ٓٓشفاء یونیورسٹی میں سیرت چیئر، کی افتتاحی تقریب تھی، برادر محترم ڈاکٹر محمد مشتاق کی دعوت پر وہاں حاضر ہوا تو پہلا تاثر ہی دل کی دنیا آسودہ کر گیا۔ سرکار دو جہاں ﷺ سے جس تقریب کو نسبت ہو، بلا شبہ، اس کا ہتمام ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اہل علم میں سے ڈاکٹر محمدمشتاق، جج صاحبان میں سے جسٹس قاضی فائز عیسی، پارلیمان سے سینیٹر مشتاق احمد، اساتذہ میں سے ڈاکٹر عزیز الرحمان اور عطا اللہ وٹو، قانون دانوں اور دوستوں سے جناب زاہد محمود راجہ اور برادرم مراد علی اور بزم دل کے مہمانوں میں سے ترکیہ کے سفیر مہمت پاشا جی، ہر شعبے کا بہترین آدمی اس محفل ادب میں حاضر تھا۔ اہل علم کی ایک کہکشاں تھی جو اس با برکت محفل میں شریک تھی۔
سیرت کوئی عام موضوع نہیں، یہ عشق اور ادب کا آبگینہ ہے۔ برصغیر میں تو عالم یہ ہے کہ سرکار دو جہاں ﷺ کا نام لب پر آتا ہے تو پلکوں میں حد ادب سے برسات آ جاتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کیا ہمارے فہم کا عالم بھی وہی ہے جو ہمارے عشق کا ہے؟ کیا ہم نے سیرت کا مطالعہ اس طرح کیا ہے جیسے کرنے کا حق ہے؟
چند برس ہوتے ہیں، گھر میں گفتگو ہو رہی تھی کہ اس قوم کی اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سماجیات کے نام سے نصاب میں ایک مضمون متعارف کرایا جانا چاہیے جسے اہل علم بیٹھ کر مرتب کریں۔ اہلیہ کہنے لگیں : سیرت کے ہوتے ہوئے کسی مضمون کو مرتب کرنے کی کیا ضرورت؟ بس اتنا کیجیے کہ ایک نسل کو سیرت اس طرح پڑھا دیجیے، جس طرح پڑھانے کا حق ہے، پورا سماج تبدیل ہو جائے گا۔ سیرت کو ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر پہلی جماعت سے پڑھاجائے اور یہ اہتمام ہو کہ بچہ جب تعلیم مکمل کر کے نکلے تو سیرت طیبہ کا ایک ایک پہلو اس کے سامنے ہو۔ عشق کے ساتھ جب آگہی آئے گی تو معاشرے کی ہیئت ہی بدل جائے گی۔
تو کیا آپ کے خیال میں مسلمان سماج کو سیرت کا مکمل علم نہیں ہے؟ جی میرا یہی خیال ہے۔ ہمارا علم بس واجبی سا ہے۔ بات ایسی تھی دل میں ترازو ہوگئی۔ کانسٹنٹ ورجل جارجیو کی کتاب"محمد ﷺ، دی پرافٹ آف اسلام" نہ پڑھ رکھی ہوتی تو میں شاید میں بحث کرتا اور کہتا کہ ہمارا مسلم سماج سیرت طیبہ کے ہر گوشے سے الحمد للہ واقف ہے۔ لیکن ایک غیر مسلم کی لکھی اس کتاب کے ایک ایک صفحے نے میرا دامن پکڑ کر یہی سوال پوچھا تھا سچ بتائو کیا تم پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت کے اس گوشے سے واقف تھے اور میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے ندامت کے احساس کے ساتھ نفی میں جواب دیتا آگے بڑھتا رہا۔
کتاب ختم ہوئی تو رحمت دوجہاں ﷺ کی سیرت کا ایک اور ہی پہلو میرے سامنے تھا۔ ایک مسلمان کے دل میں رسالت مآب ﷺ سے زیادہ احترام اور محبت اور کس کا ہو سکتا ہے۔ میرے دل کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا لیکن اس کتاب نے اس احترام اور اس محبت کو ایسے عنوانات دے دیے جن سے میں پہلے واقف نہ تھا۔
مسلم معاشرے میں ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوا، مذہب سے لگائو بھی تھا، فقہ بھی دلچسپی سی پڑھی لیکن یہ کانسٹنٹ ورجل جارجیو کی کتاب تھی جس میں متعدد مقامات پر آدمی کتاب بند کر کے سوچتا ہے کہ اچھا تو فلاں واقعہ کا پس منظر یہ تھا۔ لکھنے والا غیر مسلم ہے لیکن اس نے ایک شاہکار تخلیق کر دیا ہے۔
یہ کتاب آپ کا ہاتھ پکڑ کے گویا آپ کو مکہ کے صحرامیں کہیں لے جاتی ہے اور اس عہد کے واقعات کو اس عہد کے سیاق و سباق میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ حجاب اٹھ رہے ہوتے ہیں اور گرہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ بہت سے واقعات جو ہم تفسیر کی کتابوں میں بچپن سے پڑھتے سنتے چلے آئے ہیں ایسی تفہیم کے ساتھ بندے پر آشکار ہوتے ہیں کہ ضبط کا بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔ اللہ کے بندے نے سیرت پاک کا ایسا سماجی مطالعہ کیا ہے کہ دل کے تار ہلا دیے ہیں۔
ایک مسلمان نسل کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے، اس کے نبی ﷺ کی سیرت کیا ہے۔ وہ بچے تھے تو کن حالات سے گزرے، سماج کی تربیت کی تو کن اصولوں پر کی، امور ریاست کو دیکھا تو کیسے دیکھا۔ گھر کے معاملات کو دیکھا تو کس طرح، سماج سے معاملات کیے تو کیسے کیے، تجارت کی تو کن اصولوں کے ساتھ کی۔ مشکلیں آئیں تو رویہ کیا رہا اور کشادگی آئی تو رویہ کیسا تھا۔ ایک دفعہ اسوہ حسنہ کو کھول کر بچوں کے سامنے رکھ دیجیے، پھر دیکھیے نئی نسل اس سے کیا اثرات حاصل کرتی ہے۔ ایک پوری نسل کی تربیت کا اس سے جامع، اس سے حسین اور اس سے موثر طریقہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ بس اتنا سا اہتمام کر دیجیے کہ دسویں جماعت پاس کرنے والے بچے کو یہ معلوم ہو کہ سیرت طیبہ کیا تھی اور یہ معلومات اس کو پورے واقعاتی سیاق و سباق کے ساتھ ہوں۔ نتائج آپ کو حیران کر دیں گے۔ اگلے دس سالوں میں ایک ایسی نسل سامنے آئے گی جو ہم سے یکسر مختلف ہوگی۔
شفاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر بتا رہے تھے کہ انہیں علامہ یوسف قرضاوی نے یہ مشورہ دیا تھا کہ یونیورسٹی میں ایک سیرت چیئر قائم کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ کام اب رسمی نہ ہو بلکہ پوری دل جمعی سے کیا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی ان چند لوگوں میں سے ہیں۔ خانہ دل میں جن کا احترام ہے۔ کسی صاحب منصب کی تعریف کرنا دنیا کے نا معقول ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ منصب نہیں رہتا تو معلوم ہوتادستار میں سر تو تھا ہی نہیں۔ لیکن قاضی فائز عیسی کا معاملہ الگ ہے۔ ان کے بارے میں آخری رائے البتہ اس وقت ہی قائم ہوگی جب وہ اپنے منصب سے الگ ہو جائیں گے اور ان کا نامہ اعمال وقت کی عدالت میں رکھا ہوگا۔ ہماری دعا ہے کہ وہ کل وقت کی عدالت میں ایسے ہی سرخرو ہوں، جیسے آ ج ہیں۔
انشاء اللہ، جلد ہی وہ پاکستان کے چیف جسٹس ہوں گے۔ کیا ہم ان سے یہ درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ نہ صرف بیوروکریسی اور جج صاحبان کے لئے بلکہ ہر سطح پر یہ اہتمام کروا دیں کہ سیرت کو پڑھا جائے اور اس طرح پڑھا جائے جیسا اس کو پڑھنے کا حق ہے۔ دلوں پر مہر نہ لگ چکی ہوئی تو کتنے ہی دل بدل جائیں گے۔ ہمارے عدالتی فیصلوں میں خلیل جبران سے لے کر جارج مارشل تک کے حوالے تو ملتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہمارے عدالتی فیصلوں کی پوری تاریخ میں سیرت طیبہ کے کتنے حوالے موجود ہیں؟ چند ہی فیصلے ہیں، جو جسٹس قاضی فائز عیسی نے لکھ رکھے ہیں۔
شفاء یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر منظور الحق قاضی، وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اقبال خان، سیرت چیئر کے مسند نشیں ڈاکٹر عالم خان اور شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر محمد مشتاق مبارک کے مستحق ہیں۔ یہ خوش گمانی بھی اس مبارک کے ہمراہ ہے کہ سیرت چیئر ایک رسمی سا ادارہ نہیں ہوگا بلکہ اسے اس کی پوری معنویت کے ساتھ استوار کیا جائے گا۔