او آئی سی کی موجودگی میں اگر عرب لیگ کام کر سکتی ہے تو عجم لیگ کیوں نہیں بن سکتی؟ یہ سوال میں کسی امر واقع یا کوالالمپور کانفرنس کی بنیاد پر نہیں اٹھا رہا، اسے اسلامی فقہ کے " اہل الرائے" کی علمی روایت کی اتباع کی ایک کوشش سمجھا جائے۔
ممالک جب الائنس بناتے ہیں تو اس کے مختلف عوامل ہوتے ہیں۔ مذہب ان میں سے ایک عامل ضرور ہے لیکن وہ واحد عامل نہیں۔ علاقائی مفادات، تزویراتی مفادات اور معاشی ترجیحات بھی صف بندی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اقوام عالم مل جاتی ہیں تو اقوام متحدہ بن جاتی ہے۔ مسلم دنیا ملتی ہے تو او آئی سی وجود میں آ جاتی ہے، یورپ کے ممالک علاقائی بنیادوں پر ایک الائنس بناتے ہیں تو یورپی یونین قائم ہو جاتی ہے اور سائوتھ ایسٹ ایشیا کے ممالک اکٹھے ہوتے ہیں تو آسیان وجود میں آ جاتی ہے۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک اکٹھے ہوں تو سارک بن جاتی ہے۔ عسکری مفادات کا تقاضاہوتا ہے تو نیٹو بن جاتی ہے۔ معاشی مفادات تقاضا کرتے ہیں تو پٹرولیم بیچنے والے ممالک اوپیک بنا لیتے ہیں اور چین کی سرپرستی میں شنگھائی تعان تنظیم قائم کر لی جاتی ہے۔
ان بہت ساری تنظیموں کی ساخت کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے ہر ملک بیک وقت متعدد تنظیموں اور کونسلوں کا رکن ہوتا ہے اور اسے ایک معمول کی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے کبھی اعتراض نہیں کیا کہ جب انسانیت کی بنیاد پر ساری دنیا کا ادارہ اقوام متحدہ کی شکل میں موجود ہے تو اب مذہب کی بنیاد پر او آئی سی کیوں قائم کی گئی ہے۔ گویا دنیا میں مذہب کی بنیاد پر اگر کچھ ممالک ایک تنظیم بناتے ہیں تو اسے مثبت انداز سے لیا جاتا ہے اور اسے دشمن نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے تو وہیں موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس بھی منعقد کر لیا جاتا ہے۔ اس پر کبھی اعتراض نہیں اٹھا کہ اقوام عالم کے اکٹھ کے موقع پر یہ مسلمان الگ سے جمع کیوں ہو گئے۔
یہی معاملہ مسلم دنیا کا ہے۔ جب او آئی سی بنی تو کسی ایک مسلم ملک نے بھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اب چونکہ مسلمانوں کا ایک متفقہ فورم وجود میں آ گیا ہے اس لیے عرب لیگ کو ختم کر کے او آئی سی میں ضم کر دیا جائے۔ سب کو معلوم تھا کہ او آئی سی کا تعلق عقیدے سے ہے اور عرب لیگ کا تعلق جغرافیے سے ہے۔ جہاں مسلم دنیا کے مسائل کے حل کے لیے او آئی سی بروئے کار آئے گی وہیں عربوں کے علاقائی مسائل بھی ایک حقیقت ہیں اور علاقائی سطح پر تعاون اور ترقی کے لیے عرب لیگ کا قائم رہنا ایک منطقی چیز ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے جس طرح او آئی سی کے اندر عرب لیگ کی اپنی افادیت ہے اسی طرح او آئی سی کے اندر موجود اسلامی ممالک علاقائی نسبت سے یا معاشی اور تزویراتی امکانات کے پیش نظر ایک الگ فورم بھی بنا سکتے ہیں۔ آپ اسے عجم لیگ کہہ لیں، کوالالمپور کانفرنس کہہ لیں یا کوئی اور نام دے لیں لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ ایک نیشن سٹیٹ کے بہت سارے تقاضے ہوتے ہیں اور ان تقاضوں کے پیش نظر وہ اپنی صف بندی کرتی ہے۔ ایک نیشن سٹیٹ کا ایک تنظیم کا رکن ہوتے ہوئے کسی دوسری تنظیم کا حصہ بن جانا پہلے سے موجود تنظیم سے دشمنی نہیں سمجھا جاتا، اسے اس نیشن سٹیٹ کی ضرورت سمجھا جاتا ہے۔ اگر نئی صف بندی کو پہلے سے موجود صف بندی کے لیے چیلنج ہی سمجھا جاتا تو اقوام متحدہ او آئی سی پر اعتراض کرتی اور او آئی سی کو عرب لیگ پر اعتراض ہوتا۔
مسلم دنیا کو او آئی سی کے ہوتے ہوئے نئی صف بندی کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ او آئی سی کی افادیت سے انکار نہیں، یہ ایک خیر کی قوت ہے اور اسے قائم اور متحرک رہنا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان ممالک اب کسی اور فورم پر اکٹھے ہی نہ ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عرب لیگ کی طرح او آئی سی بھی بنیادی طور پر عرب دنیا کے مسائل کے تناظر میں قائم ہوئی۔ 1945 ء میں جب عرب لیگ قائم ہوئی تو سر پر منڈلاتے خطرات سے عربوں کو بچانا اور ان کی سلامتی کو یقینی بنانا اس کا مقصد تھا۔ او آئی سی کا مقصد بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ یہ مسجد اقصی کی حرمت کے پیش نظر قائم کی گئی۔ جب عرب لیگ نے دیکھا کہ معاملات سے نبٹنا اس کے بس کی بات نہیں تو امہ کا ایک فورم وجود میں آیا۔ فلسطین بلاشبہ امہ کا مسئلہ ہے لیکن بنیادی طور پر یہ عربوں کا مسئلہ ہے جیسے کشمیر بھلے امت کا مسئلہ ہو لیکن بنیادی طور پر یہ ہمارا مسئلہ ہے۔
او آئی سی عرب دنیا کے ایک چیلنج سے نبٹنے کے لیے وجود میں آئی اور یہ عرب دنیا کی قیادت کا عنوان بن گئی۔ قیادت نے عملا دلچسپی صرف ان معاملات میں دکھائی جو عرب دنیا کے مسائل تھے اور عجمیوں کے مسائل سے اغماض برتا۔ فلسطین کے لیے تو القدس فنڈ قائم ہو گیا تھا اور القدس کمیٹی بن گئی تھی کشمیر کے لیے کچھ نہ بن سکا۔ چار اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل میں سے ایک کی ذمہ داری صرف یروشلم کے معاملات کو دیکھنا تھا، کشمیر کے لیے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل کا کلرک بھی بروئے کار نہ آ سکا۔ یوم الاقصیٰ تو منایا جاتا رہا لیکن بابری مسجد پر رام مندر کی تعمیر کے خلاف ایک آواز بھی بلند نہ کی جا سکی، پی ایل او کو تو او آئی سی میں نمائندہ حیثیت مل جاتی ہے لیکن کشمیر یوں کے قا تل بھارت کے لیے او آئی سی چشم ما روشن دل ما شاد ہو جاتی ہے۔ ابھی کشمیر کا اتنا بڑا چیلنج سامنے آیا، جب وادی میں کرفیو کا قہر اترا ہے عرب دنیا مودی کی آرتی اتار رہی ہے اور بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ امت مسلمہ میں سے صرف دو عجمی مسلمان ہمارے ساتھ کھڑے ہیں : ایک ترکی اور دوسرا ملائیشیا۔ جی ہاں وہی ملائیشیا جس کے شہر کوالالمپور میں کانفرنس ہونے جا رہی ہے۔
یہ حقیقت تو ہے ہی کہ عرب لیگ کا بجٹ او آئی سی سے زیادہ ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ او آئی سی بھی عرب لیگ ہی کا ایک ذیلی ادارہ محسوس ہوتا ہے۔ او آئی سی کا جنرل سیکرٹریٹ جدہ میں ہے، اسلامک کورٹ آف جسٹس کویت میں ہے، اسلامک سالیڈیریٹی فنڈ کا صدر دفتر جدہ میں ہے، اسلامک جورسپروڈنس اکیڈمی، اسلامک سول ایوی ایشن، اسلامک اونر شپ ایسو سی ایشن اور اسلامک ڈیویلپمنٹ بنک کا صدر دفتر بھی جدہ میں ہے۔ اسلامک براڈ کاسٹنگ صرف عربی میں کام کرتی ہے۔ عجمی امت کہاں ہے؟ کیا او آئی سی پر عجمیوں کا کوئی حق نہیں۔ ہم عجمی بھی آخر اسی امت کا حصہ ہیں اور آقا ﷺ نے فرمایا تھا کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی برتری نہیں۔
او آئی سی بھی سلامت رہے اور عرب لیگ بھی لیکن ایک عدد عجم لیگ بھی بن جائے تو کیا مضائقہ؟