تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ میرے دامن سے مگر یہ سوال لپٹا ہے کہ ہنگاموں میں جو تین پولیس اہلکار شہید ہو گئے وہ کس کے خون کا صدقہ ہیں؟
بے نیازی دیکھیے، لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز کے ترجمان مظہر حسین صاحب نے میڈیا کو بتایا کہ تین پولیس اہلکار شہید ہو گئے ہیں، ایک کا نام خالد، دوسرے کا نام ایوب ہے جب کہ تیسرے کی شناخت نہیں ہو سکی۔ کسی محکمے کی جانب سے اپنے شہداء کے ساتھ اس سے ز یادہ بد سلوکی کی کوئی مثال اگر موجود ہو تو میرے لیے یہ بریکنگ نیو ز ہو گی۔ ڈی آئی جی نے کلام کرنا ہی گوارا نہیں کیا، گویا ایک معمولی سا مسئلہ تھا، ترجمان پر چھوڑ دیا۔ اور ترجمان کی چشم خوباں کی بے نیازیاں دیکھیے انہوں نے کس ارزانی سے کہہ دیا تیسرے کی شناخت نہیں ہو سکی۔ ایک انسانی وجود فرض کی ادائیگی میں جان سے گزر گیا اور اس کے اپنے محکمے کا ترجمان ارشاد فرما رہا ہے مرنے والے کی شناخت نہیں ہو سکی۔ میر صاحب نے کہا تھاـ:
داغ رہنا دل و جگر کا دیکھ
جلتے ہیں اس طرح کباب کہاں
بے اعتنائیاں دیکھیے۔ تیسرا نام ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ ابھی بھی ایک عام آدمی الجھن میں ہے کہ پولیس کے شہداء کی تعداد دو تھی یا تین۔ وزیر اعلی کے مطابق بھی تین اہلکار شہید ہوئے اور ڈی آئی جی آپریشن کے ترجمان کے مطابق بھی یہ تعداد تین تھی۔ شہید اگر دو تھے اور تین بتائے گئے تب بھی نا اہلی ہے اور اگر یہ تین تھے مگر محکمے کو تیسرے کا نام معلوم نہیں تھا، تب بھی یہ نا اہلی اور سفاکی کا انچھر تھا جو محکمے کے ترجمان کی زبان سے ادا ہوا اور سارا ماحول آلودہ کر گیا۔
یہ تین لوگ کون تھے۔ کیا یہ ریاضی کے بے روح ہندسے تھے؟ ایسا نہیں ہے۔ یہ جیتے جاگتے انسانی وجود تھے۔ گھروں میں کوئی ان کی راہ دیکھتا ہو گا۔ کتنے خواب ہوں گے جن کی ڈوری سے یہ بندھے ہوں گے۔ شہید ہونے والے ایک اہلکار کی عمر انسٹھ برس تھی۔ کیا عجب وہ ساری رات جاگ کر ریٹائر منٹ ا ور پنشن کا حساب کرتا ہو، اور کیا معلوم اس کی بیٹیوں کی کتنی ہی خوشیاں ان پیسوں کے انتظار میں خزاں اوڑھے بیٹھی ہوں۔ دھول سے اٹی سڑکوں پر ڈیوٹی دیتے دیتے اس کے بال سفید ہو گئے اور بدلے میں اسے کیا ملا؟ محکمے کی اپنی ہی گاڑی نے اسے روند دیا۔ ڈی آئی جی نے کلام کرنا ہی اپنی توہین سمجھی اور ترجمان کو آگے کر دیا۔ ترجمان بولا بھی تو کیا بولا: تیسرے شہید کی شناخت معلوم نہیں۔
وطن عزیز میں سیاسی تحریکیں ہوں یا مذہبی، ان کا متن اپنے حاشیے سے مختلف ہوتا ہے۔ عنوان حسین ہوتے ہیں مگر مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں۔ یہ تحریکیں بالادست طبقات کے شطرنج سے ز یادہ کچھ نہیں ہوتیں۔ دکھ تو یہ ہے کہ ان میں انسانوں کو پیادوں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ جو جان سے گزر جائے وہ صرف ہندسوں کی صورت گنے جاتے ہیں۔ تین مر جائیں تو شناخت بھی صرف دو کی ہو پاتی ہے۔
یہ سوال آج تک حل طلب ہے کہ بے نظیر بھٹو کے دور میں، قاضی حسین احمد صاحب نے کیوں دھرنا دیاتھااور اس دھرنے میں جو کارکنان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کیا کسی نے مڑ کر کبھی ان کے اہل خانہ سے پوچھا کہ تم پر کیا بیت رہی ہے؟ طاہر القادری صاحب کے پرچم تلے جو کارکنان جان سے گئے ان کا خوں بہا کدھر گیا؟ نوا زشریف صاحب کے کاررواں میں ایک بچہ کچلا گیا تو داماد جی نے فرمایا یہ شہید جمہوریت ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ شہید جمہوریت کا منصب کارکنان کے لیے ہی کیوں؟ اپنی بار پلیٹ لیٹس کے نوحے کیوں بلند کیے جاتے ہیں؟
پولیس کا معاملہ یہ ہے کہ شطرنج پر جب کبھی کوئی بساط بچھائی جائے اور کسی بھی عنوان کے تحت بچھائی جائے یہ محکمہ ہر واردات کا قتیل ہوتا ہے۔ مقاصد حاصل ہو جانے پر جب فریقین اور قائدین چمکتے دمکتے چہروں کے ساتھ معاملہ، ہو جانے کی نوید سناکر قوم سے داد پا رہے ہوتے ہیں تو پولیس کے لاشے وہاں حرف اضافی ہوتے ہیں۔ ان شہیدوں کو نہ کوئی روتا ہے نہ کوئی یاد کرتا ہے۔ حتی کہ ان کے اپنے محکمے کے ترجمان کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ جو اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اس کا نام کیا تھا۔ اسے بس کیمروں کے سامنے آ کر کارروائی ڈالنے کی جلدی ہوتی ہے۔
پولیس سے ہم لوگوں کو اکثر شکوے رہتے ہیں اور وہ کچھ غلط بھی نہیں لیکن کیا کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ ہم نے اس محکمے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ کبھی دل کی آنکھ سے اس کانسٹیبل کو دیکھیے جو سڑک کنارے موسم کی سختیاں جھیلتے جھیلتے وقت کی دھول بن چکا ہے۔ چھوٹے شہروں کو چھوڑیے، اسلام آباد کا عالم یہ ہے کہ جگہ جگہ ناکے ہیں۔ ان ناکوں پر پولیس اہلکار وں کے لیے کسی سائے، پنکھے اور حتی کہ پانی تک کا انتظام نہیں ہوتا۔ بارش برس پڑے تو بے چارے درختوں کے نیچے جا چھپتے ہیں۔ آٹھ آٹھ گھنٹے ٹریفک سگنلز اور ناکوں پر ڈیوٹی دینے والوں کے لیے آج تک کسی نے واش روم بنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
ریڈ زون کی دہلیز پر شام کو پولیس اہلکار لوگوں سے لفٹ مانگ رہے ہوتے ہیں۔ سارا دن وہ اشرافیہ کی سیکیورٹی کی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں اور واپسی پر لوگوں سے لفٹ مانگتے رہتے ہیں۔ محکمے کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ انہیں باوقار طریقے سے پک اینڈ ڈراپ ہی دے دے۔ ان کی عزت نفس ہر رو ز سڑکوں پر پامال ہوتی ہے۔
یہ داخلی خطروں کی فرنٹ لائن پر کھڑے ہوتے ہیں۔ دہشت گردی ہو یا قانون شکنی، سماج کے اندر پہلا وار ان کے سینے پر ہوتا ہے۔ لیکن ان کو بدلے میں کیا ملتا ہے؟ یہ زخمی ہو جائیں تو علاج کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ شہید ہو جائیں تو ان کے بچوں اور اہل خانہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ان کے لیے کوئی نظمیں نہیں لکھتا۔ ان کے لیے کوئی نغمے نہیں ہیں۔ ان کے شہداء کے اعزاز میں معاشرے میں کہیں کوئی تقریب نہیں ہوتی۔
کبھی پولیس لائنز جائیے اور دیکھیے یہ کس حال میں رہتے ہیں۔ تھانوں کا بجٹ کون کھا جاتا ہے، معلوم نہیں۔ لیکن یہ معلوم ہے وہ تھانوں تک نہیں پہنچتا۔ افسران کے ا ن کے اہل خانہ سمیت مزے ہیں۔ پولیس فائونڈیشن کے عنوان سے کرپشن کی جو کہانیاں ہیں وہ حیران کن ہیں۔ سخن ہائے نا گفتہ کو تو چھوڑ ہی دیجیے سخن ہائے گفتہ ہی اتنے خوفناک ہیں کہ الامان۔
یہ درست کہ پولیس کے نظام میں اصلاح کی بہت ضرورت ہے لیکن کچھ کام سماجی سطح پر بھی ہونے چاہئیں۔ اور پہلا کام یہ ہے کہ محکمہ پولیس کی روح پر لگے گھائو مندمل کیے جائیں۔ بلا شبہ یہ گھائو حکومتی اصلاحات سے ہی مندمل ہو سکتے ہیں لیکن سماج اپنے طر ز عمل سے اس گھائل روح پر کچھ مرہم ضرور رکھ سکتا ہے۔
پولیس کو عزت دیجیے۔ کیا عجب کہ عزت نفس کا یہ احساس خود پولیس کے رویوں میں تبدیلی کا باعث بن جائے۔