27 اکتوبر کو جب ہمارے ہاں داخلی سیاست کے جھگڑے غیر معمولی اہتمام سے زیر بحث تھے، سری نگر میں کھڑے ہو کر بھارتی وزیر دفاع نے ایک بیان دیا۔ آپ ہماری اجتماعی رویے کی بے نیازی دیکھیے، یہاں کسی نے اس بیان کا نوٹس تک نہیں لیا۔ جیسے تیسے کر کے 27 اکتوبر کو یوم سیاہ تو منا لیا گیا۔ اب اس سوال پر غور کرنا چاہیے کہ داخلی سیاست کو کیا اگلے روز تک موخر نہیں کیا جا سکتا تھا؟ کیا ہی اچھا ہوتا جس روز ہم کشمیریوں کے ساتھ مل کر یوم سیاہ منا رہے تھے اس روز ہمارے قومی بیانیے میں صرف کشمیر پر بات ہو رہی ہوتی۔ یہ تجاہل عارفانہ ہے یا اتفاق، جوبھی ہے پریشان کر دینے و الا ہے۔
بھارتی وزیر دفاع نے یہ بیان اس موقع پر دیا جب وہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی لشکر کشی کی یاد منا رہے تھے۔ یہ اب ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مہاراجہ سے الحاق کی نا معتبر دستاویز پر دستخط کروانے کے ڈرامے سے پہلے بھارتی افواج سری نگر میں اتاری گئیں۔ قبضہ پہلے ہوا اور نام نہاد الحاق کے معااملات بعد میں ہوئے۔ فوج اتارنے کے بعد الحاق کی ویسے ہی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ یعنی اگر اس جارحیت سے جڑے دیگر قانونی سوالات کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو یہی ایک بات اس سارے عمل کا پول کھولنے کو کافی ہے۔
اب اسی دن کی مناسبت سے بھارتی وزیر دفاع یہ دھمکی دے رہے تھے کہ ابھی تو بھارت نے گلگت بلتستان اور کشمیر پر بھی قبضہ کرنا ہے تا کہ بھارتی پارلیمان کی 1994 والی قرارداد پر مکمل عمل کی جا سکے۔ ایک پاکستانی کے طور پر میرا سوال یہ ہے کہ جب بھارتی وزیر دفاع یہ دھمکی دے رہا تھا اس وقت ہم کیا کر رہے تھے؟ ہم اپنی داخلی سیاست میں الجھے پڑے تھے۔ جو دن کشمیر کے لیے مختص تھا اس دن بھی ہمارے پاس کشمیر پر بات کرنے کو وقت نہیں تھا۔ جنہیں کشمیر پر بات کرنی چاہیے تھی وہ مقامی سیاست کی بھول بھلیوں میں الجھے پڑے تھے۔
بھارت نے جب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی حصہ قرار دیا اور پھر اس کے بعد ان تین سالوں میں جس طرح کی قانون سازی ہوئی وہ لمحہ فکریہ ہے۔ کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ، لینڈ ایکوی زیشن کے نئے قوانین، ڈومیسائل رولز میں تبدیلی، وقف پراپرٹیز پر ناجائز قبضے، پنڈتوں کی رجسٹریشن کے نئے قوانین، پنچایتی راج ایکٹ میں ترامیم، یونین ٹیرٹریز اور مقبوضہ کشمیر کے وسائل کے باب میں نئی قانون سازی، یہ سب تباہ کن اقدامات تھے اور ان کے مقصد کشمیر کی ڈیموگرافی کو بدلتے ہوئے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔ کم از کم آج کا دن تو ہمیں صرف کشمیر، کشمیریوں کے مسائل اور بھارت کے مظالم اور ناجائز قبضے پر بات کرنی چاہیے تھی۔ قومی زندگی میں کم از کم یہ تو طے ہونا چاہیے کہ کب کون سی بات کہنی ہے۔
بطور وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی شروعات شاندار ہیں۔ داخلی سیاست کے مسائل سے قطع نظر، یہ حقیقت ہے کہ، امور خارجہ کے باب میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی اچھی رہی ہے۔ واقفان حال اور سینیئر سفارت کار بتاتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی مبادیات آج بھی وہی ہیں جو بھٹو صاحب کے دور میں طے کی گئیں۔ جزوی طور پر ان میں واقعات اور حالات کے جبر کے نتیجے میں تبدیلی آ جاتی ہے لیکن اس پالیسی کا بنیادی ڈھانچہ وہی ہے جو بھٹو صاحب نے بنایا۔
بے نظیر بھٹو کے دور میں یہ ہوا کہ سلامتی کونسل نے کشمیر کو اپنے ایجنڈے سے ہی خارج کر دیا اور کہا کہ کسی کو اس فیصلے سے اختلاف ہو تو اپیل کرے اور اس اپیل کے نتیجے میں اس مسئلے کو عبوری طور پر ایجنڈے میں شامل کر دیا جائے اور اگر چھ ماہ میں سلامتی کونسل نے اس پر بحث نہ کی تو یہ خود بخود ایجنڈے سے خارج ہو جائے گا۔ چنانچہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نتیجہ ایک جیسا ہی ہو گا، صرف چھ ماہ کا فرق پڑے گا۔ محترمہ نے سلامتی کونسل کے اس فیصلے کو ہی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لابنگ کی اور سلامتی کو نسل کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ سلامتی کونسل سے یہ اصول بھی طے کروا لیا کہ آئندہ پاکستان اور بھارت کی مشترکہ مرضی کے بغیر مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے سے خارج نہیں کیا جا سکے گا۔ چنانچہ آج اگر ساری پریشانیوں اور ناموافق حالات کے باووجود کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے تو یہ بے نظیر بھٹو دور کی سفارتی کامیابی ہے۔
بلاول بھٹو نے جس طرح حالیہ ایام میں غیر ملکی نشریاتی اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے کشمیر کا مقدمہ پیش کیا یا پھر ان کے دورہ جرمنی کے موقع پر جس طرح جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں کشمیر کے معاملے کو اقوام متحدہ کے ضوابط کے مطابق حل کرنے کی بات ہوئی اور عالمی طاقتوں کے تنازعات میں فریق نہ بننے کے عزم کا اظہار کیا گیا، یہ انتہا ئی خوش آئند ہے۔ لیکن یہ سارا خوش کن تاثر کل تکلیف میں بدل گیا جب یوم سیاہ کے روز ہم نے کشمیر کو نظر انداز کیا حتی کہ شام سے پہلے وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر جناب قمر زمان کائرہ نے پریس کانفرنس کی تو اس کا موضوع بھی کشمیر نہیں، داخلی سیاست تھی۔ ایک بے بس شہری کے طور پر میں جاننا چاہتا ہوں راج ناتھ کو جواب کس نے دینا ہے؟
بھارت کی پالیسی بہت واضح ہے اور پہلے دن سے واضح ہے۔ وہ دھیرے دھیرے پیش قدمی کر رہا ہے۔ اس نے کبھی کسی امکانی حل کی بات نہیں۔ اسنے کبھی پرویز مشرف کی طرح آئوٹ آف باکس سولوشن، نہیں دیے۔ وہ یکسو ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کر لیا ہے اور باقی پر کرنا ہے۔ ہم یکسو کیوں نہیں؟ ہماری اجتماعی قومی پالیسی کیا ہے؟ ہماری سیاسی جماعتوں نے کشمیر پالیسی کی اونر شپ کیوں نہیں لی۔ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف میں مسئلہ کشمیر سے آگہی اور اس سے وابستگی کے عملی مظاہر ہ کیا ہیں؟
کل یوم سیاہ تھا۔ کیا کسی سیاسی جماعت نے کوئی پروگرام کیا؟ وہ جو سالوں تک کشمیر کمیٹی کے مال غنیمت سے جی بہلاتے رہے کیا انہوں نے کوئی ایک بیان بھی دیا۔ وہ جن سے توقع تھی کوئی اور بولے نہ بولے وہ ضرور بولیں گے کیا وہ اس طرح بولے جیسے بولنا چاہیے تھا۔
میں نے گذشتہ کالم میں بھی لکھا تھا اور آج بھی لکھ رہا ہوں کہ بھارت کے سامنے حصار باندھنا ہے تو اس کا مقام مقبوضہ کشمیر ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو اگر بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تو یہ وہ غلطی ہو گی جس کے نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ لیکن یہ عمومی بے نیازی جس کا مظاہرہ ستائیس اکتوبر کو کیا گیا، یہ تکلیف دہ ہے۔