کبھی ساہیوال کے ہسپتال میں اے سی بند ہو جاتا ہے اور دم گھٹنے سے درجنوں بچے مر جاتے ہیں تو کبھی پشاور میں آکسیجن ختم ہونے سے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ دو سال کا بچہ ماسک اتارنے کی کوشش کرتا رہا کہ معصو م کا دم گھٹ رہا تھا اور ماں ماسک لگاتی رہی کہ ممتا بے قرار تھی بچے کو آکسیجن ملتی رہے۔ اس کشمکش میں ایک ننھا وجود مرجھا گیا جب ابھی ماں کے دودھ کی خوشبو بھی اس کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہوئی تھی۔ تبدیلی نے وہ حال کیا ہے شکیل بدایونی یاد آتے ہیں: اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ساہیوال میں اے سی بند ہو گئے اور چلڈرن وارڈ میں بچے دم گھٹنے سے مر گئے۔ شور اٹھا تو ارشاد ہوا تحقیقات ہوں گی۔ آج تک کسی کو معلوم نہیں کیا تحقیقات ہوئیں۔ سوال اٹھانے والوں کے گریبانوں کی یہاں دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں اور انٹرویو کے نام پر اہل اقتدار اہل دربار کو طلب کر کے قصیدے سنتے ہیں۔ ہمیں تو بتایا گیا تھا یہ کوئی اقربا پروری نہیں ہے کہ عمران خان کے کزن ڈاکٹر نوشیروان برکی صاحب کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے بورڈ آف گورنر ز کا چیئر مین لگایا گیا ہے۔ بلکہ صوبے میں کوئی جوہر قابل تھا ہی نہیں اس لیے رجل رشید کی خدمات لینا پڑیں۔ اب عالم یہ ہے کہ گیس بند ہو جانے سے لوگ لاشے اٹھا رہے ہیں اور وہیل چیئر بھی مفت میں دستیاب نہیں، بیس روپے دینے پڑتے ہیں۔ اور ہاں یاد رہے کہ مریض اگر وہیل چیئر پر زیادہ دیر تشریف فرما رہا تو کرایہ بڑھ جائے گا۔ منو بھائی نے کہا تھا:
وال ودھا لئے رانجھے نیں تے ٹِنڈ کرا لئی ہِیراں نیں
مِرزے خاں نال دھوکہ کِیتا اوہدے اپنیاں تِیراں نیں
نقلی دَنداں والے بُڈّھے پُچّھن بھاء اَخروٹاں دے
لیندے پِھرن مُبارکباداں خالی ڈَبّے ووٹاں دے
اینی ہوئی منصوبہ بندی نوبت آ گئی فاقے
دیدھوکہ چلدا یا فیر چلدی مرضی بابے ساقے دی
پر اَجّے قیامت نئیں آئی
تو جناب وطن عزیز میں بھی ابھی قیامت نئیں آئی، ابھی صرف تبدیلی آئی ہے۔ مرنے والے کون سے" اشرافیہ" کے چشم و چراغ تھے کہ طوفان اٹھتا۔ بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے، ایسی اموات تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ کون سی قیامت آ گئی ہے۔ رعایا کو معلوم ہونا چاہیے کہ ولی عہد تو دور دیس کے باسی ہیں جہاں ہسپتالوں میں آکسیجن ختم نہیں ہوتی۔ اس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اہل اقتدار یا ان کی اولادیں اس ہسپتال میں داخل ہوتیں تو پھر وہ دیکھتی ہسپتال کی آکسیجن کیسے ختم ہوتی ہے یا چلڈرن وارڈ کے ای سی کیسے خراب ہوتے ہیں۔
گاہے محسوس ہوتا ہے حکومت نہیں ہو رہی صرف مناظرہ ہو رہا ہے۔ کہیں کوئی دردمندی اور حکمت نظر نہیں آتی، بس لہجوں کا آتش فشاں ہے، اشرافیہ اس آتش فشاں پر بیٹھ کر بغلیں بجا رہی ہے اور خلق خدا جھلس چکی ہے۔ ابھی کل شاہ محمود قریشی صاحب نے طعنے کی شکل میں حزب اختلاف کو جلد استعفے دینے کا مشورہ دیا توماضی کی طرف ایک دریچہ سا کھل گیا۔
یاد آ یا کہ تحریک انصاف نے جب ڈی چوک میں میدان سجایا تھا تو سپیکر قومی اسمبلی کو جا کر استعفے بھی پیش کر دیے تھے۔ جب بات بن نہ پائی تو پھر ایک جہان نے دیکھا کہ شان بے نیازی سے استعفے دینے والے تھوڑی تھوڑی ندامت سے اسی ایوان میں واپس تشریف لے گئے۔ یہ بھی یاد آ گیا کہ واپسی کا یہ شاندار سفر انہی شاہ محمود قریشی صاحب کی قیادت میں طے فرمایا گیا تھا۔ یہی وہ موقع تھا جب خواجہ آصف جیسے آدمی سے یہ طعنہ سننا پڑا کہ: کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ یہ طعنہ سن کر تحریک انصاف کے وابستگان کے دل دکھی ہو گئے لیکن قریشی صاحب اور ان کا پارلیمانی قافلہ انقلاب ذرا سا بھی بد مزہ نہ ہوا۔ ایوان میں پوری استقامت کے ساتھ عزت افزائی کرواتا رہا۔ آدمی رجز ضرور پڑھے لیکن ایسی بھی کیا بے نیازی کہ آدمی ماضی کو یکسر ہی بھلا دے۔
قریشی صاحب اگر قرض لوٹانا چاہتے ہیں تو ایک آدھ دن رک جاتے۔ اتنا تو انہیں معلوم ہی ہونا چاہیے کہ ہر بات کا ایک محل ہوتا ہے۔ آج اگر پی ڈی ایم استعفوں کا فیصلہ کرتی ہے اور پھر واپس لے لیتی ہے تو اس پر پوری غزل کہنی چاہیے۔ لیکن ملک الشعراء کو معلوم ہونا چاہیے کہ مشاعرہ شروع ہونے سے پہلے مقطع کہہ دینا دنیائے سخن میں ایک نا معتبر رویہ سمجھا جاتا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اس رویے اور اس شعلہ بیانی سے خلق خدا اب بے زار ہو چکی۔ یہ سب آستین چڑھائے زبان بکف آتے ہیں تو پارٹی کے ٹین ایجرز تو اس سے لطف اٹھاتے ہین لیکن سنجیدہ طبع خیر خواہ اس رویے سے خوش نہیں ہیں۔ حکومت میں آنے کے بعد کسی بھی گروہ کی کامیابی کا پیمانہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ مخالفیں پر کتنی شدت سے تبرا کرتا ہے۔ اقتدار کی کامیابی اس کی کارکردگی سے جڑی ہوتی ہے۔ اقتدار شعلہ بیانی اور پرخچے اڑانے کا نام نہیں اقتدار خیر خواہی اور کچھ کر دکھانے کا نام ہے۔ اپوزیشن کو ٹھکرا کر ہی عوام نے آپ کو ووٹ دیے تھے۔ آپ نے کچھ کارکردگی دکھائی ہوتی تو اپوزیشن فعل ماضی مطلق مجہول بن چکی ہوتی۔
اپوزیشن کے تضادات اور اس کا نامہ اعمال لوگوں کے سامنے ہے۔ اسے سے بے زاری نے تحریک انصاف کے لیے امکانات کے دروازے کھولے۔ اب تحریک انصاف کی کامیابی کا پیمانہ یہ نہیں اس کی ہجو گوئی کا معیار کتنا بلند ہے اور اس کے جنگجو دوسروں کے گریبان کی دھجیوں کو کیسے پھونک مار کر اڑاتے ہیں۔ اقتدار تحمل، تدبر اور حکمت کا طالب ہوتا ہے۔ اور یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں قافلہ انقلاب پٹوار خانے کے رجسٹر سمجھتا ہے اور ان سے بے زار ہے۔
سوال یہ ہے کہ آپ کی کار کردگی کیا ہے؟ بس یہی کہ عزیز ہم وطنو آپ نے گھبرانا نہیں ہے، اجے قیامت نئیں آئی۔