سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا اور فیصلے کے بعد وفاقی کابینہ نے بھی اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس معاملے کے قانونی پہلو کو فی الوقت ایک طرف رکھتے ہوئے ہم اس کے سیاسی پہلو پر بات کر لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر الیکشن اکتوبر میں ہی ہوتے ہیں تو اس سے حکومتی اتحاد کو کیا ملے گا؟
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر روز 16 سے 18ہزار نیا ووٹر رجسٹر ہو رہا ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جو ووٹر کی اہلیت کی عمر کو پہنچ رہے ہیں اور ان کا ووٹ رجسٹر ہو رہا ہے۔ اکتوبر کے اختتام تک یہ 210 دن بنتے ہیں۔۔ ان 210 دنوں میں 37 لاکھ سے زائد ووٹر ز کا اندراج ہو چکا ہوگا۔ سماجیات کے جو دو چار ماہرین ہمارے ہاں دستیاب ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان نئے ووٹرزکی غالب اکثریت کا جھکائو تحریک انصاف کی طرف ہے۔ یعنی الیکشن میں جتنی تاخیر ہوگی، تحریک انصاف کے ووٹر میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔
پی ڈی ایم اور اس کے اتحادی یقینا ماہرین کی اس رائے سے اتفاق نہیں کریں گے۔ مجھے بھی اس رائے پر کوئی اصرار نہیں ہے۔ یہ درست بھی ہو سکتی ہے اور یہ غلط بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ایک اور سوال تو پوچھا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے پاس ایسی کون سی چیز ہے جو ان نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرے۔ کوئی نعرہ؟ کوئی رومان؟ کوئی سچ؟ کوئی جھوٹ؟ کوئی وعدہ؟ کوئی ایک چیز ایسی ہے تو بتا دیجیے؟
نوجوان ووٹر کی دنیا مختلف ہے۔ یہ اس زمانے کا ووٹر نہیں ہے جب دو اخبار اور ایک پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور معلومات کے ذرائع ادھورے تھے۔ یہ ڈیجیٹل دور کا ووٹر ہے۔ اس کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون میں معلومات کے ساتھ ساتھ حریت فکر کا نیا احساس بھی ہے۔ خبر ایک لمحے میں اس تک پہنچ رہی ہے اور وہ خود اب تجزیہ کار ہے۔ اسے ابلاغ کے مواقع میسر ہیں۔ اس بدلتے دور کے اپنے سماجی اور نفسیاتی تقاضے ہیں۔ یہ ووٹر کاٹن کے کڑکتے رعونت آمیز پیرہن اور مونچھوں سے لپٹی جاگیردارانہ رعونت سے بے زار ہے۔ روایتی سیاست کے طور طریقے اسے مائل نہیں کر سکتے۔ یوں سمجھیے کہ سیاست کے پرانے فیشن بدل چکے۔ اب بچے غیر سیاسی نہیں رہے۔ بیٹیاں، بیویاں اور مائیں تک سیاسی ہوچکی ہیں۔ سیاست اب ڈیروں، بیٹھکوں، جلسوں اور ڈرائنگ روموں تک محدود نہیں رہی یہ اب ڈائننگ ٹیبل تک آ گئی ہے۔ اس بدلتے سیاسی میں رجال رفتہ کہاں کھڑے ہیں؟
کیا مسلم لیگ کے نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز یا مریم نواز کے پاس ایسا کوئی پروگرام ہے، جس میں یہ نوجوان کشش محسوس کریں؟ کیا یہ نوجوان جناب آصف زرداری کی طرف مائل ہوں گے؟ کیا بلاول کے پاس کوئی ایک ایسا نعرہ ہے جس میں کسی پڑھے لکھے جوان کی کئی دلچسپی ہو؟ کیا یہ نیا ووٹر مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت سے متاثر ہو کر پی ڈی ایم میں آئے گا یا مولانا اسعد محمد کے جوہر خطابت کا قتیل ہو جائے گا؟
شعور کا یہ عالم ہے کہ لاہور کی ایم پی اے ٹویٹ کرتی ہیں نوجوانو! تم میں سے کون مریم نواز سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ نام رجسٹر کرائیں اور قائد سے ملیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے آ ج کے جدید تعلیمی اداروں کے نوجوان اس طرز خوشامد سے متاثر ہوسکتے ہیں؟ یا پھر یہ نوجوان وزیر تعلیم رانا تنویر کے علمی و فکری انداز گفتگو سے متاثر ہو جائیں گے کہ معلوم انسانی تاریخ میں ایسا کوئی وزیر تعلیم نہیں ہے جو تعلیمی اداروں کے کانووکیشن سے لے کر پارلیمان تک گالی دینے کے فن میں ایک جیسی مہارت رکھتا ہو۔
علم و فضل تحریک انصاف کے پاس بھی نہیں۔ مگر اسے معلوم ہے نوجوان ووٹر کو جوڑے رکھنے کا آسان ترین طریقہ ہیجان اور جذباتیت ہے اور اس فن کو اس نے کمال تک پہنچادیا ہے۔ ہیجان کلٹ اور نفرت کوجنم دیتا ہے اور یہ سستا اور موثر ترین سیاسی زاد راہ ہے۔ نہ کوئی سوال اٹھتا ہے نہ کوئی محاسبہ ہوتا ہے، اندھی وابستگی ہے اور اندھی نفرت۔
عمران خان کے ساتھ نوجوانوں کا ایک رومان بھی ہے۔ ووہ بہت بڑا کرکٹر رہا ہے۔ کھیل کی دنیا میں اس کی حیثیت ہیرو کی تھی۔ ان کے رفقائے کار بھلے مخدوم اور چودھری ہوں لیکن عمران کی شکل میں انہیں غیر روایتی رہنما نظر آتا ہے۔ جو روایتی جاگیردار نہیں ہے، جو وڈیرا نہیں ہے، جس کی سیاست اس کے خاندان کی جاگیر نہیں ہے۔ نوجوان جو روایتی سیاسست کے کردار ہی نہیں اس کے حلیے سے بھی بے زار ہے وہ عمران کے ساتھ کھڑا ہے۔
سوشل میڈیا اس کا ایک ثبوت ہے۔ سوشل میڈیا پر اگر عام نوجوان کسی کا مقدمہ لڑ رہا ہے تو وہ صرف عمران خان ہے۔ ن لیگ کا مقدمہ لڑنے والے صرف وہ ہیں جو اس جماعت کے دسترخوان سے فیض یاب ہو رہے ہیں، کسی عہدے پر فائز ہیں اوور ریاستی وسائل کو اہلیت کی بجائے سیاسی وابستگی کی بنیاد پر نوچ کھا رہے ہیں یا وہ امید سے ہیں کہ کل کوئی عہدہ مل سکتا ہے۔ یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے۔ جے یو آئی ویسے ہی ایک مکتب فکر تک محدود ہے۔ عام نوجوان کے لیے اس میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عمومی رجحان یہ ہے کہ نوجوان اور طالب علم عمران کی طرف مائل ہیں۔
اس کی وجوہات بھی بہت واضح ہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے آج تک نوجوانوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کی ضرورت کو سمجھا ہی نہیں۔ یہ روایتی جوڑ توڑ اور چند سیاسی گھرانوں سے معاملات طے کرنے ہی کو سیاست سمجھ رہی ہیں۔ یہ اس صلاحیت سے محروم ہیں کہ سیاست کا سماجی مطالعہ کر سکیں اور دیکھ سکیں کہ معاشرے کے رجحانات میں کیا جوہری تبدیلی آ چکی ہے۔ یہ آج تک اپنے تنظیمی ڈھانچے میں عام نوجوان کو جگہ نہیں دے سکے۔ اقتدار کی راہ داریوں میں داخلہ تو تحریک انصاف میں بھی تجوری ہی سے ہوتا ہے لیکن جماعتی نظم میں اس نے نوجوانوں کو جگہ دی ہے اور نوجوان کے لیے یہ جگہ صرف تحریک انصاف میں ہے اور کسی جماعت میں نہیں۔
سچے ہیں یا جھوٹے خواب عمران کے پاس ہیں، اصلی ہے یا جعلی مگر حریت کا پرچم بھی اس کے پاس ہے اور نوجوان یہ کہتے ہوئے سرشارہو جاتا ہے کہ امریکہ ہم کیا تمہارے غلام ہیں، ریاست مدینہ کی بات اس نوجوان کی مذہبی آسودگی کا باعث ہے۔ پوسٹ ٹروتھ کے کھڑکی توڑ کامیاب پروگرام کے بعد اب اینٹی اسٹیبلمشنٹ بھی عمران خان ہے۔ پھانسیوں پر چڑھنے والے نہیں بلکہ ایک دن بھی جیل نہ جانے واالا عمران ہے جوقومی تاریخ کا پہلا اینٹی اسٹیبلشمنٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کو جس طرح کابینہ نے رد کیا ہے اس کے بعد یوں سمجھیے کہ آئین کی بالادستی کا پرچم بھی عمران خان کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ سواال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس کیاہے؟ فرض کریں الیکشن اکتوبر میں ہی ہو گئے تو بھی پی ڈی ایم کو کیا ملے گا؟