پاکستان کا قومی اور اجتماعی بیانیہ کسی بھی شکل میں ظہور کرے، ایک گروہ اس پر نقد کرنے چلا آتا ہے۔ تازہ ترین نکتہ آفرینی یہ ہے کہ کشمیر کے لیے پاکستان نے آج تک آخر کیا ہی کیا ہے؟ آئیے آج اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
۱۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان نے پہلی جنگ کشمیر کے لیے لڑی۔ جوناگڑھ اور مناوادر بھی پاکستان کا حصہ تھے جن پر بھارت نے قبضہ کر لیا تھا لیکن پاکستان کی عسکری قوت اس وقت اس قابل نہ تھی کہ بھارت کے خلاف جوابی کارروائی کرتی۔ اس وقت کی پاکستان کی فوجی قوت کا احوال اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل گریسی کے اس خط میں موجود ہے جس کا ذکر کل کے کالم میں کیا گیا ہے۔ لیکن کشمیر کا معاملہ آیا تو اسی بے سروسامانی کے باوجود پاکستان نے جنگ کی ورنہ بھارت پورے کشمیر کو جونا گڑھ، حیدر آباد اور مناوادر کی طرح ہڑپ کر چکا ہوتا۔
2۔ مسئلہ کشمیر ایک مسئلے کے طور پر اقوام متحدہ میں پہنچا تو اس کی وجہ بھی پاکستان تھا۔ مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جانا والا بھلے بھارت ہو لیکن اس کے پیچھے پاکستان کی عسکری کارروائی تھی۔ یہ نہ ہوتی تو بھارت اقوام متحدہ کے تکلف میں نہ پڑتا۔ جونا گڑھ مناوادر اور حیدر آباد کی طرح اسے بھی ہضم کر جاتا۔
3۔ مسئلہ کشمیر آج تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے تو اس کی وجہ بھی پاکستان ہے۔ سلامتی کونسل نے30 جولائی 1996 کو ایک غیر رسمی میٹنگ میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے خارج کر دیا تھا۔ اور صرف اتنی سی گنجائش دی تھی کہ اگر کسی ملک کو اعتراض ہوا تو مسئلہ کشمیر کو ایک سال کے لیے عبوری طور پر ایجنڈے پر رکھ لیا جائے گا لیکن اس ایک سال میں اگر سلامتی کونسل نے اس مسئلے پر غور نہ کیا تو ایک سال کے بعد اسے خود بخود سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج تصور کیا جائے گا۔
یہ پاکستان ہی تھا جس نے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ااور کامیاب لابنگ کے ذریعے اس فیصلے کو کالعدم قرار دلوایا۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان نے اس اصول کو بھی طے کروا دیا کہ پاکستان کی رضامندی کے بغیر مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے خارج نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آج آرٹیکل 370 کے خاتمے اور وادی کو بھارت میں شامل کر لینے کے بھارتی فیصلے کے باوجود قانونی پوزیشن یہی ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے اور مسئلہ کشمیر ابھی تک اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے اور اسے یک طرفہ طور پر وہاں سے اب خارج بھی نہیں کیا جا سکتا تو یہ پاکستان ہی کی سفارتی کامیابی ہے۔
4۔ آپریشن جبرالٹر کا آپ نے نام سنا ہو گا۔ یہی آپریشن بعض حلقوں کی جانب سے 1965 کی جنگ کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ موقف کس حد تک درست ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ آپریشن جبرالٹر جیسا بڑا اقدام پاکستان نے آزادی کشمیر کی خاطر اٹھایا تھا۔ یہ آپریشن نیپال یا بھوٹان کے لیے نہیں تھا۔ یہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے تھا۔
5۔ کارگل کی جنگ کس لیے تھی؟ آپ حکمت عملی کے باب میں اس کے بارے مین جو رائے مرضی رکھیں لیکن اس میں تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ کارگل کی لڑائی مسئلہ کشمیر ہی کے تناظر میں لڑی گئی۔
6۔ لائن آف کنٹرول پر آئے روز فائرنگ بھی ہوتی ہے اور شہادتیں بھی ہوتی ہیں۔ اس سارے تنازعے کا محور بھی کشمیر ہی ہے۔
7۔ پاکستان کی سفارت کاری میں کشمیر کو ایک بنیادی اور مرکزی اہمیت رہی ہے۔ او آئی سی پاکستان نے کشمیر پر حمایت کے سوا کیا مانگا؟ او آئی سی مسلم دنیا کا سب سے بڑا فورم ہے۔ 1969ء میں ربا ط کانفرنس میں جب بھارت کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا تو پاکستان نے او آئی سی کا ہی بائیکاٹ کر دیا۔ او آئی سی کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اب بھی او آئی سی سے پاکستان کا کوئی گلہ ہے تو وہ کشمیر ہی کے حوالے سے ہے۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے او آئی سی سے کشمیر پر رابطہ گروپ بنوایا۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں اگر کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی کے حوالے سے رپورٹ پیش ہوتی ہے اور اس میں بھارت کے خلاف روانڈا کمیشن کے طرزپر کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو کیا یہ پاکستان کی سفارت کاری کے بغیر ہی ہو جاتا ہے؟ بہتر کی گنجائش اب بھی موجود ہے اور کمی کوتاہی بھی بہت سی ہے لیکن یہ کہنا کہ پاکستان نے کشمیر کے لیے کیا ہی کیا ہے، نرم سے نرم الفاظ میں خبث باطن ہے۔ اور اس خبث باطن کا ظہور ہم ہر موقع پر دیکھتے ہیں۔ یہ ایک پورا بیانیہ ہے جس کا رہنما اصول یہ ہے کہ دنیا کی ہر خرابی پاکستان میں ہے اور دنیا کے ہر مسئلے کا ذمہ دار پاکستان ہے۔
چھ ستمبر ہو تو یہ اس میں سے شکست برآمد فرما لے گا۔ چودہ اگست کا موقع ہو تو یہ قیام پاکستان پر اعتراضات شروع کر دے گا۔ یوم کشمیر آئے گا تو یہ سارا زور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے پر لگا دے گا۔ خطے میں بھارت سے کوئی مسئلہ ہو یا افغانستان سے، اس گروہ کے ہاں اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ پاکستان فاٹا میں کارروائی نہ کرے تو یہ کہتے ہیں پاکستان طالبان سے ملا ہوا ہے اور پاکستان کارروائی کر دے تو یہ حقوق انسانی کے عنوان سے ریاست کے خلاف مہم شروع کر دیتے ہیں۔ ایک طر ف یہ کہیں گے پاکستان کشمیر کا مسئلہ حل ہی نہیں ہونے دیتا اور دوسری جانب یہ طعنے دیتے ہیں کہ اب پاکستان لڑ کیوں نہیں رہا، یہ تو کشمیر کا سودا کر چکا ہے۔ یہ امن کی آشا ااور جنگ کے رجز ایک ہی سر میں پڑھنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں بنیادی اصول ایک ہی ہے : پاکستان جو کرتا ہے غلط کرتا ہے اور اس کے پڑوسی جو کرتے ہیں ٹھیک کرتے ہیں۔