سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے کرکٹ میں شرمناک شکستوں کے بعد سینیٹ میں سوال پوچھا کہ چیئر مین پی سی بی کی اہلیت کیا ہے کہ انہیں کرکٹ بورڈ کی سربراہی دی گئی۔ جواب میں بتایا گیا کہ کرکٹ ان کا مشغلہ ہے۔ یعنی شغل ہی شغل میں کرکٹ کا حشر نشر کر دیا گیا۔ سینیٹر صاحب یہ جواب ایوان بالا میں لہراتے رہے اور پڑھ کر سناتے رہے اور پوچھتے رہے کہ یہ منصب ایک ایسے شخص کو کیسے دیا جا سکتا ہے جس کا کرکٹ سے کوئی لینا دینا ہی نہ ہو اور کرکٹ جس کا صرف مشغلہ ہو۔
سینیٹر صاحب کے سوال کے ساتھ ہی دیوار دل پر کئی سوالات ایک ساتھ دستک دینے لگے۔ مثال کے طور پر: نواز شریف صاحب کے دور میں کر کٹ بورڈ کا سربراہ بنائے جانے والے جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم کی کرکٹ کی قابلیت کیا تھی؟ وہ فاسٹ بائولر تھے یا بلے باز؟
پیپلز پارٹی نے جناب ذکاء اشرف کو پی سی بی کا چیئر مین بنایا تھا، کیا وہ زرعی ترقیاتی بنک میں بیٹھ کر ساری عمر گگلی کراتے رہے تھے اور دنیا میں ان کی اس مہارت کا ڈنکا بج رہا تھا کہ انہیں یہ منصب دیا گیا؟ تماشا دیکھیے کہ پیپلز پارٹی کو دوسری بار اقتدار میں حصہ ملا تو موصوف کو دوسری بار چیئر مین پی سی بی بنا دیا گیا۔ معلوم انسانی تاریخ میں مشغلے، کی بنیاد پر ایسی نوازشات کی مثال تلاش کرنا وطن عزیز کے علاوہ کہیں بھی ممکن نہیں۔
نجم سیٹھی صاحب کی کرکٹ کی مہارت کیا تھی؟ بلے باز تھے، بائولر تھے یا فیلڈنگ میں جانٹی روڈ کے استاد محترم کے درجے پر فائز تھے؟ ایک صحافی میں آخر وہ کیا خوبی تھی کہ اسے کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنا دیا جائے؟ نون لیگ کو حال ہی میں اقتدار ملا تو ساتھ ہی سیٹھی صاحب ایک بار پھر چیئر مین بنا دیے گئے۔ سوال وہی ہے، اہلیت کیا تھی اور میرٹ کیا تھا؟
شہر یار خان تو ایک سفارت کار تھے انہیں کرکٹ کی دنیا میں کون سے کارناموں کی وجہ سے پی سی بی کا سربراہ بنایا گیا؟ جنرل توقیر ضیاء صاحب کے دور میں ان کے صاحبزادے کی سلیکشن تو ہوگئی، اور پھر سربراہی ختم ہوتے ہی نونہال کا کیریر بھی ختم ہوگیا، صاحب زادے کہیں پی ایس ایل میں بھی نظر نہیں آتے لیکن اس سوال کا آج تک جواب نہیں سکا کہ خود توقیر ضیاء کا کرکٹ سے کیا تعلق تھا؟
ظفر الطاف صاحب بھی یہاں کرکٹ بورڈ کے سربراہ رہے۔ کیا کوئی صاحب بتا سکتے ہیں موصوف کے انتخاب کا میرٹ کیا تھا اور کرکٹ کے میدان میں ان کی مہارت کا عالم کیا تھا؟ کرکٹ سے موصوف کے تعلق کی نوعیت کیا تھی کہ صاحب کو اٹھاکر بورڈ کا سربراہ بنا دیا گیا۔
اعجاز بٹ کی کرکٹ کا وزن کتنے پائو تھا کہ انہیں چیئرمین بنا دیا گیا؟ انہوں نے مبلغ آٹھ ٹیسٹ کھیل رکھے تھے اور اپنے کیریئر میں پوری تین عدد وکٹیں لے رکھی تھیں۔ اس کارکردگی کے ساتھ تو وہ شاید آئی سی سی کے سربراہ بھی بن سکتے تھے یہ تو ان کی میانہ روی تھی کہ پی سی بی کے مال غنیمت پر ہی مطمئن ہو گئے اور زیادہ کی ہوس نہیں کی۔ سابق بیوروکریٹ خالد محمود کی کرکٹ کے لیے کیا خدمات تھیں کہ پی سی بی کے سربراہ بنا دیے گئے؟
سپین میں پاکستان کے سفیر رہنے والے سید ذوالفقار بخاری کا کرکٹ سے کیا اور کتنا تعلق تھا کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنا دیے گئے؟ جنرل زاہد علی اکبر، جنرل غلام صفدر بٹ، جنرل خواجہ محمد اظہر، اور ائیر مارشل نور خان صاحب کا کرکٹ ریکارڈ کیا رمیز راجہ سے شاندار تھا کہ وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنا دیے گئے؟
نواب آف ممدوٹ افتخارحسین خان کا کرکٹ ریکارڈ کیا تھا، جو وہ اس منصب پر بٹھا دیے گئے تھے؟ سندھ کے سابق وزیر اعلی عبد الستار پیرزادہ کا کیا استحقاق تھا کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بنائے جاتے؟ لاہور کے پہلے میئر میاں امین الدین کیا کرکٹر تھے کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ بن بیٹھے؟
پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے ساری زندگی کرکٹ کے کتنے میچ کھیلے تھے کہ بورڈ کے سربراہ بنا دیے گئے؟ صدر ایوب اور سکندر مرزا بھی کرکٹ بورڈ کے سربراہ رہے۔ کیا ہم جان سکتے ہیں ان کا میرٹ کیا تھا اور کرکٹ کی دنیا میں ان کی وہ کون سی گراں قدر خدمات تھیں کہ انہیں یہ منصب عطا کیا گیا؟
جسٹس کارنیلیس قانون اور انصاف کی دنیا کا بہت بڑا نام ہے لیکن سوال یہ ہے وہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کیسے بنا دیے گئے؟ حیرت ہے کہ وہ بن بھی گئے اورا زراہ مروت بھی یہ نہ کہا کہ بھائی لوگو میرا کرکٹ سے کیا تعلق کہ اس کا سربراہ بن بیٹھوں۔ سید فدا حسین اور اکرام احمد خان جیسے بیوروکریٹ کیسے کرکٹ بورڈ کے سربراہ بن گئے؟
2004 میں جب اولمپکس ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عارف حسن صاحب نے عہدہ سنبھالا تو وطن عزیز میں جمالی صاحب وزیر اعظم تھے۔ پھر شجاعت حسین آئے، شوکت عزیز آئے، میاں محمد سومرو آئے، یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف آئے، میر ہزار خان کھوسو آئے، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی آئے، ناصر الملک آئے، عمران خان آئے، شہباز شریف آئے اور اب نگرانوں کی حکومت ہے۔ یعنی اس عرصے میں 12 وزیر اعظم آ کر چلے گئے لیکن اولمپکس ایسوسی ایشن کے سربراہ استقامت سے اپنے منصب پر فائز رہے۔ یہ تو اب ان کی اپنی میا نہ روی ہے کہ بیس سال بعد وہ خود ہی اس منصب سے الگ ہو گئے ورنہ چاہتے تو اگلے بیس سال بھی کوئی انہیں منصب سے الگ نہ کر پاتا۔
اسی طرح کا ایک سوال یہ ہے کہ فیصل صالح حیات، میاں اظہر اور حافظ سلمان بٹ کا فٹ بال سے کیا تعلق تھا مگر وہ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے صدر رہے۔ یہی حال ہاکی کا ہے۔ راجہ غضنفر علی خان، مرحوم ظفر اللہ جمالی، خان عبد القیوم خان، نواب مشتاق گورمانی، نواب صادق حسین قریشی، جنرل موسیٰ، جنرل عزیز، ایئر مارشل فاروق فیروز، ایر مارشل عظیم دائود پوتا، ایئر وائس مارشل وقار عظیم، ایئر وائس مارشل فاروق عمر، برگیڈیر خالد، جنرل خواجہ اظہر جیسی شخصیات کاہاکی سے کیا تعلق تھا لیکن وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سربراہ کے منصب پر فائزرہیں۔
دکھ یہ ہے کہ یہ کہانی صرف کھیل کے میدانوں میں ختم نہیں ہوتی۔ قریب قریب ہر شعبے کا یہی حال ہے۔ ریاستی وسائل اورمناصب کو امانت کی بجائے مال غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ منصب ملتا ہے تو اسے ذمہ داری نہیں بلکہ مال مفت سمجھ لیا جاتا ہے۔
ایسے میں سینیٹر مشتاق احمد صاحب ایک چیئر مین پی سی بی کی اہلیت جاننے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ اگر پلٹ کر اپنے دائیں بائیں بیٹھے اراکین سینیٹ کی اہلیت کا سوال اٹھا لیتے تو معلوم ہو جاتا ہر طرف مشغلوں کی بنیادپر خلعت ہائے فاخرہ بانٹی جا رہی ہیں۔
معاشرے جب اس حال کو پہنچتے ہیں جس کو ہم پہنچ چکے تو یہ کوئی اتفاق یا حادثہ نہیں ہوتا۔ یہ نامہ اعمال ہوتا ہے جس کی تیرگی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔