اس میں کیا شک ہے کہ حالات بہت تکلیف دہ ہیں لیکن ایسی بھی کیا بے ادائی کہ بے ہمتی کی روبکار اپنے وطن کے نام روانہ کر دی جائے؟
چند روز سے سوشل میڈیا پر پاکستان کے بارے میں جو مایوسی پھیلائی جا رہی ہے، دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ اس جذباتی معاشرے کی نا تراشیدہ افتاد طبع اسے کس کنویں میں جا کر پھینکے گی؟ کرکٹ کا ایک میچ جیت جائیں تو یہ بھنے چنے کی طرح ایسے اچھلتے ہیں کہ لگتا ہے سہہ پہر تک دو چار بر اعظم فتح کر کے ہی لوٹیں گے اور بحران کا ایک تھپیڑا پڑ جائے تو ملک کے مستقبل سے مایوس ہو کر دہائی دینے لگتے ہیں کہ یہاں کچھ نہیں بچنا، یہاں سے نکال لو۔
ہر کام میں انتہا پسندی، ہر معاملے میں لا ابالی پن۔ حب الوطنی کا ٹھیکیدار بن کر جب یہ وطن دوستی کے جملہ حقوق اپنے نام کر لیتے ہیں تو انہیں اپنے سوا ہر دوسرا آدمی غدار نظر آتا ہے اور جب یہ مایوس ہو جاتے ہیں تو ملک کے مستقبل سے ہی لاتعلق ہو جاتے ہیں۔
بیچ کا کوئی مقام انہیں راس ہی نہیں آتا۔ یا کوئے یار میں بغلیں بجاتے ہیں یا سوئے دار منہ نوچتے چلے جاتے ہیں۔ کیا معلوم یہ اس خطے کے موسموں کے اثرات ہیں یا پھر اس معاشرے کو بالادست قوتوں نے حکمت عملی کے تحت عشروں تک فکری اور شعوری طور پر جس طرح پسماندہ رکھا ہے یہ اس کے منطقی نتائج ہیں۔ وجہ جو بھی رہی ہو، یہ معاشرہ عدم توازن کے آسیب کا شکار ہو چکا ہے۔
فیصلہ سازوں کا نامہ اعمال ہمارے سامنے رکھا ہے۔ نیم خواندہ معاشرے میں مذہبی، سیاسی، سماجی اور فکری فالٹ لائنز دانستہ طور پر رکھی گئیں تا کہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آئیں۔ ہر فالٹ لائن کو استحصال کا استعارہ بنایا گیا۔ غوروفکر کی بجائے اشتعال ہیجان اور سطحیت کی سرپرستی کی گئی۔ اس کے منطقی نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔
کوشش کر کے دیکھ لیجیے، یہاں کسی کے ساتھ سنجیدہ گفتگوممکن ہی نہیں رہی۔ لوگ دو فقروں کے بعد ہانپ جاتے ہیں۔ تجزیے کا بھاری پتھر کوئی اٹھا نہیں پاتا، اس لیے دو منٹ میں ہی ہانپ کر چھلانگ لگاتا ہے کہ سیدھا نتائج فکر تک جا پہنچے۔ یہ وہ رویہ ہے جسے حکمت عملی کے تحت رواج دیا گیا۔ کوئی غدار قرار پایا کوئی ملک دشمن، کسی کی اسلام دوستی مشکوک ٹھہری کسی کے گلے میں کوئی اور طوق ڈال دیا گیا۔ اس طوفان بد تمیزی کی فصل اب پک کر تیار ہے اور گلی گلی فکر کی دنیا کے ان گائیڈڈ میزائل اہم قومی امور پر چاند ماری کرتے پھر رہے ہیں۔
مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، گفتگو شروع ہوتی ہے اور تیسرے ہی مسئلے پر میزائل ہانپ کر پھٹ جاتے ہیں۔ گفتگو شروع ہوتے ہی اس نکتے پر ختم ہو جاتی ہے کہ پاکستان کا مستقبل اچھا نہیں ہے، یہاں سے نکل جائیے، یہ کر لیجیے وہ کر لیجیے۔ ایسی ایسی سینہ کوبی ہو رہی ہے کہ الامان۔ اب بھی اگر فیصلہ سازوں کو احساس نہ ہو کہ جذبات کا مارا بے سمت معاشرہ امتحان کی گھڑی میں پورس کا ہاتھی ثابت ہوتاہے تو یہ ان کی" میانہ روی "کے سوا اور کیا قرار دی جا سکتی ہے؟
یہ بات ہمیں سمجھ لینی چاہیے کہ جذبات اور ہیجان اور تعصبات کی فالٹ لائن سے نیم خواندہ معاشرے کو ہانکنے کی پالیسی ہر موسم میں نہیں چل سکتی۔ آخری تجزیے میں یہ ایک آدم خور کی طرح پلٹتی ہے اور معاشرے کو ادھیڑ دیتی ہے۔
جو ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں، یہ ان کا حق ہے۔ لوگ پہلے بھی جاتے رہے اور آئندہ بھی جاتے رہیں گے۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ دنیا بھر سے لوگ نقل مکانی کرتے ہیں۔ مسئلہ البتہ وہ طوفان ہے جس کے ہمراہ یہ مایوسی ہے کہ پاکستان کا مستقبل مخدوش ہے اس لیے جلدی سے ملک چھوڑ دیجیے۔ یہ ایک بیمار رویہ ہے۔
ملکی حالات بلا شبہ پریشان کرتے ہیں۔ بچوں کے مستقبل کا سوچتے ہیں تو پریشانی بڑھ جاتی ہے۔ با لادست طبقات کا نامہ اعمال بھی اذیت کی حد تک پریشان کن ہے۔ دو سال پہلے مجھے بھی اس احساس نے آلیا کہ زمانہ طالب علمی میں برطانوی یونیورسٹی کا سکالرشپ نہ لے کر غلطی کی تھی، دوست سے مشاورت بھی کی کہ اس کا ازالہ کیا جائے لیکن پھر حتمی جمع تفریق کی اور پاکستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ چلا بھی جاتا تو برائی نہیں تھی، رک بھی گیا تو کوئی کمال نہیں کیا۔ سوال ملک میں رہنے یا نہ رہنے کا ہے ہی نہیں۔ سوال اس مہم کا ہے جو مایوسی میں لپیٹ کر تازیانے کی صورت اپنی ہی دھرتی کی پشت پربرسایا جا رہا ہے۔
قوموں کی زندگی میں مشکل، انتہائی مشکل اور حتی کہ اذیت کی حد تک مشکل دور بھی آتے رہتے ہیں۔ کیا ایسے میں ملک کی ناکامی کی یاوہ گوئی کرتے ہوئے ملک چھوڑ دینے کی بات کی جاتی ہے؟ یا ملک میں رہ کر اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے؟
دھرتی کیا ہوتی ہے ان سے پوچھیے جن کے پاس دھرتی نہیں رہتی۔ پاکستان سے ایسی بھی کیا مایوسی؟ ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بد ترین دور ہے مگر یہ بہترین دور ہے۔ پاکستان میں شعور بڑھ رہا ہے۔ لوگ اب مقدس بارگاہوں کے آگے سجدہ ریز نہیں ہو رہے، سوال اٹھا رہے ہیں۔ ہر بارگاہ سوالات کی زد میں ہے۔ حد ادب جن کا نام نہیں لینے دیتا تھا ہر نیا سورج ان کی دہلیز پر سوال رکھ آتا ہے۔
مایوسی بہت ہے مگر امید بھی کم نہیں۔ خاندانی سیاست ہچکیاں لے رہی ہے، فکری استحصال کسی بھی شکل میں ہو، یہ بندوبست اب کمزور ہوتا جا رہا ہے، نظام قانون سے مایوسی بڑھ چکی اور سوالات اٹھ رہے ہیں کہ عدلیہ کی کارکردگی کیا ہے، پارلیمان سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں، اس کی افادیت پر بات ہو رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی سوالات کی زد میں ہے۔ بیوروکریسی کی مراعات ا ور طرز عمل پر نوجوان اب بات کر رہے ہیں۔
پہلی بار حقیقی مسائل عوامی سطح پر زیر بحث ہیں۔ لمبی لمبی لا یعنی نظریاتی بحثیں پیچھے رہ گئی ہیں اور اصل مسائل پر بات شروع ہوچکی ہے۔ ایک عرصے سے میرے جیسا طالب علم سوچتا تھا کہ ہمارا معاشرہ اپنے حقیقی مسائل پر بات کیوں نہیں کرتا۔ یہ اپنی صحت تعلیم روزگار انصاف جیسے معاملات پر بات کیوں نہیں کرتا۔ پہلی بار دیکھ رہاہوں کہ محدود حد تک سہی لیکن یہ کام شروع ہو چکا ہے۔
سوالات کی یہ مشق نئی ہے۔ اسی لیے اس میں ہیجان بھی ہے، نفرت بھی ہے، مبالغہ بھی ہے، جھوٹ بھی ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ وقت گزرے گا تو ہیجان تھم جائے گا اور سوالات میں معقولیت آتی چلی جائے گی۔
جو معاشرہ سوال اٹھانا شروع کر دے اور حقیقی مسائل پر بات کرنا سیکھ لے اس کا مستقبل تاریک نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کا مستقبل بھی، انشا اللہ، تاریک نہیں ہے۔ یہ ناکامی نہیں ہے، یہ آگہی ہے۔ اس سے ڈرنا نہی چاہیے اسے اپنی طاقت بنانا چاہیے۔