شہباز شریف کا نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے خلاف اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران معزز عدالت نے چند سوالات اٹھائے۔ ان سوالات میں جہانِ معنی پوشیدہ ہے۔ آپ جس سوال پر جتنا غور کرتے چلے جائیں آپ حیرت کی دلدل میں اتنا ہی اترتے چلے جاتے ہیں۔ میں ایک طالب علم کے طور پر ان سوالات کو اہل علم کی خدمت میں پیش کر نے کی جسارت کر رہا ہوں اور ساتھ ہی دہائی دے رہا ہوں کہ کوئی ہے جو ان سوالات کا جواب دے سکے۔
لیکن ذرا ٹھہرے، بات آج سے نہیں 25 مئی کی سماعت سے شروع کرتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ سے شہباز شریف صاحب کا نام " بلیک لسٹ سے نکالنے " اور ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا اور اس روز اس کی سماعت تھی۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ" مسئلہ کسی کے ملک سے باہر جانے کا نہیں، مسئلہ عدالتی طریق کار کا ہے۔ جس رفتار سے عدالت لگی اس پر تشویش ہے۔ درخواست دائر ہوتے ہی سماعت کے لیے مقرر ہو گئی اور ہائی کورٹ نے فریقین کو نوٹس دیے بغیر فیصلہ دے دیا۔ جمعہ الوداع کے روز اعتراض لگے اور اسی دن دور بھی ہو گئے"۔۔۔۔۔۔۔ لیکن خیر اٹارنی جنرل کا کیا ہے وہ تو بہت کچھ کہتے رہتے ہیں۔ بات تو وہ ہے جو معزز سپریم کورٹ نے کہی۔ اس پر غور ہونا چاہیے۔ اور پارلیمان سے لے کر اہل علم و فکر سب کو اس پر غور کرناچاہیے۔
معزز عدالت نے یہ سن کر کہا کہ " حیرت ہے کہ ہائی کورٹ نے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ کیسے دے دیا"۔ میں ایک طالب علم کے طور پر یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس حیرت میں کوئی اور بھی شریک ہے؟ کوئی اہل علم، کوئی فقیہہ، کوئی اہل دانش و فکر؟ اور اگر کوئی اور بھی اس حیرت میں شریک ہے تو اس حیرتی کے پیش نظر کچھ اور سوالات بھی ہیں یا وہ صرف اپنی حیرت میں ہی غوطہ زن ہے؟
اٹارنی جنرل نے عرض کی کہ جناب والا شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ ان کا نام بلیک لسٹ میں تھا۔ وفاق کو سنا جاتا تو ہم بتا دیتے کہ نام بلیک لسٹ میں نہیں ای سی ایل میں تھا۔۔۔۔۔۔ اب میں بطور طالب علم یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ عدالت کو اس طرح کچھ بتا کر فیصلہ لیا جائے اور بتائی گئی بات بعد میں درست نہ نکلے تو یہ اسے معمول کی کارروائی سمجھا جانا چاہیے یا اس پر کوئی ایکشن لیا جانا چاہیے؟
سپریم کورٹ کے معز زجج جناب جسٹس اعجاز االاحسن نے ریمارکس دیے کہ "اتنی جلدی میں سارا کام کیسے ہو گیا؟ جب کہ درخواست اگر انتہائی ارجنٹ ہو تو اس پر چیف جسٹس کی باقاعدہ تحریر ہوتی ہے"۔ ایک معمولی سے طالب علم کے طور پر میں بھی یہ جاننا چاہتا ہوں کہ " آخر اتنی جلدی میں سارا کام کیسے ہو گیا؟ " کیا جوڈیشل پالیسی میں ایسی بامعنی اصلاحات ہو چکی ہیں کہ یہ سہولت اب ہر سائل کے لیے دستیاب ہے یا یہ صرف میاں شہباز شریف صاحب کو ہی دستیاب تھی؟ خیر یہاں اس روز سماعت ختم ہو گئی۔ اب آج کا احوال سنیے۔
ابھی کالم لکھنے بیٹھا ہوں اور تفصیل پڑھ رہا ہوں کہ جب سماعت شروع ہوئی تو معزز سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ شہبازشریف کا کیس سسٹم کے تحت مقرر ہوا تھا یا خاص طور پر سماعت ہوئی؟ رجسٹرار ہائی کورٹ نے عرض کی کہ درخواست اعتراض کے لیے مقرر ہوئی تھی لیکن فیصلہ ہوا کہ اعتراض پر درخواست کے ساتھ ہی فیصلہ سنایا جائے گا۔ رجسٹرار ہائی کورٹ نے تفصیل بتائی کہ جمعہ کے روز ساڑھے نو بجے اعتراض لگا، ساڑھے گیارہ بجے کیس کی سماعت ہوئی اور اٹارنی جنرل کو جواب جمع کرانے کا وقت ہی نہیں دیا گیا۔
یہ سن کر سپریم کورٹ کے معزز جج جناب جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا " حکومتی وکیل کو ہدایت لینے کے لیے صرف 30 منٹ دیے گئے۔ ایک سال میں کتنے مقدمات کی جمعہ کو 12 بجے سماعت ہوئی؟ بتایا جائے کہ کتنے مقدمات میں یکطرفہ ریلیف دیا گیا۔ ہائی کورٹ نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ شہبا شریف کا نام کس لسٹ میں ہے۔ کیس اس طرح کا عمومی حکم جاری ہو سکتا ہے جیسا لاہور ہائی کورٹ نے کیا"؟
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ شہباز شریف کا ٹرائل کرنے والے جج کا ہائی کورٹ نے تبادلہ کر دیا۔ جس کا جواب شہباز شریف کے وکیل نے دیا کہ نیا جج لگانے میں کیا مسئلہ ہے۔ اب میرے جیسا طالب علم بیٹھا سوچ رہا ہے کہ تبادلہ کرنے والی ہائی کورٹ، سوال کرنے والا اٹارنی جنرل، مسئلہ سننے والی سپریم کورٹ۔۔۔ تو اس میں بیچ میں بولنے کی ضرورت شہباز شریف صاحب کے وکیل کو کیوں پیش آ گئی؟ حالانکہ نہ انہوں نے ٹرانسفر کی درخواست دی تھی نہ اس کا مطالبہ کیا تھا نہ حکم دیا تھا۔ پھر فوری طور پر ان کے منہ پر جواب کیوں آ گیا؟ یہ کیا معاملہ ہے؟ آدمی اس معاملے میں بولتا ہے جس میں وہ فریق ہو۔ یہاں میاں صاحب کا وکیل فریق نہیں تھا۔ شکایت حکومت کر رہی تھی۔ شکایت شہباز شریف کے بارے میں تھی ہی نہیں۔ جواب بھی شہباز شریف کے وکیل سے نہیں مانگا جانا تھا۔ پھر اس کا جواب انہوں نے کیوں دیا؟ بظاہر بڑاہومیو پیتھک سا سوال ہے لیکن سوال تو ہے۔
اب حکومت نے درخواست واپس لے لی ہے، عدالت نے کیس نبٹادیا ہے۔ یہ بحث گویا یہاں ختم ہو گئی۔ قانونی طور پر معاملہ نبٹا دیا گیا۔ لیکن میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ جو سوالات اٹھے ان کا جواب کون دے گا۔ یہ سوالات معمولی نہیں۔ ان میں جہان معنی پوشیدہ ہے۔ نظام کی اصلاح درکار ہے تو ان سوالات پر خیمہ زن ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ سوالات تاریخ کی امانت ہیں۔ سوالات اپنی پوری معنویت کے ساتھ موجود ہیں اور موجود رہیں گے۔