فروری کی دھوپ میں جھیل کنارے بیٹھا تھا۔ پانیوں پر تیرتے اس سناٹے میں رملی ندی یاد آگئی۔ جس کے کنارے پھولوں سے بھرے رہتے تھے اورساون جس کی مٹی میں بادل گوندھ دیتا توسوندھی سی مہک پورے جنگل میں پھیل جاتی۔ پتھریلی ندی پھر ہرن کے حیران بچے کی طرح اس وادی میں دوڑ تی پھرتی۔ یادوں نے ہجوم کیا تو میں جھیل سے اٹھا اوروادی رملی کی طرف چل پڑا جہاں مارگلہ کے سارے موسموں کی خوشبو کا بسیرا ہوتا تھا۔
رملی وادی اور میرے بیچ بیس سالوں کی مسافت حائل ہو چکی تھی لیکن کسی سنگ میل کی حاجت نہ تھی۔ یادیں ہاتھ تھامے سیدھا یہاں لے آئیں۔ حسن اتفاق دیکھیے، یہ وادی آج بھی ویسی ہی تھی جیسے بیس سال پہلے اس برسات میں تھی۔ میں ایک پرانے وقتوں کے استھان پر جا کر بیٹھ گیا۔ پوری وادی میرے سامنے تھی۔ وادی کے بیچوں بیچ ندی گزر رہی تھی۔ ندی میں پانی نہیں وقت بہہ رہا تھا۔
رملی ندی وادی رملی سے نکلتی ہے۔ وادی رملی مارگلہ کا حسن ہے۔ مارگلہ کے پہاڑوں نے اس وادی کو یوں چھپا کر رکھا ہوا ہے جیسے مرغی بچوں کو پروں میں چھپا لیتی ہے۔ سیاح آتے ہیں اور کنکریٹ کا اسلام آباد دیکھ کر لوٹ جاتے ہیں۔ انہیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ مارگلہ کی تہذیب کے رنگ تو رملی میں بکھرے پڑے ہیں۔ حتی کہ عشروں سے اسلام آباد میں مقیم لوگوں میں سے بھی کم ہی ہوں گے، جنہیں معلوم ہو گا اس کنکریٹ زادے اسلام آباد سے چند قدموں کے فاصلے پر کیسی حسین وادی موجود ہے۔
رملی وادی، اسلام آباد کی واحد وادی ہے جس میں قطار اندر قطار کھجور کے درخت ہیں۔ پہلی نظر میں آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ اس پہاڑی سلسلے میں کھجور کے درخت کہاں سے آ گئے۔ اسلام آباد شہر میں تو آرائش کے لیے کجھور کے ڈھیروں درخت لگائے گئے، موسم اور آب و ہوا جنہیں راس نہ آیا اور وہ خشک ہو گئے لیکن رملی وادی میں کھجور کے بہت سے درخت ہیں۔ معلوم نہیں یہ کب اور کہاں سے اس وادی میں آئے۔ لیکن نیچے وادی میں ندی کے ساتھ ساتھ یہ کافی تعداد میں موجود ہیں۔
کھجور کا درخت بنیادی طور پر گرم علاقوں کا درخت ہے۔ وادی رملی میں ان درختوں کا ہونا عجیب محسوس ہوتا ہے۔ اب یہ تو متعلقہ شعبے کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ اسلام آباد سے مری کے رخ پر مارگلہ کے سلسلے میں یہ درخت کیسے پیدا ہو گئے اور کب سے پیدا ہو رہے ہیں۔ استھان کے مشرق کی جناب اوپر سے آتی ایک پگڈنڈی پر چند بزرگ بیٹھے تھے۔ یہی سوال میں نے ان سے پوچھا تو ان کے پاس بھی اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ درخت البتہ جنگلی کھجور کا ہے جس کا پھل اتنا مزیدار نہیں ہوتا۔ لیکن وادی میں بہتی ندی کے کنارے ان درختوں کے جھنڈ کے مناظر اتنے شاندار ہیں کہ آدمی کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔
ندیوں کے ساتھ عجب معاملہ ہوتا ہے، کچھ دیر ساتھ رہتی ہیں پھر کہیں جنگلوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ پہاڑوں سے آتی ہیں مگر سراغ نہیں ملتا کہ چلی کہاں سے تھیں۔ رملی ندی کا معاملہ البتہ یہ ہے کہ یہ نکلتی بھی وادی رملی ہی سے ہے۔ سامنے پہاڑ ہے جس کے اس طرف کی کوئی ندی ادھر نہیں آتی۔ اس پہاڑ کی ندیاں کے پی کے میں جا اترتی ہیں۔ برسوں پہلے چیتر کی اسی ٹھنڈی میٹھی رت میں اس ندیا کے ساتھ ساتھ چل کر ہم نے اس کے ماخذ تلاش کیے تھے کہ اس موسم میں یہ تھم چکی ہوتی ہے اوراتنی شوریدہ سر نہیں ہوتی۔
اتنی خود کفیل ندی ہے کہ چھوٹی اور مختصر سی اس وادی میں تیرہ مقامات سے برساتی جھرنے اور تین چشمے اس میں آ گرتے ہیں۔ جاڑے میں دو چشمے خشک ہو جاتے ہیں لیکن برسات میں سب پر جوبن آتا ہے۔ ندی گہری نہیں پایاب ہے، کبھی تھم جاتی ہے کبھی طوفان بن جاتی ہے۔ فطرت سے باتیں کرنی ہوں اور مارگلہ کی تہذیب کو محسوس کرنا ہو تو اس وادی سے اچھی جگہ شاید ہی کوئی ہو۔ عام راستوں سے ہٹ کر ہے اس لیے غیر متعلقہ لوگوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ تھوڑے سے لوگ اور تھوڑے سے گھرانے۔ فردوس گیاوی نے کہا تھا: علم کی انتہاء ہے خاموشی۔ یہاں آئیں تو فطرت ہاتھ تھام کر سرگوشی کرتی ہے کہ حسن کی انتہاء ہے خاموشی۔
بہار آتی ہے تو رملی ندی کے ہاتھوں پر مہندی سی لگا جاتی ہے۔ جہاں تک ندیا بھاگتی پھرتی ہے، پھول اس کا ہاتھ تھامے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ سبزہ یوں بچھا ہوتا ہے گویا سبز قالین پھیلا دیے گیے ہوں۔ نٹ کھٹ سی تتلیاں دن بھر اڑتی پھرتی ہیں، پرندے چہچہاتے ہیں اور سرشام جھیل کے کناروں پر جگنو اتر آتے ہیں۔ بس آپ کے پاس وقت اور ذوق ہونا چاہیے۔ ندی کے کنارے ایک پہر گزاریے۔ پانی کا شور سنیے۔ اس شور کو اوڑھ کر سو جائیے اور اسی شور سے اٹھ جائیے۔ پھر جب دن ڈھل رہا ہو اور دور وادی میں کسی گھر کے چولہے سے دھواں اٹھ رہا ہو تو اس گھر سے اٹھتے دھویں اور اس ندی میں بہتے پانی کو دیکھتے رہیے۔ یہ وہ تجربہ ہو گا جو آپ کو برسوں آسودہ رکھے گا۔ یہ مناظر خدا نے ہمارے لیے بنائے ہیں لیکن ہمارے پاس وقت نہیں، ہم ڈربوں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں اور فطرت سے دور ہو چکے۔
رملی ندی جب وادی رملی سے نکلتی ہے تو کونج گویا ڈار سے جدا ہو جاتی ہے۔ کوئی موتی جیسے مالا سے ٹوٹ کر بکھر جائے۔ پھر ایک اور کہانی جنم لیتی ہے۔ راستے میں اگرچہ دو اور ندیاں اس میں آن شامل ہوتی ہیں لیکن راول جھیل تک پہنچتے پہنچتے اس میں اتنی گندگی شامل ہو چکی ہوتی ہے کہ یہ ندی نہیں، غلاظت بن چکی ہوتی ہے۔ اس کیں قائد اعظم یونیورسٹی، بری امام اور ڈپلومیٹک انکلیو کا سیوریج شامل ہو چکا ہوتا ہے۔
یہ سیوریج راول جھیل میں اکٹھا کر کے راولپنڈی کو سپلائی کیا جاتا ہے اور سب ہنسی خوشی رہنے لگ جاتے ہیں۔ دور وادی کے ایک گائوں سے شروع ہونے والی کہانی شہر میں آ کر ختم ہو جاتی ہے۔