نیویارک میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ کی جو رپورٹ زیر بحث آئی ہے، اس کے مندرجات قابل غور اور قابل تشویش ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کو سیاست سے فرصت ملے تو یہ رپورٹ ان کی توجہ کی طلب ہے۔
اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے عہدیداران نے سکیورٹی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ داعش اور اس سے وابستہ ٹی ٹی پی جیسی تنظیمیں، نیٹو ہتھیاروں سے لیس ہیں اور خطے کے ممالک کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ یہ تو معلوم نہی کہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے اپنے یا امریکہ کے اگلے لائحہ عمل کا بین السطور اعلان فرمایا ہے یا ایک خدشے کا لیکن یہ سوال بہت اہم ہے کہ ان تنظیموں کے پاس نیٹو کا اسلحہ کہاں سے آیا۔ یہ صرف نیٹو سے چھینا گیا اسلحہ ہے یا یہ اسلحہ امریکہ نے اسی مقصد کے لیے یہاں کچھ گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی تو ظاہر ہے کہ مجال نہیں وہ ان امور پر روشنی ڈالے تاہم یہ ایک حل طلب سوال ضرور ہے کہ باقاعدہ شکست کھائے بغیر جب امریکی اور نیٹو افواج دوحہ معاہدے کے تحت علاقے سے نکلیں تو ان کا اسلحہ ان تنظیموں کے ہاتھ کیسے لگ گیا۔ اسلحہ ہاتھ لگ گیا یا تھمایا گیا؟
اب خاکے میں آگے کے رنگ ہمیں خود بھرنے ہیں، تصویر واضح ہو جائے گی۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب نے اسی منظر نامے کوو اضح کرتے ہوئے اگلے روز لکھا ہے (اور یہ تحریر اتنی شاندار ہے کہ میں اسے نقل کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
11 ستمبر 2001 کے بعد امریکہ میں تو کوئی ایسا حملہ نہ ہوا جسے باقاعدہ دہشت گردی کہا جا سکے لیکن مسلمان ممالک میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ اور یہ سلسلہ آج 15 برس گزر جانے کے باوجود تھما نہیں۔
اتفاق دیکھیے۔۔ نومبر 2008 میں بھارت کے شہر ممبئی میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوتا ہے جسے بھارت کی جانب سے اس کا 9/11 قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس واقعہ کے ذمہ دار کے طور پاکستان کا نام لیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں اس کے بعد امن ہو جاتا ہے، کیونکہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین پراکسی وار کا پلڑا اب بھارت کے حق میں ہو چکا ہے۔۔ دنیا اس کو مظلومیت کا سرٹیفیکیٹ جاری کر چکی ہے اور اب بھارت میں پٹاخہ بھی پھوٹے تو الزام فوراً پاکستان پر لگاتا ہے اور باقی دنیا تو جیسے ایسے ہر الزام کو ماننے کو تیار بیٹھی ہے اور پاکستان اپنی صفائیاں پیش کرتا رہتا ہے۔ دوسری جانب۔۔ بھارت پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں وہ پاکستان کو جیسے چاہے زچ کرے اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان کی شکایتیں، ڈوزئیر، سب بے کار، کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
بھارت کو یہ احساس ہے کہ اٹیمی برابری کی وجہ سے وہ پاکستان کو براہ راست فوجی جارحیت کا ڈراوا نہیں دے سکتا۔ اس نے کولڈ اسٹارٹ کی بات کی جس کا محور یہ تھا کہ روایتی فوجی مہم جوئی سے اس سرعت سے اپنے مقاصد حاصل کرلئے جائیں کہ پاکستان کو جوہری قوت کے ڈراوے یا استعمال کا موقع ہی نہ مل سکے۔ لیکن اس ڈاکٹرائن کو نیوٹرلائز کر لیا گیا۔ اب وہ ایک دوسرا حربہ اپنانے جا رہا ہے جس کی دو اسٹریٹیجک اور ایک فوری وجہ ہے۔ اول الذکر میں پاک چین اقتصادی راہداری ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور چین کا باہمی تعلق زیادہ قریبی اور باقاعدہ ہو جائے گا اور جس کی کامیاب تکمیل کے نتیجہ میں پاکستان کے ساتھ کسی گڑبڑ کا مطلب چین کے ساتھ گڑبڑ ہوگا۔ اس مہم میں بھارت کا پاکستان کے چند "دوستوں" کی پشت پناہی حاصل ہونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے چند پاکستان کو دست نگر رکھنا چاہتے ہیں، کچھ چین کو محدود رکھنا چاہتے ہیں بعض کی نظر التفات دونوں پر ہی ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ضرب عضب کے نتیجہ میں پاکستان استحکام اور امن کی طرف لوٹ رہا ہے جو کہ معاشی طاقت کا راستہ ہے۔ یہ بھی خطہ میں طاقت کے توازن کو ایک خاص نہج پر رکھنے والوں کے لیے باعث عدم اطمینان ہے۔ تیسرا، اور فوری مسئلہ ہندوستان کے لئے جموں کشمیر کے تیزی سے بگڑتے حالات ہیں جن کا الزام وہ پاکستان پر لگانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے دنیا کا میڈیا، گو ہلکے پھلکے سے انداز میں ہی سہی، چند سوال پوچھنے لگا ہے اورکشمیر میں جاری انسانی المیہ کو اپنے صفحا ت پر جگہ دے رہا ہے۔ یہ بات بھارت کے لئے سخت پریشانی کی ہے۔
اس صورتحال سے نکلنے اور پاکستان کو اپنے گھر کے اندر مقید کر دینے کے لیے بھارت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پاکستان کو اس کی Soft Belly پر ہٹ کرے گا۔ اس کے لیے اس نے پاکستان سے باہر اور پاکستان کے اندر اپنے اثاثوں کو پاکستان کے خلاف متحرک کر دیا ہے۔ وہ بنگلہ دیش ہو، حامد کرزئی یا دیگر افغان حکام ہوں، پاکستان سے متعلق دہشت گروپ ہوں، براہمدغ یا حیربیار ہوں یا پھر ایسے ہی اور دوسرے لوگ۔ یہاں تک کہ طارق فتح جیسا بدنام زمانہ شخص بھی ان کی میڈیا کی زینت بنا ہؤا ہے ان دنوں۔ دشمن اپنے مقصد کے لئے الطاف بھائی کی حالیہ تقاریر کا فائدہ بھی اٹھا سکتا ہے۔ اس نئے پینترے کا بنیادی میدان تخریب کاری کے ساتھ ساتھ میڈیا کا میدان ہی ہوگا جہاں پاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالہ سے کٹہرے میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ بھارت کی وار آن ٹیرر ہے پاکستان کے خلاف اور اس کے وہی اہداف ہیں جو اوپر امریکہ کی وار آن ٹیرر کے ضمن میں بیان ہوئے۔
دشمن کا یہ استحقاق ہے کہ جو کر سکتا ہے اپنے اہداف کے لیے کرے۔ ورنہ وہ فرائض دشمنی ادا نہیں کر رہا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا ہے؟ پاکستان کو بس وہی نہیں کرنا جو اس کا دشمن اس سے کروانا چاہتا ہے۔
ماضی میں پاکستان کے داخلی معاملات میں بہت سے پالیسی خلا موجود رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ملک کے بعض حصوں یا جغرافیائی و نسلی اکائیوں کو یہ تاثر ملا کہ شاید ان کا مفاد کسی کی ترجیح نہیں۔ ایسی ہی جگہوں پر احساس محرومی کو پر تشدد کارروائیوں کا رنگ دے دیے جانے کا امکان زیادہ رہتا ہے۔ دشمن کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ آپ صرف انتظامی یا سیکورٹی مشینری کے سہارے اس کا تدارک کریں کیونکہ اس میں انسانی جانوں کے ضیاع کا احتمال رہتا ہے۔ اس سے دراڑیں بھرتی نہیں وہ بڑھ جاتی ہیں"۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ اور ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کا تجزیہ ملا کر پڑھیں تو صورت حال نہ صرف واضح ہو جاتی ہے بلکہ اس سے نبٹنے کا لائحہ عمل بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔ ہمیں دشمن کی کارروائی کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اپنی منصوبہ بندی کرنی ہے اور پہلے مرحلے میں اپنے معاشرے میں موجود فالٹ لائنز کو بھرنا ہے۔ یہی وہ فالٹ لائنز ہوتی ہیں جہاں دشمن وار کرتا ہے۔
پاکستان ایک ان دیکھی جنگ کا میدان بن چکا ہے۔ اس کے بہت سے روپ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اس پیچیدہ صورت حال کی سنگینی کا احساس ہے؟