Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Sab Maya Hai?

Sab Maya Hai?

جس معاشرے میں کسی کا کوئی بھرم، کوئی نیک نامی باقی نہ رہے، جہاں سب کا نامہ اعمال خلق خدا پر کسی جان دا کی طرح کھل جائے، وہ معاشر ہ کیا آگہی کے اس بوجھ تلے دب کر رہ جاتا ہے یا وہ اسے اپنی قوت بنا کر ایک نئی عمارت کھڑی کر سکتا ہے؟ پاکستانی معاشرہ آج اسی بحران سے دوچار ہے اور اس سوال کا جواب بھی اب اس نے اپنی فرد عمل سے خود ہی لکھنا ہے۔

معاشرہ آگہی کے موسموں کی زد میں ہے۔ سارے حجاب اٹھ چکے ہیں۔ کوئی راز اب راز نہیں رہا۔ پاکی داماں کے سارے قصے سراب ہوئے۔ دستاریں اندر سے خالی نکلیں۔ عزیمت کے ڈھول پھٹ چکے۔ کردار کے خود تراشیدہ ہمالہ روئی کی طرح اڑتے پھرتے ہیں۔ جتنے اعتبار تھے کانچ کی طرح ٹوٹ گئے۔ جتنے بھرم تھے خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئے۔ نہ علم کا اعتبار رہا نہ منصب کا۔ نہ پوشاکیں معتبر رہیں نہ دستار کی کوئی حرمت بچی۔

یہاں نیک نامی کے تاج محل تھے، وقت کی دھول ہوگئے۔ حقائق کی تیز آندھی چلی تو خوش گمانیوں کے سارے نقاب اڑتے چلے گئے۔ خلق خدا اب سہمی بیٹھی ہے۔ آنکھوں میں حیرت ہے اور وجود سے سوالات لپٹے۔ زبان میں مگر تاب سخن نہیں۔ یوں جانیے کہ اب کہنے کو کچھ باقی نہیں رہا۔ روش روش پرزخموں کے گلاب کھل رہے ہیں اور صدیوں کی تھکاوٹ لیے یہ معاشرہ اپنے اعتبار و فریب کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے منیر نیازی بن چکا ہے کہ:

وہ بے حسی ہے مسلسل شکست دل سے منیر

کوئی بچھڑ کے چلا جائے غم نہیں ہوتا

یہاں کسی کے آنے میں کوئی معنویت رہی ہے نہ جانے میں۔ نہ آ کر جانے میں کوئی سوگواری ہے نہ جا کر آنے میں کوئی سرشاری۔ کریانہ سٹور میں کسی کا جانا کیا اور آنا کیا۔ کوئی رہے یا نہ رہے اس سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ جائے یا وہ آئے، یا وہ جائے اور یہ آئے، یہ مال غنیمت کے مشقتیوں کی مشق تو ہوسکتی ہے، اس آمدورفت سے کوئی رومان اور خواب وابستہ نہیں رہا۔

یہاں اب کہیں کردار کا کوئی سنگ میل ہے یا نہ کوئی دیوار گریہ۔ یہاں اب سب ایک جیسے ہیں۔ کسی کو کسی پر کسی قسم کی کوئی برتری نہیں۔ نہ کسی فرد کو نہ کسی گروہ کو نہ کسی ادارے کو۔ یہاں نہ کوئی خیر خواہ ہے نہ ثالث۔ یہاں دلیل اور کردار کسی قوت کا نام نہیں رہا۔ یہاں قوت ہی دلیل ہے اور اسی کا نام کردار ہے۔ یہاں استدلال سے نہیں، لوگ طاقت سے لاجواب ہوتے ہیں۔ طاقت سے ہی قائل ہوتے ہیں۔

نجیب لوگ اجنبی ہو ئے اور پست لوگ معتبر ہوتے گئے۔ یہ روش اب اس سماج کا اصول بن چکی۔ ہر شعبہ اپنے چھوٹے لوگوں کی دسترس میں ہے۔ معاشرہ مویشی منڈی بنا دیا گیا ہے۔

جب حجاب تھے تو بھرم باقی تھا۔ ابلاغ کی دنیا نے حجاب اٹھا دیے تو معلوم ہوا ابن انشاء ٹھیک ہی کہتے تھے:

سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے

اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے

جو تم نے کہا ہے، فیضؔ نے جو فرمایا ہے

سب مایا ہے

ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی

یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی

بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے

سب مایا ہے

اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں

جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں

تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے

سب مایا ہے

معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی

سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشاؔ بھی

فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے

سب مایا ہے

کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو

جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو

اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے؟

سب مایا ہے

جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں

تم جانتے ہو ہم کیوں کر اس کا نام لکھیں

دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے

سب مایا ہے

وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھیوہ

جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی

آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے

سب مایا ہے

جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں

وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں

ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے

سب مایا ہے

جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے

اس شہر سے دور اک کٹیا ہم نے بنائی ہے

اور اس کٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے

سب مایا ہے

حالات کی نیا جس رخ پر بہہ رہی ہے، حالات حاضرہ میں ڈوبتی اخلاقی قدروں پر کڑھنے کی بجائے، ابن انشاء کو یاد کر دیکھیے۔ وقت ملے تو خزاں کی کسی ڈھلتی شام میں، دریا کنارے کھڑی کسی کشتی میں بیٹھ کر یہ نوحہ لالے عیسی خیلوی کی زبانی سن لیجیے۔

وطن عزیز میں میں اب تو سب مایا ہے۔ وہی نیک نام ہے جس کا نامہ اعمال پوشیدہ ہے۔ اسپغول تے کجھ نہ پھول۔ سوال اب یہ ہے کہ یہ آگہی اپنے ساتھ مایوسی لاتی ہے یا قوم کا ایک نئے عزم سے کھڑا ہونے کا حوصلہ دیتی ہے۔ قصور آگہی کا نہیں ہوتا۔ آگہی تو صرف حقیقت سامنے لاتی ہے۔ اس سے ڈرنے والے لوگ کہا کرتے تھے لا علمی اور جہالت بڑی نعمت ہے۔ لا علمی اور جہالت میں ہر دستار معتبر لگتی ہے اور ہر دوسرا آدمی کردار کا کوہ ہمالیہ۔ یہ آگہی ہوتی ہے جو شعور پردستک دیتی ہے اور پکار پکار کر کہتی ہے: سب مایا ہے۔

کچھ وہ ہوتے ہیں جو اس آواز کو سن کر مایوس ہو جاتے ہیں، حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں اور قومی امور سے لاتعلق ہو جاتے ہی اور کچھ وہ ہوتے ہیں جو اس آگہی کو اپنی طاقت بنا لیتے ہیں، اور پر عزم ہو کر بہتر مستقبل کی جدو جہد شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستانی معاشرہ آج ایسے ہی دوراہے پر کھڑا ہے۔ وقت بتائے گا یہ اس آگہی کے بوجھ تلے دب جاتا ہے یا اسے اپنی قوت بنا لیتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran