوم رد عمل دینے کی ضرورت ہوتی ہے ہم سیاسی فرقہ واریت کا شکار ہو جاتے ہیں اور داخلی سیاست کے گندے کپڑے دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر بحران ہمارے فکری افلاس کو مزید نمایاں کر جاتا ہے۔ اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا۔
یوں لگتا ہے کہ خلط مبحث ہمارا قومی عارضہ بن چکا ہے اور ہر بحران کے ہنگام ہم خلط مبحث کا شکار ہو کر اپنی اپنی عصبیت کے کوڑے سے ایک دوسرے کو پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس وقت بھی دیکھ لیجیے جو حرکت ہمارے ساتھ نیوزی لینڈ نے کی ہے وہ پیچھے رہ گئی ہے اور کوئی عمران خان سے اپنے حساب پورے کر رہا ہے تو کوئی اپوزیشن کے گلے میں غداری کا ایک اور ہار ڈالنے پر بضد ہے۔ صف بندی ہو چکی ہے اور ہر صف کے کارندے داد شجاعت دے رہے ہیں۔ اس عصبیت کے کھیل میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ اس فکری حلقے نے پوری کر دی ہے جس کے نزدیک ہر بحران میں قصور پاکستان کا ہوتا ہے اور باقی ساری دنیا دودھ سے دھلی ہوئی ہے۔
اس خلط مبحث، عصبیت اور نفرت میں جو بیانیہ کھڑا کیاگیا ہے، وہ افتاد طبع کی تسکین کا باعث تو بن سکتا ہے لیکن علم کی دنیا میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ آئیے ا س بیانیے کے چند پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
پہلا اعتراض یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے مرحلے پر ہم نے وزارت داخلہ شیخ رشید جیسے شخص کو دے رکھی ہے تو بحران تو پیدا ہوں گے۔ کیا حکومت کے پاس کوئی سنجیدہ آدمی موجود نہیں جو یہ منصب سنبھال سکے۔ یہ اعتراض جزوی طور پر درست ہو سکتا ہے لیکن نیوزی لینڈ کے فیصلے کے باب میں اس اعتراض کا سہارا لینا خلط مبحث کے سوا کچھ نہیں۔ جس وقت نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان کھیلنے تشریف آئی تھی اس وقت ہمارا وزیر داخلہ کیا کوئی بو علی سینا تھا اور ٹیم کے ائیر پورٹ پر اترنے کے بعد ہم نے بو علی سینا سے وزارت لے کر شیخ رشید کو دے دی تھی؟ یہی شیخ رشید تھا جب ٹیم یہاں آئی تھی۔ اب میچ سے چند لمحے پہلے ٹیم کی واپسی سیدھا سادھا ڈپلومیٹک آفینسو ہے۔ چیزوں کی ترتیب درست رکھنی چاہیے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب حکومت خود سیاسی مخالفین کو سیکیورٹی تھریٹ کے نام پر جلسے کرنے سے خوفزدہ کرتی ہو تو پھر دنیا کیسے ہماری سیکیورٹی پر اعتبار کر سکتی۔ یہ دلیل پہلی دلیل سے بھی زادہ وزنی ہے لیکن نیوزی لینڈ کے حالیہ فیصلے کا جواز یہ بھی نہیں بن سکتی۔ کیونکہ نیوزی لینڈ کی تشریف آوری جب ہوئی تھی اس وقت یہ سارے کام ہو چکے تھے۔ اگر یہ مسئلہ ہوتاتو نیوزی لینڈ کو آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ جب وہ آ گئی تو اس کے بعد تو کوئی ایسا تھریٹ دیا ہی نہیں گیا کہ وہ اچانک بھاگ گئی۔ یہ نکتہ بھی یہاں خلط مبحث ہے۔
تیسرا نکتہ یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ جب ہم نے ٹی ٹی پی کے لیے معافی کا عندیہ دیا تو دنیا اس سے ناراض ہو گئی۔ اس معافی کے جواز یا عدم جواز پر بات ہو سکتی ہے اور دو آراء بھی ہو سکتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے آئین کے تحت کس کو معاف کرنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کیا ہم نے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ سے پوچھ کر کرنا ہے۔
ایک نکتہ یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ ہمیں طالبان سے اتنی قربت کی کیا ضرورت تھی کہ ہم نے کابل جا کر چائے پی لی۔ اب دشمن نے جواب تو دینا تھا۔ یہ بھی خلط مبحث ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی نیوزی لینڈ وغیرہ سے پوچھ کر بنایا کرے۔ طالبان کو تو خود امریکہ نے بھی انگیج کیا۔ قطر کے وزیر خارجہ بھی وہاں گئے۔ ہم گئے اور چائے کا کپ پی لیا تو کیا اس کا مطلب یہ ہے اب پاکستان میں کرکٹ ہی نہ ہو۔ یعنی پاکستان نیک چلنی کے ثبوت دینے کے لیے آس پاس سے پوچھ لیا کرے کہ ہم نے کس ملک کب جانا ہے اور وہاں جا کر ہمیں چائے پینے کی اجازت ہے یا نہیں اور چائے بروک بانڈ کی ہونی چاہیے یا سپریم کی؟
ایک عمومی سینہ کوبی بھی اس میں شامل ہے کہ دیکھیں جی ہم اپنی غلطیوں کو نہیں دیکھتے اور نیوزی لینڈ پر غصہ کر رہے ہیں۔ یہ وہی سوچ ہے کہ دنیا میں جو غلط ہوتا ہے پاکستان کرتا ہے ا ور دوسرے جو کرتے ہیں وہ ٹھیک ہوتا ہے۔ یہ رویہ علم کی دنیا میں اجنبی ہے۔ پاکستان سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی اور ہوں گی لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت کیا ہوا کہ نیوزی لینڈ اچانک چلی گئی۔ یہاں کوئی غلطی ہے تو بتایا جائے۔ رات تک ٹیم کھیلنے کو تیار تھی صبح کیا ہوا کہ وہ بھاگ گئی؟ کوئی تھریٹ تھا تو کیا اسے پاکستان سے شیئر کیا گیا؟
نیوزی لینڈ نے جو حرکت کی ہے یہ ریاست پاکستان کے خلاف کی ہے اس کا جواب بطور پاکستانی دینا چاہیے۔ یہ موقع عمران خان سے حساب برابر کرنے یا حزب اختلاف کو غدار ثابت کرنے کا نہیں۔ حکومت کی ذمہ داری البتہ زیادہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ تمام وزراء صرف حب اختلاف کی ہجو کہنے کو رکھے گئے ہیں۔ انہیں اب تھوڑی توجہ اپنے اپنے کام پر بھی دینی چاہیے۔ چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں اور ہر چیلنج ہم سے یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ کیا ہمارے پاس کوئی رجل رشید بھی ہے یابس شیخ رشید ہی بچے ہیں۔
نیوزی لینڈ کے ساتھ ہر دستیاب فورم پر پوری قوت اور شدت سے بات کرنی چاہیے۔ نیوزی لینڈ کو بتانا ہو گا کہ وہ کون سا تھریٹ تھا کہ لمحوں میں اس نے دورہ منسوخ کر دیا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آئی سی سی کے فورم پر مانگا جانا چاہیے۔ اگر اس سوال کا جواب نہیں ملتا تو پھر یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ سے ہمارا آئندہ تعلق کس نوعیت کا ہو گا۔