Wednesday, 27 November 2024
  1. Home/
  2. Asif Mehmood/
  3. Seerat Ul Nabi Ko Bator Mazmoon Parhana Hoga

Seerat Ul Nabi Ko Bator Mazmoon Parhana Hoga

سماج کی برائیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور اہل درد پریشان ہیں کہ حل کیا ہے؟ اس موقع پر ایک طالب علم کے طور پر مکرر عرض ہے کہ سیرت کو باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کیا جائے۔ آپ کے سماج کے بہت سارے فکری، نظری اور عملی مسائل کا یہ حل ثابت ہو گا۔

ہم مسلمان ہیں، اسلامی ملک میں رہ رہے ہیں اور سماج میں اسلام سے وابستگی کا عنصر نمایاں ہے لیکن اس کے باوجود سچ یہ ہے کہ ہم نے سیرت النبی ﷺ کا اس طرح مطالعہ نہیں کیا جیسے کرنے کا حق تھا۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ سیرت کے باب میں ہمارا علم کمزور ہے لیکن مجھے اس تشنگی کا احساس ضرور ہے کہ یہ علم جیسے ہونا چاہیے ویسے نہیں ہے۔ نصاب میں ہمیں کچھ پڑھایا تو جاتا ہے لیکن یہ ایسے نہیں پڑھایا جاتا جیسے اسے پڑھائے جانے کا حق ہو۔ آپ کانسٹنٹ ورجل جیورجیو کی کتاب " پیغمبر اسلام " پڑھ لیجیے آپ کی تشنگی بھی بڑھ جائے گی اور آپ میری بات سے اتفاق بھی کریں گے۔

گذشتہ سال میں نے انہی سطور میں یہی درخواست کی تو غزالی سکول سسٹم کے برادرم عامر جعفری نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے سکولوں کی حد تک یہ مبارک کام کر گزریں گے۔ اگلے رو ز وہ اسلام آباد تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں وہ بنیادی کام کر چکے ہیں اور صاحبان علم کی رہنمائی میں ایک پلان ترتیب دیا جا چکا ہے کہ بچوں کو سیرت اس انداز سے اور اس ترتیب سے پڑھا دی جائے کہ جب وہ تعلیم مکمل کر کے کے نکلیں تو سیرت النبی ﷺ پوری ترتیب اور سارے سیاق و سباق کے ساتھ ان کے سامنے ہو۔ یہ اتنی مبارک خبر تھی کہ دل خوش ہو گیا۔ ہتھیلی پر اب یہ سوال دھرا ہے کہ کیا حکومت بھی سیرت کو بطور مضمون متعارف کرا سکتی ہے تا کہ بچہ جب تعلیم مکمل کر لے تو اسے پورے سیاق و سباق کے ساتھ علم ہو کہ سیرت النبی ﷺ کیا ہے۔

شہریوں کو دین کا کما حقہ علم دینا ویسے بھی آئین کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ ایسی سہولیات فراہم کرے کہ شہری قرآن و سنت کی روشنی میں زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ ہم اگر سیرت کا ایک مضمون متعارف کرا دیں اور بچوں کو ایک ترتیب کے ساتھ بتا دیں کہ نبی رحمت ﷺ کا بچپن کیسا تھا، معاملات زندگی کیسے تھے، گھریلو زندگی کیسی تھی، کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، طرز معاشرت کیا تھا، آداب زندگی کیا تھے، لین دین میں کیسے تھے، سماج میں کیسے وقت گزارا، جنگیں کیسے لڑیں، ، ریاست قائم کی تو اس کے خدوخال اور رہنما اصول کیا وضع کیے تو آپ یقین کیجیے اس سماج کے فکری اور نظری مسائل حل ہو جائیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسلامیات میں ایک دو باب پڑھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے بچوں کو سیرت پڑھا دی۔

ایسے نہیں۔ سیرت کو یوں پڑھائیے کہ وہ بچوں پر بیت جائے۔ سیرت کا ہر مرحلہ ان کے سامنے رکھ دیجیے۔ پھر دیکھیے کیسی نسل پروان چڑھتی ہے۔ ایک ایسی نسل جسے سیرت کے ہر گوشے کا پتا ہو اور زندگی کے ہر پہلو میں وہ انہی گوشوں سے رہنمائی کی طالب ہو۔ یہ نسل نہ صرف اللہ کا انعام ہو گی بلکہ ا س سماج کی تہذیب کا نقش اول بھی ہو گی۔ حکومت چاہے تو غزالی سکول کے اس پراجیکٹ سے استفادہ کر سکتی ہے ا ور چاہے تو خود ایک ایسا پراجیکٹ تیار کر سکتی ہے جو غزالی سمیت سب تعلیمی اداروں کے لیے رہنما ئی فراہم کر سکے۔

اگلے روز سوشل میڈیا پر محترمہ شہنیلہ بلگم والا نے بھی ایک ایسی ہی بات لکھ دی جس نے اس تشنگی میں مزید اضافہ کر دیا۔ وہ لکھتی ہیں:"اپنی وال پہ کسی بھی موضوع پہ لکھنا میرے لیے دشوار نہیں ہے سوائے نبی کریم ﷺ کے خانوادے اور ان کے صحابہ کرام اجمعین کے. مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ غلطی نہ ہوجائے.لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ میرا پسندیدہ ترین موضوع ہے۔ اگر اس پہ نہیں لکھتی تو تشنگی رہتی ہے۔

اکثر سوچتی ہوں کہ میرے اللہ نے نبی کریم ﷺ کے گھر میں بہترین خواتین جمع کی تھیں، ہم کیوں نہیں ان پہ لکھتے۔ وہ تو ہماری رول ماڈل ہیں۔ اللہ نے خود انہیں عام مسلمان عورتوں کے لیے رول ماڈل چنا ہے۔ امی خدیجہ رضی اللہ عنہا اور امی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پہ تو بہت لکھا گیا لیکن دیگر امہات المومنین پہ خال خال ہی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے۔ اس لیے مجھ گناہگار اور سیاہ کار نے سوچا ہے کہ امہات المومنین پہ ایک سیریز شروع کروں .۔ شاید نبی کریم ﷺ اس بات پہ مجھ پہ رحمت کی نظر فرما دیں اور اس سیاہ رو کو شفاعت نصیب ہوجائے. "۔

چنانچہ وہ اب ایک سیریز لکھ رہی ہیں۔ پہلا مضمون انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر لکھا ہے۔ یہ مضمون پڑھتے ہوئے میں یہی سوچتا رہا کہ ایک مسلمان ملک کی مسلمان خاتون نے جو تعلیم یافتہ بھی ہیں اور تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں، یہ تشنگی کیوں محسوس کی۔ یہ تشنگی اور اس کا اظہار کیا اس بات کا علان نہیں کہ ہم آئینی طور پر ایک اسلامی ریاست ضرور ہیں لیکن ہم نے تربیت کے مراحل میں ایک بڑا ہی خوفناک خلاء چھوڑ رکھا ہے۔

اس خلاء کو بھر دینے کا ایک ہی حل ہے۔ سیرت کو بطور لازمی مضمون متعارف کرائیے۔ ابتدائی کلاسز میں نبی رحمت ﷺ کا بچوں سے حسن سلوک پڑھایا جا سکتا ہے۔ پھر جوں جوں بچے بڑی کلاسز میں جاتے جائیں سیرت کے مضمون میں اس کے مطابق انتخاب پڑھایا جائے۔ یہاں تک کہ بچہ فارغ التحصیل ہونے تک معاشرت سے سیاست تک اور عدالت سے حکومت تک ہر چیز سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں پڑھ اور سمجھ چکا ہو۔

یہ ایک کام کر دیجیے۔ آپ کی اگلی نسل اس نسل سے بہتر اور شاندار ہو گی۔ کیا عمران خان یہ کام کر پائیں گے؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran