ایک خط صدر محترم نے وزیر اعظم پاکستان کو لکھا اور ایک خط جناب وزیر اعظم نے صدر مملکت کو بھیجا۔ اقوال زریں کے اس بے روح تبادلے کے بعد دل کر رہا ہے کہ ایک خط ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں روانہ کیا جائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ آپ ایک دوسرے کا جو حشر نشر کرنا چاہتے ہیں، شوق سے کریں لیکن ازراہ کرم آئین کو معاف کر دیں۔ آئین آپ دونوں میں سے نہ کسی کی ترجیح ہے نہ آپ دونوں کو اس بات کی کوئی پرواہ ہے کہ آئین کیا کہتا ہے۔ آئین آپ دونوں کو صرف اس وقت یاد آتا ہے جب آپ کے مفادات سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ ورنہ آپ دونوں کی جانے بلا کہ آئین کیا کہتا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔
پہلے صدر محترم اور ان کے گروہ کی مبینہ آئین دوستی کا جائزہ لے لیتے ہیں پھر جناب وزیر اعظم اور ان کے اتحادیوں کی آئین پسندی کا تجزیہ کر لیں گے۔
اسی پارلیمان میں عدم اعتماد پیش ہوئی۔ آئین کے آرٹیکل 95 میں لکھا ہے کہ جب عدم اعتماد پیش ہو جائے تو تیسرے دن سے ساتویں دن کے اندر اندر اس پر ووٹنگ کرانا لازم ہے۔ آٹھویں دن کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن ہمارے سامنے کی بات ہے کہ تحریک انصاف کے ڈپٹی سپیکر نے اس عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائے بغیر اسے خارج کر دیا۔ حالانکہ آئین میں ان کو نہ یہ اختیار تھا کہ وہ اس پر ووٹنگ سے انکار کر دیں اور نہ ہی وہ اسے خارج کرنے کے مجاز تھے۔ لیکن چونکہ گروہی مفاد کا تقاضا تھا تو صدر محترم خاموش رہے۔
یہی نہیں، بلکہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر محترم نے اپنے تئیں اسمبلی ہی تحلیل کر دی۔ یہ اقدام غیر آئینی تھا۔ آئین کے آرٹیکل 58 کے مطابق تحریک عدم اعتماد آ جانے کے بعد نہ ایسی ایڈوائس دی جا سکتی ہے اور نہ اس پر عمل ہو سکتا ہے۔ عدم اعتماد کے بعد ایڈوائس آئی تو جناب صدر نے اپنے وزیر اعظم کو آئین یاد دلانے اور ایک عدد خط مبارکہ لکھنے کی بجائے ایڈوائس پر عمل کر دیا۔
آج پی ڈی ایم کی حکومت ہے۔ انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے۔ آئین پاکستان میں واضح لکھا ہے کہ الیکشن اتنے دنوں میں ہونے چاہییں۔ لیکن جن کا نعرہ تھا ووٹ کو عزت دو، وہ آئین میں درج مدت کا احترام کرنے کو تیار نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 220 کے تحت تمام اتھارٹیز پابند ہیں کہ وہ الیکشن کمیشن کی معاونت کریں لیکن حکومت الیکشن کمیشن سے کہتی ہے کہ ہم افرادی قوت نہیں دے سکتے۔ آمروں کی آئین شکنی تو پی ڈی ایم کو یاد رہتی ہے لیکن پارلیمانی آئین شکنی کے بارے میں مولانا فضل الرحمن بھی غور نہیں فرماتے کہ تہتر کے آئین کے تناظر میں انتخابات کا التوا جائز قدم ہے یا ناجائز۔
نظریہ ضرورت کا چشمہ آمریت کے عصا سے پھوٹے یا پارلیمان کی فراست سے، اس کی تحسین نہیں کی جا سکتی۔ دلیل کیسی ہی کیوں نہ ہو آئین شکنی کا جواز نہیں بن سکتی۔ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ دہشت گردی کو انتخابات کے التوا کی دلیل مان لیا جائے تو اس سے مستقبل میں کیسی کیسی قباحتیں جنم لے سکتی ہیں۔
ایک آئین شکنی پر صدر محترم آرام اور سکون سے رہتے ہیں اور دوسری آئین شکنی پر پی ڈی ایم کے ماتھے پر کوئی شکن نہیں آتی۔ قدر مشترک کیا ہے؟ گروہی مفادات۔ گروہی مفاد اگر آئین شکنی سے پورا ہوتا ہو تو ہر دو گروہوں کے نزدیک آئین سے انحراف گوارا ہے۔ اور گروہی مفاد اگر آئین پر عمل درآمد سے پورا ہوتا نظر آ رہا ہو تو ہر دو گروہ آئین کے محافظ بن کر سامنے آ جاتے ہیں۔
ہر گروہ کے نزدیک آئین کا مطلب صرف یہ ہے کہ اپنے اپنے گروہ کے اقتدار کو یقینی بنایا جا سکے اور اس کا تحفظ کیا جا سکے۔ اگر گروہی مفاد محفوظ ہے تو آئین سر بلند ہے اور اگر یہ محفوظ نہیں تو ان کا آئین خطرے میں ہے۔ چنانچہ جہاں ان گروہوں کے مفاد کا کوئی تعلق نہیں، وہاں یہ آئین سے اور آئین میں دی گئی مدت سے ایسے لاتعلق ہو جاتے ہیں جیسے یہ بات تو کبھی آئین میں تھی ہی نہیں۔ ان دونوں کا آئین صرف وہ ہے جو ان کے مفاد کو پورا کرے۔
آئین میں لکھا ہے کہ15سال کے اندر اندر اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جائے۔ یہ بات آئین میں 1973 میں لکھی گئی تھی اور یہ مدت 1988میں ختم ہوگئی۔ آئین میں دی گئی مدت کو ختم ہوئے 35سال ہو گئے لیکن کسی کو پرواہ نہیں۔ کیونکہ اس بات کا تعلق کسی سیاسی گروہ کے مفاد سے نہیں ہے۔ ہاں ان کے گروہی مفاد کی کوئی بات ہوتی تو یہ آئین کے محافظ بن کر آہ و فغاں شروع کر دیتے کہ توبہ توبہ، پینتیس سال ہو گئے، آئین پر عمل نہیں ہو رہا۔
مقامی حکومتوں کا معاملہ دیکھ لیجیے۔ یہ حکومتیں بھی آئین کے تحت بنتی ہیں، یہ بھی عوام کے ووٹ سے بنتی ہیں۔ لیکن عمران خان نے یہ حکومتیں معطل کر دیں۔ اور پی ڈی ایم کی حکومت نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات سے معذرت کر لی کہ امن عامہ کی صورت حال ٹھیک نہیں۔ پی ایس ایل ہو سکتا ہے بلدیاتی الیکشن نہیں ہو سکتے۔ آئین نے کہا ہے سود کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ چونکہ اس میں کسی گروہ کے مفاد کی بات نہیں اس لیے کسی کو پرواہ نہیں۔
آئین بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہے لیکن سیاسی اشرافیہ میں کبھی کسی نے اسکے بارے کوئی حساسیت نہیں دکھائی۔ ہاں کبھی اس گروہی اشرافیہ کا اپنا کوئی آدمی گردش دوراں کی زد میں آ جائے تو اس کے مفاد کی خاطر بنیادی انسانی حقوق کا شور اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
عام آدمی کے بچے سڑکوں پر قتل کر دیے جائیں راوی چین لکھتا ہے لیکن ان کے شاہی خانوادوں کے کسی شاہ زادے کی پینٹنگ زمین پر گر جائے تو ڈیجیٹل نوحہ گر سارے ماحول کو سوگوار کر دیتے ہیں۔
لوگ سپریم کورٹ سے باعزت بری ہوتے ہیں تو پتا چلتا ہے پہلے ہی پھانسی پا چکے۔ لیکن خاموشی رہتی ہے۔ البتہ ان کے کسی شاہ زادے کو نیب میں پیش ہونا پڑ جائے توگداگران سخن آہوں سے آدھا براعظم ہلا دیتے ہیں۔
عملا آج یہ صورت حال ہے کہ آئین سے دونوں ہی گروہ بے نیاز ہو چکے ہیں۔ رانا ثناء اللہ صاحب بتا چکے کہ وہ اب ہر حد تک جانے کو تیار ہیں اور عمران خان پہلے ہی انقلاب ایران و چین کے متمنی ہیں۔ کوئی کسی دوسرے کے وجود کا اب قائل نہیں رہا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں آئینی تکلف کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیوں نہ اب ان سے درخواست کی جائے کہ ایوانوں سے نکل کر مارگلہ کا رخ اختیار کریں اور ایک ہفتہ وہاں رہ کر اپنے سارے حساب کتاب " آزادنہ، بے باکانہ اور منصفانہ " انداز سے پورے کرلیں۔ پھر جو بچ جائے اور واپس آ جائے وہ ہمارا تاحیات حکمران بن جائے؟
شاید اس طرح ملک میں سیاسی استحکام آ جائے۔ اور نہ بھی آ ئے تو کیا یہ کم ہے کہ ایک ہفتہ سکون سے گزر جائے گا۔