خدا ان کی قبر منور کرے، سعود ساحر بھی چل دیے۔ جس نسل کا صحافت سے تعارف الیکٹرانک میڈیا کی چکا چوند سے ہوا ان کی بات الگ ہے لیکن قلم سے جنہیں واسطہ رہا وہ خوب جانتے ہیں یہ کون دلاور تھا جو قبیلے سے اٹھ گیا۔
سعود ساحر کو جن لوگوں نے پڑھ رکھا ہے انہیں معلوم ہے وہ واقعی ساحر تھا۔ ایک وقت تھا جو سعود ساحر کا وقت تھا۔ میرے جیسے طالب علم وفور شوق میں ان کی تحریر پڑھا کرتے۔ جب وہ برہم ہوتے ان کی تحریر کا حسن بڑھ جاتا۔ وہ جتنے برہم ہوتے تحریر اتنی ہی دل بستہ ہوتی چلی جاتی۔ لکھنے سے پہلے، جن دنوں میں ابھی پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا، سعود ساحر اپنے عروج پر تھے۔ کسی بہشت ِ شمائل کی مانند ان کی تحریر ہم طالب علموں پر اترا کرتی تھی۔
اسلوب میں اتنی وضع دارانہ کاٹ تھی آدمی حیران رہ جائے۔ مجھے آج بھی کتنے ہی فقرے یاد ہیں۔ دہراتا ہوں اور لطف اٹھاتا ہوں۔ میرے عہد کے جتنے بڑے لکھاری تھے میں نے کسی سے راہ و رسم نہیں رکھی۔ ایک ان دیکھا سا فاصلہ بیچ میں حائل رہا۔ اپنی کم مائیگی ایک حجاب کی صورت حائل رہی اور کسی سے ہم کلام ہونے کا حوصلہ ہی نہیں ہوا۔ انہی سے تعلق خاطر بن پایا جنہوں نے پہل کی اور طالب علم کی حو صلہ افزائی کرتے ہوئے اس کی کم مائیگی کو آڑے نہیں آنے دیا۔
عدیم ہاشمی جس طرح ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کرنے والوں کو مکرنے نہیں دیتے، ایسے صاحبان وضع کو پھر اس طالب علم نے بھی کبھی لوٹنے نہیں دیا۔ سعود ساحر بھی ان ہی میں سے ایک تھے۔ ہمت بندھانے اور حوصلہ بڑھانے والے۔ اس روز صبح دم ہی فون بج اٹھا۔ کسی انجان نمبر سے کال تھی۔ نظر انداز کر دی۔ دو پہر کے قریب پھر اسی نمبر سے کال آئی۔ آصف صاحب میں سعود ساحر بول رہا ہوں۔
جی چاہا کہ میں فون ہولڈ پر رکھ کر بچپن کے سارے دوستوں کو سندیسہ بھیجوں کہ اے ساکنان کوچہ دلدار دیکھو تو کس کا فون آیاہے۔ یہ تکبیر والے سعود ساحر ہیں۔ کچھ حیرت میں اور کچھ احترام میں، میری خاموشی قدرے طویل ہو گئی۔ سعود ساحر کہنے لگے: آپ شاید مصروف ہیں، میں نے آپ کو صرف یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں۔
اب یہ ایک اور حیرت تھی۔ سنبھلتے سنبھلتے وقت لگا، عرض کی کہ جناب ہر گز مصروف ہوں اور مصروف ہوتا بھی تو سعود ساحر صاحب کا فون آنے کے بعد سب سے اہم مصروفیت آپ کی باتیں سننا ہیں۔ یوں ایک تعلق قائم ہوا اور آج رائیگانی کا دکھ چھوڑ گیا۔ جماعت اسلامی کے خلاف ایک دو بار لکھا تو سعود ساحر صاحب کا فون آ گیا۔ ایک بار بھٹو صاحب کے حق میں کچھ لکھا تو فون آ گیا۔
دونوں بار وہ مجھ سے متفق نہیں تھے۔ وہ سمجھاتے رہے اور میں جی جی کرتا گیا۔ یہاں تک کہ انہیں یقین ہو گیا یہ آئندہ ایسا کچھ نہیں لکھے گا۔ اتفاق دیکھیے چند ہی روز بعد میں نے اسلامی جمعیت طلبہ پر کچھ لکھ دیا۔ سعود ساحر صاحب کا پھر فون آ گیا۔ میں نے عرض کی: سر آج پھر میں نے کچھ غلط لکھ دیا ہے، آپ ڈانٹ سکتے ہیں۔
قہقہہ لگا کر کہنے لگے:نہیں آپ اپنی بات لکھتے رہیے۔ میں نے آج کچھ اور شیئر کرنے کے لیے فون کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہر آدمی کا اپنا عہد ہوتا ہے اور اپنے مشاہدات ہوتے ہیں۔
میں اپنے عہد کی بات کرتا ہوں لیکن آپ اپنے عہد کی بات لکھتے ہیں۔ جس طرح ہر آدمی کا اپنا عہد ہوتا ہیِ اسی طرح ہر آدمی کا اپنا ایک طاغوت ہوتا ہے۔ آپ کو بھٹو اچھا لگتا ہے لیکن وہ میرا طاغوت ہے۔ اور جو آپ کے طاغوت ہیں وہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ میں نے کہا پھر آپ ہی رہنمائی فرما دیں کیا کرنا چاہیے؟ کہنے لگے آپ اپنی بات لکھتے جائیں، میں اپنی بات کہتا جائوں گا۔ اتفاق ضروری نہیں۔ رابطہ ضروری ہے۔ دو تین مرتبہ وہ میرے ٹاک شو میں بھی تشریف لائے۔ آخری مرتبہ آئے تو محسوس ہو رہا تھا وقت اپنی چال چل گیا ہے۔ میں نے ہنس کر کہا ساحر صاحب اب آپ مستند بزرگ ہو گئے ہیں۔ معصومیت سے کہنے لگے: وقت کی بات ہے۔
پھر جیسے کچھ یاد آ گیا ہو، انگشت شہادت سے مجھے متوجہ کیا اور اپنے فقرے کی گویا اصلاح کرتے ہوئے کہا: وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے۔ یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی اور یہ میرا ان سے آخری مکالمہ تھا۔ ان کی رحلت کی خبر سنی تو ممتاز راشد یاد آگئے:
وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں
وقت ہی نہ رہا، وقت کی بات ہے
سعود ساحر درویش کی شمشیر تھے۔ غرض اور طمع سے پاک۔ جو محسوس کیا، لکھ ڈالا اور پوری جرات سے لکھ ڈالا۔ ان کی بریکنگ نیوز سچ میں بریکنگ نیوزہوتی تھی اور ان کا تجزیہ حقیقت میں تجزیہ ہوتا تھا۔ نہ خواہشات کا دیوان نہ نفرت کا مجموعہ۔ آج کل تو یہ عالم ہے کہ نام لیجیے اور گلی محلے کا آدمی آپ کو بتا دے گا کس کا تجزیہ کس کی پریس ریلیز ہوگی۔
شاید یہ بھی وقت وقت کی بات ہو۔ وہ ایک وضع دار اور کشادہ دل آدمی تھے۔ دوسروں کی کامیابیوں پر خوش ہونے والے۔ دوست، رفیق اور خیر خواہ۔ پریس کلب اسلام آباد کا سرنگوں پرچم اس بات کی علامت ہے کہ سعود ساحر اس قبیلے کا فخر تھے اور قبیلہ ان کا سوگ منا رہا ہے۔ درو دیوار پر اداسی ہے۔ بچھڑنے والا کوئی معمولی آدمی بھی تو نہیں تھا۔ وہ قبیلے کا دلاور تھا۔
قبیلہ اس پر فخر کر سکتا ہے۔
خدا اس کی قبر کو منور فرمائے۔