ریلوے کے تازہ حادثے نے دکھی تو کیا ہی ہے لیکن اس سے بڑا دکھ یہ ہے کہ اب ہمارے پاس کچھ نیا کہنے کو بھی نہیں رہا۔ دائروں کا وہی سفر ہے اور وہی تعفن بھری مسافتیں۔
میں نے ابھی ٹی وی نے نہیں دیکھا، کسی اخبار کی ویب سائٹ پر جانے کا اتفاق بھی نہیں ہوا لیکن میں جان سکتا ہوں پٹری پر پڑی لاشوں سے بے نیاز اہل سیاست اور ان کے مجاور ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے ہوں گے۔ مجھے یقین ہے حکومت کے مخالفین عمران خان کے پرانے ارشادات نکال نکال کر سامنے لا رہے ہوں گے کہ ریلوے کے حادثے پر وزیر ریلوے کا مستعفی ہو جانا کیوں اور کتنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے پرانے خطبے اور اقوال زریں اس وقت سوشل میڈیا پر فلیش ہو رہے ہوں گے۔ دوسری جانب وزرائے کرام اور نونہالان انقلاب صف آراء ہوں گے جو اگر یہ ثابت نہ بھی کر سکے کہ سال میں ایک آدھ بار ریلوے حادثہ ہو جانا انسانی نسل کی بقاء کے لیے کتنا ضروری ہے تو وہ یہ ضرور ثابت کرنے میں لگے ہوں گے کہ اس حادثے کی نصف ذمہ داری پیپلز پارٹی پر اور نصف ن لیگ پر ہے اور وہ گئے حکمران خود تو وہ مرغی کے بچوں کی طرح معصوم ہیں، ان کا اس میں کوئی دوش نہ ہے نہ ہو سکتا ہے کہ وہ تو ہینڈ سم ہی بہت ہیں۔
ایک معرکہ کارزار برپا ہو چکا ہو گا۔ انسانی المیے سے کسی کو غرض نہیں ہو گی، سب اپنی اپنی سیاسی ضرورتوں کو پیٹ رہے ہوں گے۔۔ اس ساری نا مبارک مشق کا مقصد انسانی جان کی حرمت کا تحفظ نہیں ہو گا بلکہ ان کے پیش نظر صرف یہ ہو گا کہ سیاسی حساب کیسے چکائے جا سکتے ہیں۔ یہ بات میں کسی بد گمانی کی بنیاد پر نہیں کر رہا، یہ میں اس مشاہدے کی بنیاد پر کر رہا ہوں جس کی گواہی ہے کہ کسی بھی معاملے پر درد مندی اور سنجیدگی سے کلام کرنا ہمارے اہل سیاست کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ سیاسی ضروریات کے تحت صبح کو شام کرتے ہیں اور ان کی جملہ ترک تازی ان کی غرض اور مفاد کی آرتی اتارنے رہنا ہے۔
ریلوے کا یہ حادثہ پہلی بار نہیں ہوا۔ دکھوں کی ایک مالا ہے جو گویا ٹوٹ گئی ہے اور اب دانہ دانہ حوادث گر رہے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا آج تک کبھی ایسا ہوا کہ کسی حادثے کے بعد اسے اہل سیاست نے سنجیدگی سے موضوع بحث بنایا ہو اور غور کیا ہو کہ یہ حادثہ کیوں رونما ہو ا، اس کی وجوہات کیا تھیں اور آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ پارلیمان کی تاریخ میں کبھی ایسے کسی حادثے کے بعد کوئی سنجیدہ سیشن ہوا ہو جہاں کسی نے کوئی معقول تجویز دی ہو یا ڈھنگ کی کوئی بات کی ہو۔ پارلیمان کی بالادستی اور جمہوریت کی سربلندی سر آنکھوں پر لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ ہماری قیادت کا فکری افلاس اب تعفن دے رہا ہے۔ دم گھٹ رہا ہے۔
تین چار دن شور مچے گا، حکومت پر لعن طعن ہو گی، وزراء اپنے دفاع میں رزم گاہ میں اتریں گے تو کچھ نئے لطائف جنم لیں گی اور معقولیت سر پیٹ لے گی اور اس کے بعد ہم سب اس حادثے کو بھول جائیں گے۔ یہاں تک کہ ایک نیا حادثہ ہو گا اور وہی لعن طعن اور وہی عذر گناہ پوری قوم کے اعصاب کا امتحان لینا شروع کر دے گا۔ سوال اس وقت یہ ہے کہ دائروں کے اس نامبارک سفر سے نجات کی کیا کوئی صورت ممکن ہے یا یہی تعفن ہماری قسمت بن چکا؟
ریلوے کو حادثات سے بچانا ہے تو سادہ سا ایک اصول ہے۔ اراکین پارلیمان ملک بھر سے جب اسلام آباد پارلیمانی سیشن میں شریک ہونے آتے ہیں تو ان کے پاس یہ آپشن دستیاب ہوتا ہے کہ پی آئی اے کا ٹکٹ لے لیں یا اپنی گاڑی وغیرہ سے آئیں تو اس حساب سے مراعات لے لیں۔ بعد میں تبدیلی کر کے پی آئی اے کی جگہ نجی ایر لائنز کو بھی اس مال غنیمت میں شامل کر لیا گیا کیونکہ نجی ایر لائنزز کے مالک بھی " برادران سیاست" ہی ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں فضائی سفر کی یہ رعائت واپس لیجیے۔ جس رکن پارلیمان نے آنا ہے، وہ اپنی گاڑی سے نہیں آ سکتا تو ریلوے سے آئے، فضائی سفر کے سرکاری مزے بند کر دیں۔ دوسرے مرحلے میں تمام اہم مناصب پر فائز شخصیات پر بھی یہی اصول لاگو کیجیے۔ کوئی کسی بھی منصب پر ہو دور کا سفر کرنا ہے تو ریل سے جائے۔ چھ ماہ میں ریلوے بہتر ہو جائے گی، تیز ترین ہو جائے گی اور محفوظ ہو جائے گی۔ لیکن اگر ریل سے صرف غریب نے سفر کرنا ہے تو جان لیجیے غریب اسی طرح مرتا رہے گا۔ یہ اصول آپ کو ہو سکتا ہے غیر منطقی لگے لیکن اس ملک کے ہر ادارے کو بہتر بنانے کا یہی واحد اصول ہے۔ تمام سول، فوجی، عدالتی، پارلیمانی شخصیات کی اولادوں کی تعلیم لازم کر دیجیے کہ سرکاری اداروں سے ہو گی آپ کے سارے تعلیمی ادارے ایک سال میں بہترین ہو جائیں گے۔ ان سب کا علاج سرکاری ہسپتالوں سے کروانا لازمی قرار دے دیجیے سارے ہسپتال ٹھیک ہو جائیں گے۔ پاکستان میں دو دنیائیں آباد ہیں اور یہی اصل مسئلہ ہیں۔ دو نہیں ایک پاکستان کر دیجیے، سارا پاکستان ٹھیک ہو جائے گا۔
لیکن اگر یہ نہیں ہو سکتا تو باقی صرف اقوال ز ریں ہیں۔ اقوال زریں سنتے جائیے، سناتے جائیے اور مرتے جائیے۔ نہ آپ کے جینے کی کوئی اہمیت ہے نہ مر جانے کی۔ آپ گیلا کاغذ ہیں۔ لکھنے کے قابل نہ جلانے کے لائق۔ اشرافیہ کا جیناآپ سے الگ، ان کی رہائشی کالونیاں آپ سے جدا، ان کے تعلیمی ادارے آپ سے الگ، ان کے ہسپتال آپ سے الگ، ان کے سفر کے رنگ آپ سے مختلف۔ وہ اپنی جنت کے لیے سوچیں گے یا آپ کو جہنم سے نکالیں گے؟ حیرت ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر عام آدمی بھی بولتا ہے تو اسی اشرافیہ کے لیے، لڑتا ہے تو اسی کے لیے، پریشان ہوتا تو اسی کی خاطر۔ میڈیا کو تو اشرافیہ لاحق ہو چکی ہے۔ کیا کالم کیا ٹاک شو، عام آدمی کہیں زیر بحث ہی نہیں۔ عام آدمی جب تک اپنے مسائل پر بات نہیں کرتا تب تک یہاں کوئی ادارہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ آپ کی لاشوں پر بھی یہ صرف سیاست کریں گے۔