فرض کریں آپ کو کوئی طاقتور شخص کسی جھوٹے مقدمے میں ملوث کر دے، کسی چوراہے پر پولیس اہلکار آپ کو پکڑے اور آپ پر دو کلو ہیروئن ڈال دے، کوئی نو سر باز جعلی کاغذات تیار کر کے آپ کی جائیداد پر قبضہ کر لے اور قبضہ نہ کر سکے تو اس کا دعوایدار بن بیٹھے، دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا آپ کو یقین ہے ان تمام صورتوں میں آپ کی عمر، آپ کی جوانی، آپ کا وقت اور آپ کی معیشت برباد ہوئے بغیر آپ کو سستا اور فوری انصاف مل جائے گا؟ اگر اس کا سوال نفی میں ہے تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ کیا وجہ ہے یہ المیہ ہمارے ہاں سنجیدہ غوروفکر میں نہیں ڈھل سکا؟ پاکستان میں جو نظام تعزیر رائج ہے، اس کی بنیاد ہی خراب ہے۔ یہ بنیاد کیا ہے اسے اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برطانیہ نے یہاں ایک نیا قانونی ڈھانچہ وضع کیا۔ ہمارا فوجداری کا پورا نظام 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد اس سوچ کے تحت قائم کیا گیا کہ آئندہ یہاں کوئی سر نہ اٹھا سکے۔ اس کا مقصد لوگوں کو انصاف فراہم کرنا نہیں تھا، اس کا مقصد لوگوں کو غلام بنا کر رکھنا تھا تا کہ وہ پھر کبھی بغاوت کا سوچیں بھی نہیں۔ چنانچہ ایک ایسا قانونی شکنجہ تشکیل دیا گیا جو لوگوں کو عبرت بناسکے اور سبق سکھاسکے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہم آج تک اسی ڈھانچے کو سینے سے لگا کر چل رہے ہیں۔
ہمارا پولیس کا سارا ڈھانچہ آج بھی وہی ہے جو ملکہ وکٹوریہ نے جنگ آزادی کے بعد چار سال غور و فکر کے بعد 1861ء میں قائم کیا تھا تا کہ آئندہ یہاں کی رعایا میں گستاخی کا خیال بھی پیدا نہ ہو۔ ملکہ وکٹوریہ چلی گئیں مقامی جاگیرداروں اور طاقتور لوگوں نے ان کی جگہ لے لی۔ پولیس کا کام وہی رہا۔ ہمارے نظام تعزیر کی بنیاد تعزیرات پاکستان ہے۔ کبھی اسے اٹھا کر دیکھیے یہ کون سا قانون ہے اور کب بنا؟ یہ وہی قانون ہے جو 1861ء میں ملکہ وکٹوریہ نے بنایا تھا۔ ہم نے تعزیرات ہند کو تعزیرات پاکستان بنا دیا، اندر قوانین وہی ہیں جو 159سال پہلے برطانیہ نے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے وضع کیے تھے۔ پاکستان کو قائم ہوئے 73 سال ہوئے ہیں لیکن ضابطہ مجموعہ فوجداری 121سال پرانا ہے۔ ہم نے نیا قانونی ڈھانچہ بنانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ صدیوں پرانے قوانین کے اندر ہم پیوند کاری کر کے کام چلا رہے ہیں۔ پانی کے اندر مدھانی اب چاہے آپ سو سال مزید چلاتے رہیں، نتیجہ کچھ نہیں نکلنا۔ جن مروجہ فوجداری ڈھانچے کا مقصد ہی انصاف کی بجائے استحصال ہے تو اس سے آپ کیا خیر برآمد کر سکتے ہیں؟ قانون کے بارے میں ایک بنیادی اصول ہے کہ " قانون سے لاعلمی کوئی عذر نہیں "۔ یعنی کوئی شخص جرم کرتے ہوئے پکڑا جائے تو وہ اپنے دفاع میں یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ اسے اس قانون کا علم نہیں تھا۔ قانون کے بارے میں یہی سمجھا جائے گا کہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کا علم ہے۔ اب تماشا یہ ہے کہ ملک میں شرح خواندگی ساٹھ فیصدسے کچھ زیادہ ہے ( شرح خواندگی کا فارمولا بھی یہ ہے کہ جسے نام لکھنا پڑھنا آتا ہے وہ خواندہ ہے)، ملک کی قومی زبان اردو ہے لیکن ملک کا قانون انگریزی میں ہے۔ یہ اتنا پیچیدہ قانون ہے کہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ انسان کے لیے اسے پڑھ کر سمجھنا ممکن ہی نہیں کہ کہا کیا جا رہا ہے۔ آئین میں ملک کی قومی زبان اردو قرار دی گئی ہے لیکن آئین انگریزی میں ہے۔ خلق خدا کی اکثریت کو اپنا آئین پڑھنا ہی نہیں آتا اور جسے پڑھنا آتا ہے وہ سمجھنے سے قاصر ہے۔
وکیل بھی پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں، اور اکثریت کی انگریزی میری جیسی ہے، سنیں تو گمان ہوتا ہے جیفری چاسر Canterbury tales کے بعد اب Wonderland of Jurisprudence بیان فرما رہے ہیں، فاضل جج صاحبان بھی پاکستانی ہیں لیکن عدالت میں ساری گفتگو انگریزی زبان میں ہو رہی ہے۔ سارا کیس لاء انگریزی میں ہے، تمام بائی لاز انگریزی میں تیار ہوتے ہیں، عام سائل ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے اس کی جانے بلا بحث کیا ہو رہی اور کس نکتے پر ہو رہی ہے۔ وہ بے چارے اسی بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ وکیل صاحب بہت اونچا بولے اور بہت بولے۔ بس کمال ہی کر دیا۔
جب جنگ آزادی ناکام ہوئی تو یہاں اس خطے میں کون سی زبان بولی اور سمجھی جاتی تھی؟ فارسی، ہندی، اردو اور مقامی زبانیں، لیکن ملکہ وکٹوریا نے نظام قانون انگریزی زبان میں بنا کر مسلط کر دیا۔ یہ شہریوں کے لیے بنایا گیا قانون نہیں تھا۔ یہ غلاموں کے لیے بنایا گیا قانون تھا جسے غلاموں کے مسائل سے کوئی غرض نہیں تھی۔ یہاں کی زبان اور، یہاں کے مسائل اور، یہاں کی زمینی حقیقتیں مختلف لیکن یہاں ایک ایسا قانون مسلط کر دیا گیا جو یہاں انصاف کی فراہمی کے لیے بالکل غیر موزوں تھا۔ لیکن انصاف تو مقصد ہی نہ تھا۔ مقصد تو غلام اور محکوم کو دبا کر رکھنا تھا۔ اس واردات کو سمجھنے میں دو کتابیں بہت اہم ہیں اور دونوں کتابیں ہندوستان میں تعینات برطانوی ججز نے لکھیں۔ ایک کا نام ہے Injustice in India اور دوسری کا نام ہے Strangers in India، دونوں کتابوں میں جج حضرات شکوہ کناں ہیں کہ یہ قانونی ڈھانچہ یہاں کے لیے سازگار ہی نہیں، ایک نے تو لکھا کہ دنیا کی بڑی بڑی جنگوں میں اتنے ظلم نہیں ہوں گے جتنے ظلم ہندوستان میں اس قانون کے تحت قائم عدالتوں میں ہوں گے۔ ایک نے لکھا ہم انگریزوں نے مذاق کیا ہے، وڈیروں کے نیم خواندہ اور جاہل اہل خانہ کو یہاں مجسٹریٹ لگا رکھا ہے۔ پھر ایک جج دوسرے کو مشورہ دیتا ہے کہ تم اپنا خون نہ جلائو یہاں انصاف کی فراہمی کسی کا مقصد ہی نہیں، یہاں جیسا ہو رہا ہے بس تم بھی ویسا کرتے جائو۔ ہمارے ہاں تو کسی نے آج تک اپنے نظام تعزیر کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی لیکن کیا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ ان دونوں کتابوں کو ایل ایل بی کے نصاب کا حصہ بنا دیں۔ پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس پر اس غریب قوم کے قریبا چار سو لاکھ خرچ ہوتے ہیں، کیا معزز اراکین پارلیمان کو کچھ خبر ہے نظام تعزیر میں اصلاحات کی کتنی شدید ضرورت ہے؟