پاکستان میں اب یہ رسم سی چل نکلی ہے کہ احتجاج کرنے نکلو تو راستے بند کر دو۔ چند درجن لوگ چوکوں، چوراہوں اور سڑکوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور خلق خدا ایک عذاب سے دوچار ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کا آئین اور قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
راولپنڈی میں اگلے روز تحریک انصاف کے مظاہرین نے مری روڈ کو بند کر دیا۔ یہ کام عین اس وقت کیا گیا جب سکولوں میں چھٹی ہونے والی تھی۔ کچھ والدین وہ تھے جو اس کی جہ سے بروقت سکول نہ پہنچ سکے اور کچھ وہ تھے جو سکول تو پہنچ گئے لیکن بچوں کو لے کر نکلے تو آگے سے رستے بند تھے۔ میں بچوں کو سکول سے پک کر کے بالعموم بیس منٹ میں سلام آباد گھر پہنچ جاتا ہوں لیکن اس روز میں ایک بجے سکول سے بچوں کو لے کر نکلا ااور جب گھر پہنچا تو رات کے آٹھ بج چکے تھے۔
یہ ساتھ گھنٹے جو ہم نے سڑکوں پر گزارے یہ کیسی اذیت تھے یہ وہی جان سکتے ہیں جواس کیفیت سے گزر چکے ہوں۔ اسلام آباد پہنچنے کے جتنے ممکنہ رستے ہو سکتے تھے ایک ایک کر کے دیکھ لیے لیکن نجات کی کوئی صورت نہ ملی۔ بالآخر ایک راستے سے، تنگ سی گلیوں سے ہوتے جب ہم اسلام آباد پہنچے تو سات گھنٹے بیت چکے تھے۔ راستے میں تحریک انصاف کے ان ایم این اے، ایم پی اے اور وزراء دوستوں کے واٹس ایپ مسلسل ملتے رہے جن کے ساتھ مل کر کبھی میں نے ایک بہتر پاکستان کے خواب دیکھے تھے۔ اتفاق دیکھیے آج یہ دوست ایک ایسے شخص کو واٹس ایپ پر راستے بند کر دینے کی تصاویر بھیج کر داد طلب تھے جو اپنے بچوں کے ساتھ گھنٹوں سے سڑک پر تھا اور اسے گھر جانے کے لیے راستہ نہیں مل رہا تھا۔
میں دوستوں کے میسجز پڑھتا رہا اور ان دنو ں کو یاد کرتا رہا جب ہم مل کر ایسے ہی کلچر پر کڑھتے تھے اور سوچا کرتے تھے کہ کبھی تحریک انصاف کو حکومت مل گئی توایک نیا کلچر متعارف کرایا جائے گا۔ ووٹ دینا کوئی گناہ نہیں ہوتا کہ چھپایا جائے۔ میں نے بھی ایسے ہی خوابوں کو وٹ دیا تھا کہ ایک نیا معاشرہ تعمیر ہو گا اور نئی روایات جنم لیں گی۔ سڑک پر جب ساڑے چھ گھنٹے گزرے تو مجھے یاد آیا کہ الیکشن والے اسلام آباد سے سرگودھاجا کر ووٹ ڈالنے میں بھی شاید اتنے ہی گھنٹے سڑکوں پر لگے تھے پھر خیال آیا کہ سرگودھا کے بعد ایک ووٹ ڈالنے ہم خوشاب کے مضافات میں بھی گئے تھے۔ اپنے خرچے پر، اپنی گاڑی پر۔ اس روز جب سورج نکلا تھا تو ہم کلر کہار سے گزر رہے تھے۔ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کر رہ گئیں۔
خوابوں میں لپٹی اس ساری مسافت کا انجام یہ تھا کہ ہمارے ہی دوست آج اپنے ہی صوبے میں، اپنی ہی حکومت میں، اپنے ہی لوگوں کے راستے بند کر کے یوں داد طلب تھے جیسے رستم کوئی قلعہ فتح کر کے لوٹا ہو اور اب چاہتا ہو کہ اس کے نام کے قصیدے پڑھے جائیں۔ ایک دووزیر دوستوں کو تو میں نے خوب سنائیں، ان کی محبت کہ وہ اس تلخی سے بد مزہ نہیں ہوئے۔ ایک ایم این نے و یڈیو بھیجی کہ فلاں حلقے نے فلاں راستہ بند کر دیا ہے تو میں نے لکھ بھیجا راستے بند کرنا مناسب نہیں ہوتا یہ کون سی دلاوری ہے جس کی تصاویر بھیج رہے ہو۔ انہوں نے جواب میں لکھ بھیجا: آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں۔
پہلے لوگ حزب مخالف میں ہوتے تھے تو راستے بند کرتے تھے۔ یہ پہلی بار ہوا کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے ہی دور اقتدار میں اپنے ہی لوگوں پر راستے بند کر دیے اور لوگ اپنی بیمار معصوم بچیوں کو ہاتھوں پر اٹھا کر ان سے راستے کی بھیک مانگتے رہے کہ تمہیں اللہ کا واسطہ ہمیں گزرنے دد لیکن ان حلقوں کے منتخب نمائندوں نے اپنے حلقے کے لوگوں کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھنے سے انکار کر دیا۔ میں نے ایک صوبائی وزیر سے عرض کی کہ آپ خدا کی مخلوق کو تنگ کر رہے ہیں اور اپنے ہی دور اقتدار میں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں اس کے نتائج نہیں آئیں گے؟ جو بچوں کے ساتھ سات سات گھنٹے سڑک پر ذلیل ہوتے رہے کیا آپ ان سے توقع رکھ سکیں گے کہ وہ اگلے الیکشن پر پھر آپ کے لیے طویل سفر کریں گے؟
چند گھنٹے کی بات نہیں تھی۔ تین دن ان لوگوں نے راستے بند رکھے۔ یہ تو بھلا ہو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کا جس نے پولیس اور انتظامیہ کو طلب کر کے سوال پوچھا کہ لوگ سڑکوں پر ذلیل ہو رہے ہیں، تعلیمی ادارے آپ نے بند کر دیے ہیں اور دفتروں میں مزے سے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں عوام کہاں جائیں۔ آپ سرکاری ملازم ہیں یا راستے بند کرنے الوں کے سہولت کار۔ کچھا ور پیغامات بھی گئے ہوں گے اور شاید تحریک انصاف کی قیادت کو اس بات کا احساس بھی ہوگیا ہو گا کہ راستے بند دیکھ کر سب کا نچنے نوں دل نہیں کردا، بلکہ لوگ خفا ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں عوامی تائید سکڑ بھی سکتی ہے چنانچہ آج جا کر، جب میں سطور لکھ رہا ہوں، راستے کھل چکے ہیں۔ ہمارے ہاں خلط مبحث بہت زیادہ ہے۔ راستوں کی بندش کی بات کی جائے تو آگے سے جواب ملتا ہے کہ حتجاج ہماررا سیاسی حق ہے۔ رات جناب جسٹس وجیہہ الدین احمد صاحب کا ایک واٹس ایپ ملا۔ لکھتے ہیں:آئین کے مطابق آمد وو رفت بنیادی حق ہے جب کہ احتجاج کرنا قانونی حق تو ہے مگر بنیادی حق نہیں۔ اسلام آباد ہو یا پاکستان کا کوئی اور شہر وہاں جائز احتجاج تو ہر طرح کا ہو سکتا ہے لیکن آمدو رفت نہیں روکی جا سکتی۔
آج ہی جنا ب جسٹس قاضی فائز عیسی نے ایک شہری کے طور پر راستوں کی بندش پر جو چند سطور لکھی ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں پر راستے تنگ کرنے یا بند کرنے سے منع فرمایا تھا اور اسے شیطانی عمل قرار دیا تھا۔ سڑکوں کی بندش سے شہریوں کا حق نقل و حرکت معطل ہو جاتا ہے جس کی ضمانت آئین کے آرٹیکل 15 نے دی ہے اور ان کے اس حق کا نفاذ ضروری ہے۔ جب طلبہ سکولوں میں نہیں جا سکتے تو ان کے حق تعلیم (جس کی ضمانت آئین کی دفعہ 25 اے نے دی ہے) کا نفاذ ضروری ہو جاتا ہے۔ جب مقدمے کے فریقین کی عدالت تک رسائی روک دی جاتی ہے تو منصفانہ سماعت اور ضروری کارروائی کے متعلق ان کے حق (جس کی ضمانت آئین کی دفعہ10 اے نے دی ہے) کا نفاذ ضروری ہو جاتا ہے۔ جب دکانیں اور کاروبار زبردستی بند کیے جاتے ہیں اور لوگ اپنے کام پر نہیں جا سکتے تو ان کا کام کرنے کا حق (جس کی ضمانت آئین کی دفعہ 18 نے دی ہے) نافذ کرنا ضروری ہے۔
قاضی فائز عیسی کا یہ خط ایک عام شہری کے طور پر ہے۔ کاش اس کے مندرجات ریاستی پالیسی میں بھی ظہور کر سکیں۔