Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Saleheen Aur Dahi Culture

Saleheen Aur Dahi Culture

جماعت اسلامی آرام سے ایک کونے میں دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہی تھی، برادرم عامر خاکوانی نے اسے زوردار کہنی رسید کر دی ہے۔ معلوم نہیں صالحین کی یہ جماعت ابھی مزید کلچے اور دہی سے ہی شغف فرماتی رہے گی یا سوچے گی کہ کہتی ہے اس کو خلق خدا کالمانہ، کیا۔

عرصہ ہوا طے کیا تھا کہ جماعت اسلامی پر نہیں لکھنا۔ صالحین کی اکثریت سے احترام کا تعلق ہے اور وہ اس پر بد مزہ ہوتے ہیں۔ لیکن آج صبح صبح عامر خاکوانی نے صالحین کو کہنی ماری تو نہ چاہتے ہوئے بھی میں رک گیا کہ دیکھ لوں کہنی ہی ماری ہے یا گھسن، مار دیا ہے۔ یہ پڑائو، ظاہر ہے کہ خیال خاطر احباب اور خیر خواہی میں ہے اور اس کی ساری ذمہ داری عامر خوکوانی کی کہنی (یا گھسن) پر عائد ہوتی ہے۔

مجھے نہیں معلوم سیاسی جماعت کے ساتھ "پرائیویٹ لمیٹڈ "یا جملہ حقوق محفوظ ہیں، جیسے فقرے لکھے جا سکتے ہیں یا نہیں تا ہم حفاظتی اقدام کے تحت الیکشن کمیشن سے رجوع ضرور کیا جا سکتا ہے۔ تا کہ اگلے ضابطہ اخلاق میں پابندی عائد کر دے کہ کوئی سیاسی جماعت کسی کونے میں دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہی ہو تو اسے کہنی یا گھسن مارنے سے اجتناب کیا جائے اور پرائیویسی کا احترام کیا جائے۔

سیاست کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ قلندوں کا تکیہ نہیں ہوتی۔ سیاست حالات حاضرہ کی صورت گری کا رستہ ہے۔ یہ معاشرے کے مسائل پر پوری عملیت پسندی کے ساتھ بروئے کار آنے کا نام ہے۔

اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اقتدار مل جائے اور اپنے تصورات کو فلاحی ریاست میں ڈھال کر دکھا دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ اقتدار نہ ملے تو ایک ایسا بیانیہ لے کر سامنے آیا جائے جو لوگوں کے سوچنے کے عمل پر اثر انداز ہو۔

اقتدار تو جماعت اسلامی کو کبھی نہ ملا، ہاں جزوی شراکت اقتدار ضرور رہی۔ عوامی مقبولیت بھی اسے نہ مل سکی اور اس کی سیاسی جدو جہد کا نکتہ عروج بھی قومی اسمبلی کی چند نشستوں تک محدود رہا۔ لیکن جماعت ا سلامی پر ایسا فکری اور عملی بحران کبھی نہیں آیا تھا جیسے سراج الحق صاحب کے دور میں آیا۔

جماعت کوانتخابی سیاست میں بھلے کامیابی نہ ہو سکی لیکن فکر کی دنیا میں اس کا ایک مقام تھا۔ ملکی سیاست میں اس کا ایک بیانیہ ہوتا تھا اور وہ بہت جاندار بیانیہ ہوتا تھا۔ اب یہ عالم ہے کہ کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا جماعت اسلامی کہنا کیا چاہتی ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر محترم کے اخبارات میں روزانہ بیان شائع ہوتے ہیں، عامر خاکوانی کہتے ہیں معلوم نہیں انہیں کوئی پڑھتا بھی ہے یا نہیں۔ میں ان سے عرض کروں کہ پڑھتا تو میں روز ہی ہوں لیکن اس کے بعد یہ سمجھ نہیں آتی کہ اب کسے فون کر کے پوچھوں کہ امیر جماعت اسلامی کہنا کیا چاہتے ہیں۔

نہ کوئی پالیسی ہے، نہ کوئی لائحہ عمل۔ جیسے این جی اوز اپنے سال بھر کے پروگرامات، سیمینارز اور کانفرنسوں کی تعداد پوری کرنے کے لیے کارروائی ڈالتی پھرتی ہیں، ایسے ہی قومی سیاسی بیانیے سے لاتعلق ہو کر جماعت اسلامی اپنی سرگرمیاں کرتی پھرتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اپنے کارکنان کے وسائل اور توانائی کو اس بے رحمی سے ضائع کرنے پر کوئی امیر محترم سے سوال نہیں پوچھتا۔

مہنگائی کے خلاف چند ہفتے پہلے، روایت ہے کہ، کوئی کارروان لے کر نکلے۔ ریلیاں ہوئیں، خرچ ہوئے، لیکن معاملہ وہی کہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ مہنگائی کے خلاف کوئی بھر پور احتجاج ریکارڈ کرانا تھا تو اس کا مقام قومی اسمبلی کے سامنے ڈی چوک تھا یا ایسی کوئی اور نمایاں جگہ۔ چیچہ وطنی اور بھائی پھیرو سے کاررواں گزار کر کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟ عوام کو تو پہلے ہی پتا ہے مہنگائی کا عذاب کیسا ہے، اب احتجاج کا رخ تو خواص کی جانب ہونا چاہیے تھا۔ وہاں سے جو خبر نکلتی وہ پورے ملک تک پہنچ جاتی۔ لیکن انہوں نے حکومت کے لیے درد سر بنے بغیر ہومیوپیتھک سے جلوس نکالے اور کارروائی ڈال کر گھروں کو چلے گئے کہ اس سال تو انقلاب آئے ہی آئے۔

ایسا انہیں کہ جماعت اسلامی کے پاس صلاحیت نہیں۔ منظم ترین جماعت ہے۔ سوال مگر تنظیم کا نہیں اس کے امیر محترم کا ہے۔ وہ چاہتے کیا ہیں؟ قومی سیاست میں ان کا کردار کیا ہے؟ وہ اپنا بیانیہ عوام تک پہنچانے کے لیے کیا حکمت عملی رکھتے ہیں؟ اہم قومی امور پر ان کی رائے کیا ہے؟ اس طرح کے ڈھیروں سوالات ہیں لیکن جواب نہیں ہے۔

آئے روز قومی سیاسی منظر نامے میں ایسے سوالات کھڑے ہوتے ہیں جن کا تعلق سارے سماج سے ہوتا ہے۔ ان معاملات میں حکمران جماعت اور حزب اختلاف کا موقف تو ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا موقف کیا ہے؟

جماعت اسلامی میں مولانا ہدایت الرحمن ہیں، حافظ نعیم الرحمن ہیں، سینیٹر مشتاق احمد ہیں، اگر یہ اپنی کارکردگی سے قومی سیاست پر اپنے نقش چھوڑ سکتے ہیں تو سراج الحق صاحب کیوں نہیں بروئے کار آ سکتے؟ تصورکیجیے حافظ نعیم الرحمن کا مینڈیٹ چوری ہوتا اور وہ تحریک انصاف کے ہوتے یا مولوی ہدایت الرحمن گرفتار ہوتے اور ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہوتا کیا تب بھی قیادت ایسے ہی لاتعلق رہتی یا برائے وزن بیت رسمی سے دو چار بیانات دے کر سرخرو ہو جاتی؟

سراج الحق صاحب کا نیم فعال ہونا یا غیر فعال ہونا اب کسی مزید دلیل کا محتاج نہیں، یہ نوشتہ دیوار کی صورت سامنے رکھا ہے۔ سوال اب اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ یہ اہلیت کا بحران ہے یا یہ حکمت عملی ہے؟

کوئی اور ہوتا تو بدگمانی کی جا سکتی ہے کہ کوئی ان دیکھی مجبوری اس کے قدموں سے لپٹ گئی ہے۔ کوئی آ ڈیو، کوئی ویڈیو، کوئی مالی سیکنڈل۔ لیکن سراج الحق صاحب کے بارے میں ایسی بدگمانی قائم نہیں کی جا سکتی۔ کوئی کرے گا تو اس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ بندہ اپنی ہی نظروں سے گر جائے۔ سوال یہ ہے کہ پھر مسئلہ کہاں ہے؟

یہی سراج الحق تھے، اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلی کے طور پر ان کا کردار بہت متحرک تھا۔ حیرت یہ ہے کہ بطور ناظم اعلی وہ جتنے متحرک تھے بطور امیر جماعت اسلامی وہ اتنے ہی ہومیو پیتھک ہو چکے ہیں۔ کبھی کبھی تو وہ جماعت اسلامی کے گوربا چوف لگتے ہیں۔ کیا یہ ان کی اپنی فیصلہ سازی ہے یا جماعت اسلامی(لاہوری گروپ)کے آگے وہ بے بس ہو چکے ہیں؟

عامر خاکوانی لاہور میں بیٹھے ہیں، اس سوال کا بہتر جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ ہم تو دور ہیں یہی سوچ سوچ کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ کبھی تو لاہوری گروپ کے اکابرین ریٹائر ہو ہی جائیں گے۔ کبھی تو نیا خون سامنے آ ئے گا۔ (یاد رہے کہ یہ نئے خون کی بات ہو رہی ہے، لاہوری قیادت کے خانوادے کے چشم و چراغوں کی نہیں۔)

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran