ہمارے شاعروں کو کیا ہو گیا ہے، یہ سا ون کے گیت کیوں نہیں لکھتے۔ سرُ اور سنگیت پر یہ کیسی خزاں اتری ہے، کوئی ساون کا گیت نہیں گا رہا؟
مارگلہ میں ان دنوں برسات خیمہ زن ہے۔ ہوا شاخوں سے اٹکھیلیاں کرتی پھر رہی ہے، اوپر پہاڑوں پر بادل درختوں سے یوں لپٹے ہیں جیسے صبح دم مائوں نے کاتی ہوئی روئی ٹہنیوں سے لٹکا رکھی ہو، مینہ سے بھیگے درختوں نے پتے گرائے ہیں نہ کسی پرندے نے اس رم جھم سے گریز کیا ہے۔ پگڈنڈیوں پر سبز قالین بچھے ہیں اور جنگل کی بنیادوں میں نمی سے کائی پھوٹ پڑی ہے۔ یہ موسم تو پتوں کو بھی گیت بنا دیتا ہے اس رُت میں، پھر ہمارے شاعر کیوں خاموش ہیں اور ہمارے سنگیت کو کیوں چپ لگی ہے؟
معلوم نہیں یہ محض ایک ادبی المیہ ہے اور ہمارے شاعر اور ادیب موسموں کی کروٹ سے بے نیاز ہو چکے ہیں یا یہ ایک تہذیبی المیہ ہے اورپورا سماج ہی نظام فطرت سے دور ہو چکا ہے۔ اے سی اور ہیٹر لگے ڈربوں میں ہم بند ہیں اور گھڑیاں ہمیں سلاتی اور جگاتی ہیں۔ اب کسی کو معلوم نہیں چاندنی رات کیا ہوتی ہے اور تاروں کی لو کسے کہتے ہیں۔ کسی کو خبر نہیں طلوع آفتاب میں کیسی سکینت ہوتی ہے اور غروب آفتاب کا منظر کیسا ہوتا ہے۔ کسی کے پاس ووقت نہیں وہ بیٹھ کر دیکھے کہ گھٹائیں کیسے امڈ امڈ کر آتی ہیں اور تیز ہواپرندوں کو کیسے کٹی پتنگ کی طرح لیے پھرتی ہے۔ موسموں کی قوس قزح سے محروم لوگ سارا سال ڈربوں میں گزار دیتے ہیں۔ ہمارے لباس تک موسموں کے تنوع سے محروم ہو چکے ہیں۔ جون ہو یا دسمبر، ہمارا ایک ہی پیرہن ہے۔ ہمارا سب کچھ مصنوعی ہو چکا ہے۔ ایسے میں ساون کے گیت کون لکھے اور کون گنگنائے؟
بھلے وقتوں کا معاملہ البتہ الگ تھا۔ سماج موسموں سے بے نیاز نہیں تھا تو اس کے شعر و ادب میں بھی موسموں کا ذکر ملتا تھا۔ گرمیوں میں لُو کے دو ماہ کے بعد جب ساون آتا تھا تو من کی دنیا میں پھول کھل اٹھتے تھے۔ اس کیفیت کا اظہار ان زمانوں کے گیتوں میں بھی ملتاہے۔ یہ 1956 کی بات ہے۔ ساون رت میں قتیل شفائی نے گیت لگھا اور نور جہاں نے اسے امر کر دیا۔ " ساون کی گنگھور گھٹائو، برس برس مجھے مت رلائو"۔
ایسا ہی گیت تھا، یہ پچاس کی دہائی کی کسی فلم کی بات ہے۔ "امبوا کی ڈالیوں پہ جھولنا جھلا جا، اب کے ساون تو سجن گھر آ جا"۔ اسلام آباد میں جب برسات آتی ہے تو ایف ایم ریڈیو سٹیشن ان گیتوں کو یاد دلا دیتے ہیں۔ ٹریل پر اگلے روز زوروں کا مینہ برسا تو گاڑی کے ریڈیو سے سرگم پھوٹ پڑے"رم جھم رم جھم پڑے پھوار، تیرا میرا نت کا پیار"۔
اور استاد مہدی حسن خان صاحب نے تو جادو سا جگاتی ہوئی اپنی آواز میں ساون کو ایسے امر کیا کہ کمال کر دیا:
کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنا
بھیگے ہوئے موسم کا مزہ کیوں نہیں لیتے
یہ رات یہ برسات یہ ساون کا مہینہ
ایسے میں تو شعلوں کو بھی آتا ہے پسینہ
اس رت میں غریبوں کی دعا کیوں نہیں لیتے
بھیگے ہوئے موسم کا مزہ کیوں لیتے
محبتوں کے معاملے میں خوش قسمت رہا ہوں شاید اسی لیے شاعروں کا یہ التجائیہ اور بھیک مانگنے والا انداز کبھی بھی پسند نہیں رہا۔ محبت پورے وقار سے ہونی چاہیے۔ ہمارے اردو شاعروں کی طرح بھکاریوں کی طرح دست سوال دراز کرنا محبت نہیں ہے۔ چنانچہ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ مصرعے کسی اور انداز سے لکھے گئے ہوتے تو مہدی حسن صاحب کی آواز کیا قیامت ڈھا دیتی۔ ادب میں البتہ آپ کے پاس ولنگ سسپنشن آف ڈس بیلیف، بھی تو ہے، پھر شاعری بھی ساون بھی ہے اور آواز بھی شاہ غزل کی۔ ندی کنارے بیٹھ کر سنتا ہوں تو تو سنتا ہی چلا جاتا ہوں۔
پھر اخلاق احمد کی خوبصورت آواز میں " ساون آئے ساون جائے، تجھ کو پکاریں گیت ہمارے "۔ اس گیت کے بول ہی نہیں، اس کی موسیقی بھی ساون جیسی ہے۔ سنتے جائیے اور بھیگتے چلے جائیے۔
ساون کے گیتوں کی ایک مالا ہے جو پچاس سے اسی کی دہائی میں پروئی گئی۔ برسات کا موسم ہے سجن دور نہ جائو، ہم رہے پیاسے کے پیاسے لاکھ ساون آ گئے۔ کس کس کو یاد کریں؟ اور پھر نور جہاں کا گانا:
کچھ دیر تو رک جائو برسات کے بہانے
کر لیں گے چار باتیں اک بات کے بہانے
یہ گنگناتی گھڑیاں پھر آئیں یا نہ آئیں
ایسا نہ ہو گھٹائیں ساون کی لوٹ جائیں
رہتے نہین ہمیشہ، ساجن سمے سہانے
کچھ دیر تو رک جائو برسات کے بہانے
قیام پاکستان سے دو سال پہلے ریلیز ہونے والی فلم رتن کا ایک گیت تھا " ساون کے بادلو، ان سے یہ جا کہو"۔ ناہید اختر آواز دیتی تھی ساون کے دن آئے، اور لتا اور مکیش مل کر گاتے تھے ساون کا مہینہ، پون کرے شور۔ ایسے ساون برستا تھا، پیار کرنے والے معیشت کو بھول جاتے تھے اور سندیسہ بھجواتے تھے کہ " تیری دو ٹکیاں دی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے"۔ معلوم نہیں یہ گانا کس کا تھا لیکن ساون کو اداس کر جاتا تھا"اب کے برس نہ ساون برسے، اب کے برس تو برسیں گی اکھیاں "۔
لیکن یہ سب قصہ ماضی ہو چکا۔ یہ ان وقتوں کی کہانی ہے جب لوگوں کو موسموں کی خبر ہوتی تھی۔ اب سبھی ڈربوں میں بند ہیں اور موسموں سے اجنبی۔ اب کس کو پرواہ ہے ساون کے آنے یا جانے کی۔ ایک المیہ ہے جو دنیائے سخن ہی کو نہیں پورے سماج کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔
مارگلہ میں رہنے والوں کے لیے البتہ ساون کا موسم کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ جنگل نکھر جاتا ہے، پہاڑ دھل جاتے ہیں، ندیاں پھوٹ پڑتیہیں، روش روش پر پھول کھل اٹھتے ہیں، راستے سبزے سے بھر جاتے ہیں، جو گھاس سارا سال قدموں تلے روندی جاتی ہے ساون کے چند دنوں میں سر سے اونچی ہو جاتی ہے، راستے گیت سناتے ہیں، تتلیاں سرگوشیاں کرتی ہیں، شام اترتی ہے تو پگڈنڈیوں پر جگنو اتر آتے ہیں، ہوا کا جھونکا بدن سے لپٹتا ہے تو خوشبو بن جاتا ہے۔
مارگلہ کا ساون بہار سے بھی حسین ہے۔ بہار میں پولن کا عذاب ہوتا ہے لیکن ساون کے ہمراہ کوئی آزار نہیں۔ یہ رازمگر ان پر کیسے کل سکتا ہے جو گھڑیاں دیکھ کر زندہ ہیں اور جنہیں اپنے ڈربوں میں موسموں کی کوئی خبر نہیں۔ معاشرہ تو مادیت کی لپیٹ میں آ گیا۔ سواال یہ کہ ہمارے شاعروں کو کیا ہو گیا ہے، یہ سا ون کے گیت کیوں نہیں لکھتے۔ سرُ اور سنگیت پر یہ کیسی خزاں اتری ہے، کوئی ساون کا گیت نہیں گا رہا؟