Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Pakistan Ka Americi Conference Mein Shirkat Na Karne Ka Faisla Durust Hai?

Pakistan Ka Americi Conference Mein Shirkat Na Karne Ka Faisla Durust Hai?

امریکہ نے جمہوریت کانفرنس میں پاکستان کو مدعو کیا اور پاکستان نے اس میں شریک ہونے سے معذرت کر لی۔ معذرت کا انداز اتنا با معنی اور نپا تلا تھا کہ حیرت میں مبتلا کر گیا۔ فیصلے سے قطع نظر سفارتی سطح پر پیغام رسانی میں ایسی برفاب گرم جوشی، بذات خود ایک اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم اس کی حیثیت ثانوی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت نہ کر کے درست فیصلہ کیا ہے؟

بتایا جا رہا ہے کہ جنوبی ایشیاء سے چار ممالک کو بلایا گیا تھا، جن میں سے ایک پاکستان تھا۔ (یعنی یہ ایک اعزاز تھا)۔ لیکن جنوبی ایشیاء میں ملک ہی کتنے ہیں؟ افغانستان کو تو امریکہ بلانے سے رہا؟ سری لنکا نیپال اور بھارت کو مدعو کر لیا گیا۔ پیچھے رہ کون گیا؟ بھوٹان اوربنگلہ دیش۔ پاکستان کو بلانے کی طرح، بنگلہ دیش کو نہ بلانا البتہ معنویت رکھتا ہے۔ یہ تاہم ایک الگ موضوع ہے، جس پر الگ سے کسی دن بات کریں گے۔

امریکہ کی جانب سے شرکاء کا انتخاب بتا رہا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے، نام جمہوریت کا استعمال ہوا ہے۔ اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک کو مدعو کر لیا گیا لیکن ترکی کو نہیں بلایا گیا۔ جمہوریت کا آ خر یہ کون سا پیمانہ ہے جس اسرائیل اور بھارت تو حقوق انسانی اور جمہوری اقدار کے اپنے بد ترین ریکارڈ کے باوجود پورے اترتے ہیں لیکن ترکی جیسا ملک پورا نہیں اترتا، جہاں ابھی ماضی قریب ہی میں خلق خدا نے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر فوجی آمریت کو دھول چٹائی تھی اور جمہوریت کا پرچم سر بلند رکھا تھا۔

جن ممالک کو نہیں بلایا گیا، ان میں سے چند ایک کے نام ہمارے اس خطے کے حوالے سے بہت اہم ہیں۔ چین، روس، ترکی۔ یہ وہی ممالک ہیں جن کے بارے میں گاہے اس طرح کی خبریں سامنے آتی رہتی تھیں کہ علاقائی سطح پر ایک نیا بلاک بننے جا رہا ہے۔ تزویراتی اور سفارتی امور کے ماہرین متعدد بار کہہ چکے کہ اس علاقے سے امریکی بالادستی کا دور اپنا عروج دیکھ چکا۔ اب چین روس ترکی پاکستان وغیرہ مل کر اس علاقے میں مقامی سٹیک ہولڈرز، کا ایک نیا کلب بنانے جا رہے ہیں۔ اس کلب کی صورت گری پر بہت سارے سوالات اٹھتے رہے اور اب بھی موجود ہیں۔ لیکن امریکہ کے حالیہ اقدام نے اس کلب کی موجودگی کو اب مفروضہ نہیں رہنے دیا، حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ کچھ تو ہے کہ یہ ممالک امریکہ کی نگاہ انتخاب میں نہیں آئے؟ کیوں نہیں آئے؟ اس کا مطلب ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر مقامی صف بندی واقعی ہو رہی تھی اور ہو رہی ہے۔

امریکہ کی یہ کانفرنس بھی ایک جوابی صف بندی تھی۔ مقامی بلاک کے خلاف امریکہ اپنے دھڑا واضح کر رہا ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہیں۔ اس اجتماع کا ایک مقصد چین اور امریکہ کے مقابل ایک سیاسی بلاک کھڑا کرنا بھی معلوم ہو رہا ہے۔ پاکستان کو برائے وزن بیت بلا لیا گیا تا کہ معلوم تو ہو پروانہ کدھر جاتا ہے۔ پاکستان نے بتا دیا کہ مقامی صف بندی کی قیمت پر دور کے سہانے ڈھولوں کا تعاقب نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کے انکار میں ایک معنویت ہے، جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

صف بندی امریکہ نے کی ہے، چین یا پاکستان نے نہیں کی۔ دعوت سب کے لیے ہوتی اور چین اور روس جانے سے انکار کر دیتے تو معاملہ مختلف ہوتا۔ یہاں دعوت دینے والے ہی عمومی خیر کی بجائے تعصب اور دھڑے بندی واضح کر دی۔ ایسے میں پاکستان نے کسی نئے سیاسی بلاک سے خود کو الگ کر لیا ہے اس میں کیا مضائقہ ہے؟

امریکہ نے تائیوان کو بھی اس پروگرام میں دعوت دی ہے۔ تائیوان کا معاملہ چین کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ دوستوں کی حساسیت کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ میں جب بھی امریکہ کی جانب سے تائیوان کو نیا رکن بنانے کے لیے قرارداد پیش کی جاتی ہے تو وہاں سب سے توانا مخالف آواز پاکستان کے مستقل مندوب کی اٹھتی ہے کہ نہیں، تائیوان کو اقوام متحدہ کا رکن نہیں بنایا جا سکتا۔ تو پاکستان ایک ایسی کانفرنس میں کیسے شریک ہو سکتا تھا جس میں چین کو تو مدعو نہ کیا گیا ہو اور تائیوان بھائی جان کو بلا لیا گیا ہو۔

اب آئیے اس سوال کی جانب کہ اس انکار کی قیمت کیا ہو سکتی ہے؟ امریکہ کی دعوت کو ٹھکرانا ہمارے لیے کن پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے اور موجودہ معاشی صورت حال میں کیا ہم اس کے متحمل ہو سکتے ہیں؟

اس طرح کی کانفرنسیں ہوتی رہتی ہیں۔ کبھی بلانے والا نہیں بلاتا اور کبھی بلائے جانے والا معذرت کر لیتا ہے۔ یہ کھیل تو دنیا میں جاری ہے اور جاری رہے گا۔ ابھی کچھ ہی وقت گزرا ہے ماحولیات پر اسی امریکہ نے کانفرنس بلائی تھی اور پاکستان کو نہیں بلایا تھا۔ اب اس نے جمہوریت پر کانفرنس بلائی تو ہمیں بلا لیا لیکن ہم نے معذرت کر لی۔ نہ ماحولیات کی کانفرنس آخری پڑائو تھا نہ یہ کانفرنس آخری پڑائو ہے۔ ایسے مقامات آتے جاتے رہیں گے۔ خوف سے مکمل غیر فقاریہ بن جانا کوئی پالیسی نہیں ہوتی۔

کیوبا کے خلاف امریکہ ہر سال حقوق انسانی کے نام پر قرارداد لاتا ہے۔ مشرف دور میں ایک وقت وہ بھی آیا کہ صدر بش نے غالبا 2002 میں پرویز مشرف کو باقاعدہ فون کر کے درخواست کی کہ اس دفعہ قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالا جائے لیکن کیا ہوا؟ پاکستان نے نہ صرف قرارداد کے خلاف ووٹ ڈالا بلکہ ہمارے مستقل مندوب شوکت عمر نے وہاں ایک قرارداد کے خلاف ایک دھواں دھار قسم کا خطاب بھی کر ڈالا۔ کپکپانے والے اس وقت بھی کپکپائے تھے کہ جانے اب کیا ہو۔ اب بھی کھڑے یہ کپکپا رہے ہیں کہ ہائے امریکہ کو انکار کیا، اب وہ تم سے پوچھا گا۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ کپکپی گروپ کی نازک اندامیوں سے فارن پالیسی نہیں طے کی جا سکتی۔ جو فیصلے لینے ہوتے ہیں وہ بہر حال لیے جاتے ہیں۔

امریکہ تو وہ " پھپھو جان" ہیں جنہوں نے کبھی پاکستان سے راضی ہونا ہی نہیں۔ امریکہ کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا لیکن جیسے ہی اس کا مفاد بدلتا ہے اس کی آنکھیں بھی بدل جاتی ہیں۔ اتنا کچھ کر کے بھی اگر وہ پاکستان سے خفا ہے تو دو روز کی اس غیر اہم کانفرنس میں شرکت سے اس نے کون سا پاکستان کو گلے لگا لینا تھا۔ لیکن دو دن کی اس بے مقصد کانفرنس میں شرکت سے یہ خطرہ ضرور تھا کہ چین پاکستان سے ناراض ہو جاتا۔ تو کیا اس مرحلے پر پاکستان یہ خطرہ مول لے سکتا ہے؟

اس مرحلے پر تو کیا، کیا کسی بھی مرحلے پر ہم چین کو یوں ناراض کر سکتے ہیں؟ یاد رہے کہ وہ ہمارے لیے اقوام متحدہ میں ویٹو تک کر دیتا ہے۔ ہم تائیوان کے معاملے میں اس کی حساسیت کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جب کہ کشمیر کے معاملے پر اس نے ہمیشہ ہماری حساسیت کا خیال رکھا ہے۔ ہم چین کو اور خطے میں موجود امکانات کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ میری رائے میں پاکستان کا فیصلہ درست ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran