پاک افغان تعلقات جب زیر بحث آتے ہیں ان کا عمومی عنوان تزویراتی ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تعلقات باہمی کا عنوان معیشت کب ہوگا؟ افغانستان اور پاکستان، بدلتے حالات میں، باہمی معاشی امکانات کا غیر معمولی باب رقم کر سکتے ہیں لیکن ابھی تک یہ چیز ذرائع ابلاغ میں کہیں زیر بحث ہی نہیں آ سکی۔ ایک طالب علم کے طور پر، میرے دامن سے یہ سوال لپٹا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
افغانستان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ابھی تک بنکنگ کے بین الاقوامی نظام سے منسلک نہیں ہو سکا۔ اس سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ سامنے کی حقیقت ہے۔ افغان حکومت کو ابھی دنیا میں سفارتی سطح پر تسلیم بھی نہیں کیا گیا اس سے بھی بہت سے عملی معاشی مسائل جڑے ہیں۔ پاکستان کے معاشی مسائل بھی ہم سب کے سامنے ہیں اور ڈالر کی قلت سے بحران کی کیفیت ہے۔ ایسے میں اگر افغانستان اور پاکستان باہمی تجارت کو بڑھاتے ہیں، بارٹر ٹریڈ کو فروغ دیتے ہیں اور باہمی تجارت ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں کرتے ہیں، ضابطے کی پیچیدگیوں کو آسان بناتے ہیں تو اس سے دونوں ممالک فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے حکومتی سطح پر کہیں یہ چیزیں زیر بحث آتی ہوں لیکن عمومی بیانیے میں یہ چیز کہیں جگہ نہیں بنا سکی اور بالعموم جب بھی پاک افغان تعلقات زیر بحث آتے ہیں ان کی نوعیت معاشی نہیں بلکہ تزویراتی ہوتی ہے۔ ان سطور کا مقصد معاملے کی تزویراتی اہمیت کی نفی نہیں، بلکہ معاشی امکانات کی تذکیر ہے۔
خریدو فروخت ایشیاء میں ہو رہی ہوتی ہے جہاں ڈالر کسی کی کرنسی نہیں مگر یہ ہو ڈالر میں رہی ہوتی ہے۔ کہیں کہیں تو ڈالر میں تجارت مجبوری ہوگی لیکن سوال یہ ہے کیا ہر جگہ مجبوری ہے کہ ڈالر میں ہی کاروبار ہو۔ کیا ہمارے خطے کے ممالک ایک دوسرے سے بارٹر ٹریڈ نہیں کر سکتے، کیا مقامی کرنسی کا کوئی فارمولا نہیں بن سکتا تاکہ کسی حد تک ہی سہی ڈالر کی محتاجی کم تو ہو۔ پاکستان افغان امپورٹس کا سب سے بڑا ٹرانزٹ روٹ بھی ہے۔ اس کا حجم قریب ساٹھ فیصد ہے۔ کیا ان دونوں برادر ممالک کو مل بیٹھ کر باہمی تجارت کے امکانات پر سنجیدگی سے بات نہیں کرنی چاہیے؟
ماضی میں، جب افغانستان میں نیٹو قیام پزیر تھی، پاک افغان تجارت کے حوالے سے ہونے والے مذاکراتی عمل سے افغان حکومت اس لیے پیچھے ہٹ گئی کہ جب تک اس میں بھارت کو شامل نہیں کیا جاتا پاکستان سے بات نہیں ہو سکتی۔ دو طرفہ معاملات اس رویے سے چلانا، ظاہر ہے کہ مشکل ہو جاتا ہے۔
اب افغانستان میں ایک نئی حکومت ہے۔ پاک افغان تعلقات کو اب آ گے بڑھنا چاہیے۔ ہم ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔ کوئلہ ہی کو لے لیجیے۔ کوئلہ پاکستان کی ضرورت ہے اورپاکستان ہر سال قریب ایک کروڑ نوے لاکھ ٹن کوئلہ خریدتا ہے۔ پاکستان افغانستان سے ہر روز قریب دس ہزار ٹن کوئلہ خریدتا ہے۔
پاکستان اپنے تھرمل کول کا 70 فیصد جنوبی افریقہ سے منگاتا ہے۔ فارن ریزوز بچانے کی خاطر ابھی حال ہی میں حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ افغانستان سے کوئلہ کی خرید اری مزید بڑھا دی جائے۔ یہ بھی طے ہو یا کہ باہم ادائیگی مقامی کرنسی میں کی جائے، اس بندوبست سے ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔ نہ خریدنے والے کو دور سے جا کر چیز لینا پڑے نا بیچنے والے کو بہت تردد کرنا پڑے کہ وہ اس عالم میں جب وہ بین الاقوامی بنکنگ سسٹم سے کٹا ہوا ہے اور دنیا میں سفارتی تعلقات بھی استوار نہیں ہو پائے، اپنے لیے بین الاقوامی مارکیٹ تلاش کرتا پھرے۔ باہمی تعلقات اچھے ہوں تو خرید و فروخت اپنے ہی علاقے میں پڑوسیوں میں ہو جائے تو یہ ہر لحاظ سے بہتر ہوتی ہے۔
اب معاملہ یہ ہے کہ معاشی مسائل کا سامنا افغانستان کو بھی ہے۔ جیسے ہی شہباز شریف نے اس پالیسی کا اعلان کیا کہ زیادہ تر کوئلہ افغانستان سے لیا جائے تا کہ فارن ریزرو بچائے جائیں، افغانستان نے کوئلہ مہنگا کر دیا۔ جون میں تو یہ صورت حال تھی کہ صرف ایک ہفتے میں کوئلہ کی قیمت میں فی ٹن 30 فی صد اضافہ کر دیا گیا۔ بیچنے والے یعنی افغانستان کے خیال میں یہ اب بھی عالمی مارکیٹ سے سستا ہے، اور خریدنے والے یعنی پاکستان کے خیال میں یہ اب بہت مہنگا ہو چکا ہے کیونکہ اس کا وہ معیار نہیں جو عالمی مارکیٹ میں دستیاب کوئلے کا ہے۔
اب پاکستان کے پاس متبادل کیا ہے؟ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو اب انڈونیشیا یا افریقہ سے رجوع کرنا ہوگا۔ انڈونیشیا سے ملنے والا کوئلہ پاکستان کو 35 ہزار روپے فی ٹن پڑے گا، مقامی کوئلہ37 ہزار روپے فی ٹن پڑ رہا ہے جب کہ افغانستان کا کوئلہ 40 ہزار ٹن سے تجاوز کر چکا ہے۔ اب اگر دونوں ممالک کے درمیان کوئی قابل عمل حل نہیں نکلتا تو کیا ہوگا؟ پاکستان یہی کوئلہ انڈونیشیا اور افریقہ وغیرہ سے ڈالروں میں لے گا اور افغانستان کو پاکستان کی بجائے اقوام عالم میں دیگر گاہک تلاش کرنا پڑیں گے۔ سوال یہ ہے کہ دونوں ملک مل بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی قابل عمل حل یہیں تلاش کر لیں تو کیا وہ زیادہ بہتر نہ ہو؟ نئے بندوبست میں پاکستان کا بھی نقصان ہوگا لیکن زیادہ نقصان افغانستان کا ہوگا۔ جو پڑوس میں گاہک سے محروم ہو جائے گا۔
یہ مسئلہ گفت و شنید سے حل ہو جائے تو باہمی تجارت کا دائرہ کار بہت بڑھ سکتا ہے کیونکہ امکانات کی ایک بڑی دنیا آباد ہے جسے کھوجنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی حلیف ہے۔ اور افغانستان پاکستان کی دوسری سب سے بڑے ایکسپورٹ مارکیٹ ہے۔ افغانستان میں جنگی حالات کی وجہ سے دونوں ممالک میں تجارت کو ابھی تک اس سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکا جس سے لیا جانا چاہیے تھا۔ اگر اس پہلو پر توجہ دی جاتی ہے اور کاروباری سرگرمیوں اور تجارت کے فروغ کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، دونوں اطراف کی بارڈر مینجمنٹ کا فوکس معاشی امکانات پر بھی ہو جاتا ہے توافغانستا ن اور پاکستان کا تجارتی رشتہ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ جنوبی ایشیاء اور سنٹرل ایشیاء کے مابین نئے تجارتی امکانات کا نقش اول بھی بن سکتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کا بہت سارے دیگر معاملات کو بھی دیکھنا ہوگا اور ان میں سے ایک پانی کا معاملہ ہے۔ بھارت اور پاکستان میں تو پانی کے معاملات پر معاہدے ہو چکے لیکن پاکستان اور افغانستان میں آج تک ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ماضی میں بھارت نے افغانستان کی جانب سے بھی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کی پالیسی کو فروغ دیا تھا۔ یہ ایک سنجیدہ اور سنگین معاملہ ہے اور پاکستان کو افغانستان کی حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر اس کا حل بھی نکالنا چاہے۔ دونوں ممالک کے بیچ پانی کا معاہدہ ہونا بہت ضروری ہے۔
افغانستان اور پاکستان پڑوسی ہیں اور عوام کا ایک دوسرے سے تعلق خاطر بھی ہے۔ دونوں میں بہتر ورکنگ ریلیشن شپ دونوں کے مفاد میں ہے۔ اس میں اگر کوئی دراڑ آتی ہے تو اس کا فائدہ کوئی تیسرا اٹھائے گا۔