تبدیلی تو آ نہیں رہی، آ گئی ہے لیکن مشکلات آنہیں گئیں، آ رہی ہیں۔ حادثوں کی تسبیح جیسے ٹوٹ جائے اور دانہ دانہ نوحے گرنا شروع ہو جائیں۔ طفلانِ خود معاملہ کے ناخن اب پی آئی اے کے دامن سے الجھے ہیں۔ لیکن دھجیاں صرف قومی ایئر لائن کے دامن تار کی نہیں اڑیں گی، آثار بتا رہے ہیں کہ معاملہ زیادہ سنگین ہے۔ چند سوالات ہیں، اگر وزیر ہوا بازی ان پر رہنمائی فرما سکیں تو شاید الجھی ڈور کا کوئی سرا ہاتھ آ جائے۔
1۔ وزیر ہوا بازی نے محض پائلٹس پر انگلی نہیں اٹھائی۔ ان کی فرد جرم سول ایوی ایشن اتھارٹی کے خلاف بھی ہے۔ کیا خود وزیر محترم کو معلوم ہے کہ اس کی سنگینی کا عالم کیا ہے؟ آپ انٹر نیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ اب جب وفاقی وزیر ایک اعتراف جرم کر چکا تو لازم ہے کہ " اکائو" اب چھان بین کے لیے یہاں آئے گی۔ یہ سوال اٹھنا اب منطقی ہے کہ جو ایوی ایشن اتھارٹی اپنے پائلٹس کو نہیں دیکھ سکتی اس کے دیگر معاملات کیسے ہوں گے۔ آپ کے انجینئرز سمیت ایوی ایشن سے جڑا ہر شعبہ اب مشکوک ہو چکا ہے۔ ان حالات میں اگر آپ " اکائو" کو مطمئن نہ کر پائے تو وہ آپ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی رکنیت منسوخ یا معطل کر سکتی ہے۔ کیا جناب وزیر کو کچھ علم ہے یہ رکنیت منسوخ یا معطل ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ایئر ٹریفک روک دی جائے گی۔ صرف یہاں تک بات نہیں رہے گی کہ پی آئی اے کا جہاز دوسرے ملکوں میں نہیں جا سکے گا بلکہ کسی اور ملک کا جہاز بھی پاکستان کی فضائی حدود سے نہیں گزر سکے گا۔ یہ ایئر ٹریفک بھارت اور افغانستان کو مل جائے گی اور آپ بیٹھے بیٹھے ریونیو سے محروم ہو جائیں گے۔ خدا نخواستہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ ملک کو بلاوجہ ایسے بحران سے دوچار کر دینا کیا اتنی ہی معمولی حرکت ہے کہ استعفی نہ دیا جائے تو کم از کم قوم سے معذرت ہی طلب کر لی جائے؟
2۔ پی آئی اے کی فلائٹس دنیا میں بند ہو رہی ہیں۔ خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایوی ایشن سے وابستہ پاکستانی دنیا بھر میں بے روزگاری کے خطرے سے دوچار ہو چکے ہیں۔ ایسے میں کابینہ کا ایک اجلاس ہوتا ہے تو اس کا ایجنڈہ ایوی ایشن اور پائلٹس کے معاملات نہیں ہوتا۔ حیران کن طور پر ایجنڈا یہ ہوتا ہے کہ پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کا اب کیا کرنا ہے۔ اتنا بڑا بحران سر پر کھڑا ہے اور کابینہ کو اس کی پرواہ ہی نہیں۔ اس کے لیے روز ویلٹ ہوٹل سے نبٹنا زیادہ ضروری ٹھہرتا ہے۔ چلیں ہم یہ سوال نہیں اٹھاتے کہ ایوی ایشن کی وزارت کی سمری کے تکلف کے بغیر روز ویلٹ کیسے ایجنڈے پر آ گیا، ہم یہ سوال بھی اٹھاتے کہ ایسی کیا ایمر جنسی تھی کہ یک نکاتی ایجنڈے پر کابینہ کو زحمت دی گئی لیکن یہ سوال تو اٹھتا ہے کہ کیا معاملات حکومت اس انداز سے چلائے جا سکتے ہیں؟ اس بے نیازی سے تو فاتحین شاید مال غنیمت بھی تقسیم نہ کرتے ہوں جس بے نیازی سے قومی اثاثوں کے بارے میں فیصلے کر رہے ہیں؟ وجہ کیا ہے؟ کہیں کچھ مشیران کی دلچسپی ان معاملات میں حد سے بڑھ تو نہیں رہی؟ یہ سوال پھر کسی دن پر اٹھا رکھتے ہیں کہ اوورسیز کی وزارت کا ایوی ایشن اور پی آئی اے سے کیا تعلق؟
3۔ ایوی ایشن بورڈ کے چیئرمین ایک سیکرٹری صاحب ہیں جو ایوی ایشن کے سیکرٹری بھی ہیں۔ موصوف اس سے پہلے ماحولیات اور پٹرولیم کے سیکرٹری تھے۔ کیا کوئی ہمیں بتا سکتا ہے کہ ان صاحب کی ایوی ایشن کے شعبے میں دلچسپی، مہارت اور سمجھ بوجھ کا عالم کیا ہے کہ یہ شعبہ ان کے حوالے کیا گیا ہے؟ جب سے یہ حکومت آئی ہے ایوی ایشن کا مستقل بنیادوں پر کوئی ڈی جی ہی نہیں ہے۔ بی آر ٹی میں تاخیر کی ذمہ داری اس موئے کورونا پر ڈالی جا سکتی ہے تو کیا خیال ہے اس انتظامی کمال کا ذمہ دار بھی اسی کورونا کو قرار دے دیا جائے؟
4۔ وزیر محترم نے پائلٹس کے لائسنسز کو جعلی قرار دے دیا۔ سوال یہ ہے جعلی لائسنس کیا ہوتا ہے؟ عام آدمی نے اس سے یہی سمجھا کہ کہ جیسے خیر دین قصاب کو ایم بی بی ایس کا جعلی لائسنس دے کر آپریشن تھیٹر میں داخل کر دیا جائے ایسے ہی سابق حکومتوں نے چنگ چی چلانے والے چند لوگوں کو جعلی لائسنس دے کر جہاز پر بٹھا دیا کہ آج سے تم پائلٹ ہو۔ وزیر موصوف کو ایوی ایشن کے معاملات کا معمولی سا بھی علم ہوتا تو وہ ایسی بات نہ فرماتے۔ لیکن وطن عزیز میں وزارتیں رجحان یا ذوق دیکھ کر تھوڑی دی جاتی ہیں۔ یہ تو لوگوں کو اکاموڈیٹ کرنے کے لیے دی جاتی ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ایک پائلٹ نصف درجن کے قریب مراحل سے گزر کر پائلٹ بنتا ہے۔ ہر سال دو مرتبہ اس کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ چند ماہ بعد لائسنس کی تجدید ہوتی ہے۔ پائلٹ بنی گالا سے ٹیکسلا نہیں جاتا کہ کسی کی نظر میں نہ آئے۔ ایک پائلٹ جب جہاز لے کر دوسرے ملک روانہ ہوتا ہے تو ایئر ٹریفک کی دنیا کے کئی ادارے لمحہ لمحہ مانیٹرنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا وزیر موصوف بتا سکتے ہیں " جعلی لائسنس" والے پائلٹس کی مہارت کے اعتبار سے دنیا نے آج تک کتنی شکایات کی ہیں؟ اور آپ کے انتظامی معاملات سے متعلق شکایات کا تناسب کیا تھا؟
5۔ کیا وزیر موصوف کو کچھ خبر ہے کہ جن پائلٹس کے لائسنس کو جعلی قرار دیا گیا ہے ان میں سے چند کے پاس ایف اے اے یعنی فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی کے لائسنس بھی ہیں؟ کیا انہیں معلوم ہے یہ ادارہ امریکہ کا ہے؟ ایف اے اے کے لائسنس یافتہ پائلٹ کو جعلی پائلٹ قرار دینا کیا ایک معقول رویہ ہے؟ کچھ ایسے پائلٹس بھی ہیں جو دس سے بیس سال سے جہاز اڑا رہے ہیں اور ہر چھ ماہ کے بعد چھلنی سے گزر کر لائسنس کی تجدید کراتے ہیں۔ آپ نے کھڑے کھڑے انہیں بھی جعلی قرار دے دیا؟
6۔ کہانی اتنی سی ہے کہ یہ ایک معمولی سا امتحان تھاجس میں رٹے کی بنیاد پر جواب دینا ہوتے تھے۔ یہ ایسا ہی عظیم علمی کام تھا جیسا Who is who and What is what میں کیا گیا ہے کہ رٹا لگاتے جائو۔ رائٹ برادران سے لے کر اب تک کے احمقانہ سوال جمع کر دیے گئے ہیں کہ لگائو رٹا۔ شنید یہ ہے کہ اس میں کچھ پائلٹس نے شمولیت نہیں کی اور انہیں کلیئر کر دیا گیا۔ کیا یہ معمولی سا ضابطہ اتنا اہم تھا کہ اتنا نقصان کروا لیا جاتا۔ جس پر شک تھا اس سے آپ یہ رٹا دوبارہ نہیں لگوا سکتے تھے؟ اپنا تماشا بنوانا ضروری تھا؟ اس رٹے کا جہاز اڑانے سے واجبی سا تعلق بھی نہیں ہے اور اس کو بنیاد بنا کر پوری پی آئی اے کو دائو پر لگا دیا گیا ہے۔ کچھ تو کہیے صاحب۔