Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Pdm, Pakistan Democratic Museum?

Pdm, Pakistan Democratic Museum?

اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو وفاقی حکومت عمران خان سے گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی اور کراچی میں انتخابات قریب آئے تو سندھ حکومت نے حافظ نعیم الرحمن کے ڈر سے انتخابات معطل کر دیے۔ سوال یہ ہے کہ اس خوف کے ساتھ پی ڈی ایم کا سیاسی مستقبل کیا ہے؟ یہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہے یا پاکستان ڈیموکریٹک میوزیم؟

خوف دیکھیے، درجن سے زیادہ جماعتیں یک جان دو قابل ہیں اور دارلحکومت میں بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف سے شکست کا خوف انہیں دامن گیر ہے۔ ادھر کراچی میں تمام عظیم الشان اور علی مرتبت قائدین بغل گیر ہوئے پڑے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن سے شکست کے خوف نے سب کو اکٹھا کر رکھا ہے۔ تمام قائدین مل کر دہائی دے رہے ہیں کہ الیکشن نہیں ہو سکتے۔ سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم اور اس کے جملہ حلیف کب تک بھاگتے چھپتے پھریں گے۔ ایک نہ ایک دن الیکشن تو ہونے ہی ہیں۔

عمران خان کی بطور حکمران کارکردگی ہی کیا تھی۔ افسوسناک اور عبرت ناک۔ ڈھنگ کا کون سا کام تھا جو اس حکومت سے کبھی غلطی سے بھی سرزد ہوا ہو۔ ایسے نامہ اعمال کے ساتھ سیاسی جماعتیں ایک دو سال کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتیں لیکن تحریک انصاف نے ان سب کو آگے لگا رکھا ہے۔

ادھر کراچی میں جماعت اسلامی کے نعیم الرحمن ہیں، نہ لاشے گرانے میں مہارت ہے، نہ بوری بند امور کی مہارت ہے، نہ ان کے پاس اقتدار ہے نہ ان کا بھٹو زندہ ہے لیکن اس ایک شخص نعیم الرحمن کا خوف اتنا ہے کہ سب مل جل کر الیکشن ملتوی کر چکے۔

سمجھ سے باہر ہے کہ حکومت، اس کے درجن بھر حلیف، یہ اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہیں۔ ان کے خوف زدہ حیلے بہانے دیکھ کر وہ محاورہ یاد آتا ہے کہ کہا کوہان کا ڈر ہے کہا کوہان تو ہوگا۔ یہ بھی زبان حال سے اسی خوف سے سہمے ہیں۔ کہا کپتان کا ڈر ہے، کہا کپتان تو ہوگا۔ کہا نعیم الرحمن کا ڈر ہے، کہا نعیم الرحمن تو ہوگا۔

سیاسی قوتیں ہیں، ایک یادو نہیں ڈھیر ساری ہیں، بے بس بھی نہیں اقتدار میں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود الیکشن سے گھبراتے ہیں۔ اتنا گھبراتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن تک کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر میں حیران ہوں کہ کیا سیاسی قوتیں اتنی خوف زدہ بھی ہو سکتی ہیں۔

عمران اقتدار میں نہیں، ایک پیج بھی باقی نہیں رہا، بطور حکمران ان کی کارکردگی بھی نہ ہونے کے برابر تھی، وہ ہیں بھی قریب قریب اکیلے ہی۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے سب کو آ گے لگا رکھا ہے۔

حافظ نعیم الرحمن کا معاملہ اس سے بھی دل چسپ ہے۔ نہ ان کی تجوری کا سائز کلومیٹروں میں ہے، نہ وہ خوف کی تجارت کرتے ہیں، نہ وہ اقتدار میں رہے، نہ ان کا کوئی بہت بڑا سیاسی خانوادہ ہے، نہ ہی وہ کوئی پیر یا گدی نشین ہیں۔ ایک سادہ سے متحرک سے مقامی رہنما ہیں لیکن عشروں راج کرنے والی سیاسی قوتیں ان کے خوف سے با ہم بغل گیر ہیں اور ان میں یہ اتفاق رائے پایا جا رہا ہے کہ اس وقت بلدیاتی الیکشن نہیں ہو سکتے۔

بہانے دیکھیے، کہہ رہے ہیں امن عامہ کی صورت حال اس قابل نہیں کہ سندھ میں الیکشن ہو سکیں۔ بھٹو زندہ سے کوئی جا کر پوچھے کہ صاحب آپ ہی بتائیے یہ دلیل ہے یا آپ کی جماعت خود پر فرد جرم عائد کر رہی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد امن عامہ صوبائی معاملہ ہے۔ اب اگر صوبائی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ امن عامہ کی صورت حال اتنی زیادہ خراب ہو چکی ہے کہ اب الیکشن نہیں ہو سکتے تو کیا یہ اس کی اپنی نا اہلی کا اعتراف نہیں۔

پی ڈی ایم نے اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عمران تو ہوگا اور نعیم الرحمن تو ہوگا۔ سیاست حیلہ سازی اور بہانوں اور چالاکیوں سے بھی ہوتی ہوگی لیکن سیاست کا سارا دارومدار ہی اگر ان اجزائے تراکیبی پر ہو نے لگے تو یہ نیک شگون نہیں۔ پی ڈی ایم اگر آئینی، قانونی اور انتظامی پیچیدگیوں کے بہانے اور عذر تراشنے کی بجائے اپنے اخلاقی وجود پر توجہ دے تو اس کے لیے بہتر ہوگا کیونکہ الیکشن تو ایک نہ ایک دن ہونے ہی ہیں۔

اصل سوال یہ نہیں کہ پی ڈی ایم اپنی مہارت سے الیکشن کو کتنا موخر کر سکتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم اپنے خوف سے کیسے نجات حاصل کرے گی۔ اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ ن لیگ تو پرائیویٹ لمیٹڈ بن چکی ہے۔ پہلے یہ جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے اب خاندان تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے پاس عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے سرے سے کوئی نعرہ ہی نہیں ہے۔ سیاسی ڈھانچہ اس نے کبھی بنایا ہی نہیں۔ تنظیم سازی کاکوئی وجود ہی نہیں۔

یہی حال پیپلز پارٹی کا ہے۔ اس کا صرف بھٹو زندہ ہے امیدیں تو ساری دم توڑ چکیں۔ پی پی قیادت کی وضع قطع بتاتی ہے کہ جوں جوں معاشرہ ترقی کرتا جائے گا پیپلز پارٹی اجنبی ہو تی چلی جائے گی۔

مولانا کے دامن میں کیاہے؟ ایک مکتب فکر کا ووٹ بنک۔ یہ ووٹ بنک کم تو ہو سکتاہے بڑھ نہیں سکتا۔ یعنی یہ تو ہو سکتاہے کہ دیوبند مکتب فکر کے کچھ لوگ قومی سیاست سے جڑ جائیں اور ن لیگ پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی وغیرہ کا حصہ بن جائیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ عام ووٹر دھرا دھڑ جے یو آئی میں شامل ہو جائیں اور یہ قومی جماعت بن جائے۔

ان کے مقابل عمران خان کی تحریک انصاف ہے۔ نہ اس کی کارکردگی قابل ذکر ہے نہ اس کے پاس کوئی متوازن بیانیہ ہے نہ اس کے پاس کوئی لائحہ عمل۔ صاف نظر آتا ہے ہیجا ن اور افراتفری کے سوا کسی اور چیز میں مہارت نہیں لیکن اس کی مقبولیت ایسی ہے کہ اس کے آگے کسی کا چراغ نہیں جل پا رہا۔ اس معاشرے کو سماجی عصری سیاسی اور فکری ہر حوالے سے جہاں جہاں حکمت عملی کے تحت پسماندہ رکھا گیا تحریک انصاف نے سب کو کیش کرا لیا ہے۔ حب الوطنی سے لے کر امریکہ دشمنی تک اور اسلام دوستی سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ تک سارے پرچم اسی نے تھام رکھے ہیں۔ یعنی نیم خواندہ معاشرے کے جذباتی اور فکری استحصال کے جملہ حقوق اس کے نام محفوظ ہیں۔

سوال یہ کہ باقی جماعتیں کیا بیچ رہی ہیں؟ اگر وہ یہ سمجھتی ہیں کہ کچھ وقت گزار کر وہ اپنی مقبولیت بحال کر لیں گی تو یہ ممکن نہیں۔ معیشت ایسی نہیں کہ چند ماہ میں سنبھل جائے۔ ہر آنے والا وقت انہیں مزید غیر مقبول کرتا جائے گا۔

حیلوں بہانوں کی نہیں، پی ڈی ایم کو ایک واضح بیانیے کی ضرورت ہے۔ یہ بیانیہ کہاں ہے۔ اس کی تلاش نہ کی گئی تو ن لیگ جی ٹی روڈ اور پیپلز پارٹی دیہی سندھ تک محدود ہو جائیں گی۔ یہی نوشتہ دیوار ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran