روس اور امریکہ ایک ہی بار آپس میں سیدھی جنگ کیوں نہیں لڑ لیتے تا کہ ایک ہی بار خس کم جہاں پاک ہو جائے اور انسانیت سکھ کا سانس لے؟
بین الاقوامی سیاست کی بدلتی کروٹ پر کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن کیا کروں میں تو یوکرائن سے آنے والی چند تصاویر سے باہر نہیں نکل پا رہا۔ ایک ماں دو معصوم بچوں کو تھامے رو رہی ہے اور یوں لگ رہا ہے پوری کائنات اس ماں کے ساتھ رو رہی ہے۔ ایک تصویر میں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے ہوئے ہیں اور ان دکھ ان کے چہروں پر نقش ہو گیا ہے کہ جانے اب زندگی میں دوبارہ کبھی ملاقات ہو یا نہ ہو۔ یہ تصویر دیکھی تو فلسطین کے محمود درویش یاد آ گئے۔ درد کو کیسے مصرعے میں پرو گئے تھے۔
تقول: متی نلتقی(اس لڑکی نے پوچھا، اب ہم کب ملیں گے؟
اقول: بعد عام و حرب(میں نے جواب دیا:جنگ کے ختم ہونے کے ایک سال بعد)
تقول: من تنتھی الحرب (اس نے پوچھا: جنگ کب ختم ہو گی)
اقول: حین نلتقی (میں نے کہا: جب ہم ملیں گے)
امریکہ میں بھی سکون ہے اور روس میں بھی امن ہے۔ یہ لڑتے ہیں لیکن میدان جنگ ان کا اپنا معاشرہ نہیں ہوتا۔ جنگ ان کی ہوتی ہے برباد دوسرے ہوتے ہیں۔ جھگڑے ان کے ہوتے ہیں لیکن بچے دوسرے ممالک کے یتیم ہوتے ہیں۔ دوسرے معاشروں کو تباہ و برباد کر کے یہ ایسے سیاست کھیلتے ہیں جیسے انسان نہیں مر رہے کسی خزاں رسیدہ درخت سے پتے جھڑ رہے ہیں۔
ان کی لڑائی میں کبھی افغانستان برباد ہو جاتا ہے کبھی یوکرین۔ غریب اور کمزور ملکوں کی نسلیں اجڑ جاتی ہیں لیکن ان کے معاشروں میں قہقہے پھوٹتے رہتے ہیں اور یہ اس ساری قیامت سے بے نیاز میلوں دور نظمیں کہتے ہیں اور گیت سنتے ہیں۔ یہ جنگ اگر ان کی ہے تو اس جنگ کو وہ اپنے میدانوں اور اپنے گھروں میں کیوں نہیں لڑتے؟ لاشوں کا کھیل ہی اگر کھیلنا ہے تو یہ لاشے وہ خود کیوں نہیں اٹھاتے؟ بربادی ہی سے فیصلے ہونے ہیں تو یہ فیصلے ان کے اپنے گلی کوچوں میں کیوں نہ ہوں؟ مارک ٹوین نے کہا تھا: خدا نے جنگ اس لیے بنائی ہے کہ امریکی جغرافیہ سیکھ سکیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ تعلیم بالغاں، کا یہ نصاب اپنے ملک میں کیوں نہیں پڑھاتا؟
کیوبن میزائل کرائسس جنم لیتا ہے تو اس لیے لیتا ہے کہ سوویت یونین نے امریکہ کو شٹ اپ کال دینے کے لیے کیوبا میں امریکہ سے صرف 90 کلومیٹر دور اپنے میزائل نصب کر دیتا ہے۔ اور پھر سالوں بعد امریکہ وہی کہانی دہراتا ہے اور پولینڈ اور چیک ری پبلک میں میزائل نصب کرنے پہنچ جاتا ہے۔ کبھی روس کریمیا میں جا گھستا ہے تو کبھی نیٹو روس کو گھیرنے کے لیے پولینڈ، اسٹونیا، لتھوینیا اور لٹویا میں دستے تعینات کر دیتی ہے۔ کبھی روس اور امریکہ کا میدان جنگ شام ہوتا ہے تو کبھی یوکرین۔
دنیا کے پاس کھانے کو کچھ نہیں لیکن طاقتور ممالک کی پراکیسز اور وحشتوں کی وجہ سے دنیا کا دفاعی بجٹ دو ٹریلین ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ جن کے جھگڑے ہیں ان کے شہری مزے میں ہیں اور زندگی کے رنگوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور جو بلاوجہ ان جنگوں کا ایندھن بن جاتے ہیں ان کو مزید بے وقوف بنانے کے لیے چارلی ولسن وارز فارمولا آ جاتا ہے اور ان کے لیے جنگوں کو گلیمرائز کر دیا جاتا ہے۔ وہ پرائی جنگ میں اپنا ستیا ناس کرانے کے بعد گنگنا رہے ہوتے ہیں کہ کل روس بکھرتے دیکھا تھا اور اگلے ساون میں امریکہ جلتا دیکھیں گے۔
عالم یہ ہے کہ جس سوویت یونین کی تباہی پر ہمارے ہاں بغلیں بجائی گئیں وہ برباد ہو کر صرف روس رہ گیا پھر بھی سلامتی کونسل کا مسقتل رکن رہا۔ کسی کی جرات نہ ہو سکی کہ سلامتی کونسل میں کہتا ویٹو پاور تو سوویت یونین کے پاس تھی، اب یہ روس ہے تو اسے ویٹو پاور حاصل نہیں ہو گی۔
جو برباد ہو گیا وہ آج بھی طاقتور ہے اور جو فاتحین بقلم خود تھے وہ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں کہ اللہ کرے یہ دنیا اب یونی پولر نہ رہے بلکہ ملٹی پولر بن جائے اور ہمیں سکون کا سانس نصیب ہو۔ یہی ترک تازی کرنی تھی تو وہ معرکہ آرائی کس لیے تھی؟ ہمارے اپنے لیے یا امریکہ بہادر کے لیے؟ سوویت یونین تھا تو دنیا میں ایک توازن تھا۔ یہ جو حق خود ارادیت کیلیے مسلح جدوجہد کی فلسطینیوں کو اجازت دی گئی اور اس قانون کا فائدہ بعد میں کشمیر کی تحریک کو بھی پہنچا یہ سوویت یونین بلاک ہی کہ وجہ سے ممکن ہو سکا تھا۔ جب وہ نہ رہا اور امریکہ واحد سپر پاور بن کر ابھرا تو قانون میں موجود ہونے کے باوجود ذرا کوئی اس مسلح جدوجہد کی بات تو کر کے دیکھے۔ حالانکہ انٹر نیشنل لاء اس کی اجازت دیتا ہے۔ تو اس مہم جوئی میں ہمیں ملا کیا؟ کوئی ہے جو غور کرے؟
امریکہ اور روس آج اس قابل ہیں کہ دو چار منٹ میں ایک دوسرے کے ساتھ سارے حساب برابر کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ خود تو گائوں کے چودھری کی طرح مزے میں ہیں اور اپنی لڑائی میں دوسروں کو مروا رہے ہیں۔ امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو روس میٹھی میٹھی مذمت سے آگے کچھ کرنے کو تیار نہ تھا۔ حتی کہ اس نے سلامتی کونسل میں امریکی اقدام کو ویٹو تک نہیں کیا تھا۔ اور اب روس یوکرین پر چڑھ دوڑا ہے تو امریکہ نے سویٹ ڈش جیسی مذمت سے جی بہلا رہا ہے۔
جس یوکرین کو نیٹو نے اپنے جنگی مقاصد کے لیے استعمال کیا آج اس یوکرین کا صدر بے بسی سے کہہ رہا ہے کہ میں ان سب ممالک سے بات کر نے کی کوشش کر رہاہوں لیکن یہ سب ڈرے ہوئے ہیں۔ روس کی جانے بلا کہ عراق پر کیا بیتی، اب نیٹو کی جانے بلا کہ یوکرین پر کیا بیتتی ہے۔ دوسرے ملک برباد ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں یہ بڑی قوتیں اس بربادری میں سے صرف اپنے لیے امکانات تلاش کرتی ہیں۔
چنانچہ امکان یہی ہے کہ جو کچھ امریکہ کے ساتھ عراق اور افغانستان میں ہوا، وہی کچھ روس کے ساتھ یوکرین میں کیا جائے گا۔ جیسے امریکہ کے لیے یہ تو آسان تھا کہ حملہ کرے، قبضہ بھی کرلے لیکن اسے قائم رکھنا آسان نہ تھا۔ چنانچہ اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ہی حالات کا روس کو بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بڑی قوتوں کے لیے یہ سب ایک کھیل ہو گا لیکن انسانیت کے لیے یہ کھیل کسی قیامت سے کم نہیں ہو گا۔
انسانیت سسک رہی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ ہو تو امریکہ ویٹو کر دیتاہے اور کریمیا کا مسئلہ ہو تو روس ویٹو کر دیتا ہے۔ انٹر نیشنل لاء ان بڑی قوتوں کا مارشل لاء بن چکا ہے اور اقوام متحدہ پارلیمان کی طرح بے توقیر ہو چکی ہے۔
سوال وہی ہے: روس اور امریکہ ایک ہی بار آپس میں سیدھی جنگ کیوں نہیں لڑ لیتے تا کہ ایک ہی بار خس کم جہاں پاک ہو جائے اور انسانیت سکھ کا سانس لے؟